ذوالفقاراحسن
داستانوی ادب کے ایک آخری افسانہ نگار انتظار حسین تھے جنھوں نے قدیم داستانوی ادب کو اپنے افسانوں میں زندہ رکھا۔وہ قدیم داستانوی ادب کے ایسے پاس دار تھے جنھوںنے اساطیر کو متروک نہیں ہونے دیا ۔ زمانہ جدید میں بھی انھوں نے اس روایت کسی نہ کسی طور اپنائے رکھا ۔ وہ بڑے پختہ کار اور تجربہ کار افسانہ نگا ر تھے ۔ کہانیاں ان کے اندر سے پھوٹتی تھیں ان کی لکھی ہوئی کہانیاں قاری کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتی تھیں ۔ ان کی افسانے اور ناول ہر سطح کے لوگ پسند کرتے ۔ ۱۹۳۵ ء کو طلوع ہونے والا آفتاب ادب اپنی پوری آب و تاب دکھا کر ۲ فروری ۲۰۱۶ ء بروز منگل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا ہے۔ تاہم انھوں نے اپنی تخلیقات کی ایک ایسی کہکشاں آسمان ادب پر پھیلا دی ہے جس کی تیز دودھیا روشنی نے ایوان ادب کو منور کر رکھا ہے ۔
انتظار حسین بلند شہر ( یوپی ) میں ۱۹۳۵ ء کو پیدا ہوئے ۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے ۔یہی وجہ ہے کہ ہجرت کا المیہ ان کے اندر سرایت کر گیا تھا ۔ یہ کرب اور دکھ ان کے افسانوں اور نالوں میں جا بجا دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس حوالے سے ان کا ناول ’’ بستی ‘‘ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔ ’’بستی ‘‘ ایک ایسا ناول ہے جس میں انھوں نے ہجرت کے المیے کو نہایت عمدگی سے بیان کیا ہے ۔ اس ناول میں انھوں نے اپنے اندر کے اس سارے کرب اور دکھ کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ ناول ان کی شہرت کا باعث بنا ہے ۔ انتظار حسین افسانہ نگار ، ناول نگار ، کالم نویس کے طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں ۔
ان کا پہلا ناول ’’ چاند گہن ‘‘ ۱۹۵۳ ء میں شائع ہوا پھر’’ کنکری ‘‘ ۱۹۵۵ء افسانوی مجموعہ جبکہ ’’دن اور داستان ‘‘ دوسرا ناول ۱۹۶۰ ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہوا ۔ انتظار حسین نے’’ آخری آدمی ‘‘،’’ زرد کتا‘‘ ، اور’’ شہرافسوس ‘‘ جیسے شاہکار افسانے اردو ادب کی زینت بنائے ۔
افسانوی مجموعوں میں ’’ گلی کوچے ‘‘ ، ’’ کنکری ‘‘ ، ’’ آخری آدمی ‘‘ ، ’’ شہر افسوس ‘‘،’’ کچھوے‘‘،’’ خیمے سے دور ‘‘ ،’’ خالی پنجرہ ‘‘ ، ناول اور ناولٹ میں ’’ چاند گہن‘‘ ،’’ دن اور داستان ‘‘ ، ’’ بستی ‘‘ ، ’’ تذکرہ ‘‘،’’ آگے سمندر ہے ‘‘،شامل ہیں ۔ ’’بستی ‘‘ کو رائٹرز گلڈ آدم جی ادبی انعام برائے ناول دیا گیا۔ ڈراموں میں ٹی وی کے لیے ’’ نفرت کے پردے میں ‘‘ ، پانی کے قیدی ‘‘، جب کہ اسٹیج کے لیے ’’خوