ڈاکٹر مفتی ساجد شاہ
نظام اسلام کی حفاظت وصیانت کے تمام سلاسل میں سے ایک اہم سلسلہ تصوف کا ہے ۔انتہائی حساس اور محتاط سلسلہ ہے ،جس پر فضل الٰہی ہوتا ہے اس کو یہ انعام ملتا ہے ،اللہ تعالیٰ جس کے دل میں اس سلسلہ کی مسافرت کا جذبہ عطا عطا فرماتا ہے،اس کو دنیا ومافیھا سے بے نیاز کردیتا ہے ،اکابرین امت میں ایک لمبی فہرست ہےاصفیا کی جماعت کی،جن میں سے ایک اہم اور قیمتی سرمایہ غوث العالم ،محبوب یزدانی ،تارک السلطنت سلطان مخدوم میر اوحد الدین سید اشرف جہاں گیر سمنانی رضی الموی عنہ کی ذات بہ برکت ہے ۔آپ نے ملک سمناں کے صوبہ خراسان ،شہر” سمناں“،۷۰۷ھ میں بادشاہ وقت سید سلطان ابراہیم کے گھر میں آنکھیں کھولیں،۷؍سال کی عمر شریف میں قرأت سبعہ کے ساتھ مکمل قرآن پاک کے حافظ ہوے اور ۱۴؍سال کی عمر شریف میں تمام علوم متداولہ پر عبور حاصل کیا ۔ آج پوری دنیا عجیب وغریب قوانین وضوابط سے گزر رہی ہے ،ہر ملک میں حاکم ”پی۔ایم“بننے کے لیے ایک خاص عمر اور تجربہ کی بندش ہے ،آپ کتنے بھی قابل ترین اور ذی صلاحیت ہوں ،فکر وتدبیر آپ کے لیے میدان مشق ہوں پھر بھی اگر باونڈیڈ ایج تک نہیں پہنچ سکے تو یہ ذمہ داری نہیں دی جاسکتی ہے ،لیکن ان تمام اصول وضوابط کے با وجود بھی کسی بھی ملک میں اس وقت امن وامان ،عدل وانصاف کا توازن بر قرارنہیں رہ پاتا ہے ،اس پر طرہ یہ کہ مظلوموں پر ظلم اور ظالموں کی حفاظت کا کام حکومتوں کے لیے باعث فخر بنتا جا رہا ہے ،علوم وفنون کو ترقی دینے کے بجاے حکومتیں تجوریاں بھرنے میں مصروف اور تعلیمی ادارے کی کام یاب پالیسیوں سے صرف نظر کرتے ہوے طلبہ پر ظلم واستبداد کی تاریخ رقم کرنے میں مصروف عمل ہیں کہیں پر تو تعلیمی ادارے بند کرنے کے فیصٗے ،کہیں تعلیمی بورڈ کی ڈیمولائزیشن ،تحقیقاتی درجات کی سیٹوں میں تخفیف،حکومتیں اپنی کام یابی سمجھ بیٹھی ہیں ،ایک مرتبہ سیٹ پر آنے کے بعد اس کو ابدی جاے قرار سمجھنے میں فرو گزاشت نہیں کرتے ۔حضرت سیدنا مخدوم اشرف جہاں گیر علیہ الرحمہ ۱۷؍سال کی عمر شریف میں ملک سمناں کے بادشاہ نام زد ہوے،اس ننھی سی عمر میں ملک سمناں عدل وانصاف ،امانت ودیانت ،علوم وفنون کا عظیم مرکز بن گیا ۔آخر وہ کون سی طاقت تھی جس نے موجودہ حکومتوں کے اعتبار سے نابالغ بچہ کے تخت نشیں ہوتے ہی پورا ملک امن وامان کا گہوارہ ،عدل انصاف کا مرکز،علم وفن کا محور بنا ؟عقل جواب دینے جب قاصر ہوجاے تو دامن اسلام میں آ کر سوال کرنا چاہیے ،تو جواب ملے گا ،ایمانی قوت سے بڑھ کر کوئی بھی قوت کام نہیں کر سکتی اس لیے اگر آج بھی دنیا کو امن وسکون چاہیےت تو پلٹنا پڑے گا ۔۔۔۔۔کی طرف ۔خیر جب آپ کا دل بادشاہت سے اچاٹ ہونے لگا تو ۲۵؍ سال کی عمر شریف میں سلطنت کو اپنے چھوٹے بھائی سید محمد اعرف کے سپرد کرکے ہندوستان کی طرف روانہ ہوے ۔ملک محمد جائسی نے لکھا ہے کہ امت محمدیہ کے صدیقین میں دو ایسے شخص ہیں جو ترک سلطنت کے لحاظ سے تمام اولیا پر فضیلت رکھتے ہیں ایک سلطان التارکین حضرت خواجہ ابراہیم بن ادہم اور دوسرے حضرت سیدنا محمد اشرف جہاں گیر سمنانی رضی اللہ تعالیٰ عنہما ۔
علم تصوف کا حصول :آج ہمارے کردار ورویہ سے ہمارا ہر معاشرہ چڑھتا ہوا معلوم ہوتا ہے،بعض کے حالات تو انتہائی دگر گوں ہیں استاذ شاگرد کو شاگرد نہیں سمجھنے کو تیار ہے اور نہ ہی شاگرد شاگرد ی کا طوق پہننا چاہتا ہے ،اساتذہ بھی اپنی اولادوں کو لندن پیرس اور نہ جانے کہاں کہاں بھیجنے کے بارے میں خوب غور خوض کرتے رہتے ہیں لیکن شاگرد کو اپنے ادارے سے نکل کر کہیں جانے پر تو آگ بگولہ ہوجاتے ہیں کہ کیا ہمارے یہاں پڑھائی نہیں ہو رہی تھی ،گرچہ ۹ گھنٹیوں میں ۳ ہی ۴ گھنٹیاں درس چلے وہ بھی ۴۰ ؍ منٹ کی پیریڈ میں ۲۰؍ منٹ گپ شپ اور اپنے حریف پر اشے کناے کرنے میں گزار دیں ،توقیر اکابر اور شفقت اصاغر تو اب عنقا کا ہم زاد ہوتے جا رہی ہے ۔کسی طرح طرح خدا خدا کرکے درجہ منتہا تک پڑھ بھی لیے تو اس دور مادیت میں ہم بھی بہتی گنگا کی نذر ہوجاتے ہیں ،ہمارے یہاں اب پیروں کا معیار دولت وثروت ،میک اپ شیک اپ،آگے پیچھے برق رفتار گاڑیوں کی بھیڑ،جھاڑ پھونک بنتے ہوے روحانیت آخری سانس کے مرحلے پہنچتی جا رہی ہے ۔جائزہ لیں !شہر ملتان میں ایک جگہ ”اوچ شریف “ہے ،یہاں پر سید جلال الدین بخاری نامی بزرگ رشد وہدایت کے قیمتی جوہر تقسیم فرما کر مخلوق یزدی کی قسمت سنواری کرتے تھے ،جب حضرت مخدوم سمناں سمناں سے نکل کر سمرقند ہوتے ہوئے آپ کی بارگاہ میں پہنچے،تو ۳؍دن تک آپ کی خانقاہ ہی میں قیام فرمایا،اس کے بعد حضرت بخاری موصوف علیہ الرحمہ نے آپ کو تمام سلاسل کی اجازت وخلافت عطا فرما کر ،ارشاد فرماتے ہیں ”بیٹااشرف ! جلدی کرو!شیخ علاوالحق کی بارگاہ میں حاضر ہوجاو ،بہت شدت سے وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں “،شیخ کامل کے حکم کی تعمیل کرتے ہوے مخدوم اشرف ،دہلی بہار ہوتے ہوے ،پنڈوہ ،ضلع مالدہ صوبہ بنگال شیخ علاوالدین کی بارگاہ میں پہنچے ۔اپ کے پہنچنے پر شیخ نے آپ کا بہ انداز شاہانہ استقبال کیا ،شیخ نے سلسلہ نظامیہ چشتیہ میں مرید فرما کر خلافت واجازت سے نوازا۔بعد حصول خلافت کے ۱۲؍سال تک آپ نے شیخ کی خدمت میں رہ کر مجاہدات وریاضات کے ذریعہ منازل سلوک ومعرفت کی تکمیل کرتے رہے ،اس کے ۸۸۲ھ میں بعد تکمیل سلوک کے اپنے شیخ کے حکم پر بنگال سے شیراز ہند جون پور ،بنارس ہوتے ہوے اجودھیا کے قریب شہر کچھوچھہ امبیڈکر نگر آ پہنچے اور وہی ں پر اپنی خانقاہ بنائی جہاں سے رشد وہدایت کے جوہر عام کیے ۔آپ کے علم و فن کا تذکرہ کرتے ہوے تاریخ نگاروں نے لکھا ہے کہ ”آپ کو صرف عربی فارسی پر ہی عبور نہیں تھا بل کہ اردو زبان کے سب سے پہلے ادیب بھی ہیں چناچہ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سابق سر براہ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے دریافت کی کہ آپ کا ایک رسالہ ،اردو میں ”اخلاق و تصوف “بھی تھا پروفیسر حامد حسن قادری صاحب کی بھی یہی تحقیق ہے ،جس کو آپ نے ۷۵۸ھ میں تصنیف فرمایا ،صفحات کا اشتمال ۲۸؍ ہے ،محققین کی تحقیقات سے ءیہ بات ثابت ہے ک۰ہ اس سے پہلے اردو نثر کی کوئی کتاب دست یاب نہ تھی ۔یہ تحقیقات بتانی ہیں کہ آپ”باباے اردو“ ہیں،اردو ادب کو سب سے پہلے آپ کی گود میں پناہ ملی ۔
۸۲۸ھ میں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔بتایا جاتا ہے کہ آپ نے کل ۳۱؍ کتابیں تصنیف فرمائی ہیں ،جو مرور ایام کے ساتھ معدوم ہوگئیں لیکن ۱۰؍ کتابیں بہ حالت صحیح دست یاب ہیں اور عالم اسلام کی کی مختلف جامعات میں محفوظ ہیں ،اکثر کتابیں فارسی میں ہیں ۔
ہماری جماعت میں محققین ومفکرین کی ایک لمبی تعداد ہے لیکن یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ اکابرین کی قیمتی تصنیفات دیمک کی غذا کیوں بنتی جا رہی ہے ،امام اہل سنت سیدنا سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ۱،۰۰۰ سے زائد مصنفات کا تذکرہ محققین نے فرمایا ہے ،لیکن ہماری قسمت و برق رفتاری دیکھیے کہ امام کی تاریخ وصال کو ۱۰۲؍سال ہوگیے لیکن نصف کتابیں بھی منظر عام پر نہ آسکیں ،اغیار کا طعنہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی لغت نہیں ہے جتنی ہے سب انھیں کی ہیں،امام نے ہمیں بے دست وپا نہیں چھوڑا ہے ،علامہ عبدالستاری ہمدانی صاحب قبلہ گجرات کے مکتبہ ”مرکز اہل سنت پوربندر“کے ذریعہ سے خبر ملی کہ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عربی لغت ہم نے شائع کی تھی لیکن فی الحال دست یاب نہیں ہے ،یوں ہی بات سے کتابیں تو عنقا کا ہم زاد ہیں ۔کیا یہی ہمارا انصاف ہے اپنے اکابرین کے ساتھ ؟۔قاضی عبدالرحیم بستوی علیہ الرحمۃ والرضوان مرکز اہل سنت کے صدر مفتی ہوا کرتے تھے ،معاصرین ومتعلقین ،معتبر ذرائع سے یہ بات ہم تک پہنچی کہ آپ نے ۹۰؍ہزار فتاوے صادر فرمائے لیکن ہاےافسوس کہجن کے لیے مرے تھے وہ رہ گیے وضو کرتے ۔خلیفہ صدر الافاضل میں ایک نام انتہائی قابل قدر ہے جنہوں نے ملک نیپال کو اپنی آخری آرام گاہ بنائی ،محدث اعظم نیپال ،حضور سلطان المناظرین علامہ مفتی عتیق الرحمٰن صاحب قبلہ نعیمی ،ان کے شاگرد ابھی بھی بہ حیات ہیں ،خود میرے والد گرامی کم خواندہ ہی سہی لیکن انھیں کے خوش نصیب شاگردوں میں ہیں ،آپ کو وصال فرماے ہوے تقریبا ۴۰؍ سال ہوگیے ۔علم نجوم پر ایک کتاب تصنیف فرمائی جس دیکھ کر ماہرین فن بتاتے ہیں بہ خدا یہ قیمتی ہستی اپنے زمانہ میں علم نجوم کے امام تھے ،کئی مناظرے کیے اور کسی بھی مناظرے میں شکست خواب بھی نہ دکھا سکی،لیکن تاریخ کےایک بھی صفحہ پر کوئی موجود نہیں ،درس نظامی کی مشہور زمانہ کتاب ”ملا حسن “کی عربی شرح تصنیف فرمائی ،اور یہ تصنیف زمانہ طالب علمی میں اپنے استاذ کے حکم کی تعمیل میں کی تھی لیکن آج تک طباعت کا زیور پہننے سے محروم رہی ۔مخدوم سمناں کی ۳۱؍کتابوں کا تذکرہ تاریخ نویسوں نے کیا ہمارے سامنے ۱،فوائد العقائد،۲۔لطائف اشرفی،۳۔مکتوبات اشرفی ،۴۔بشارت المریدین،۵۔اشرف البیان ترجمہ قرآن کے سوا ناپید کے مترادف ہیں کیا آنے والی نسلیں کثرت تعداد کا دعویٰ سن کر جب اس کا نصف بھی نہ دیکھیں گی تو یقین کریں گی یا کہ ہوائی باز گشت مانیں گی ؟۔یہ خدشہ ہے جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں ۔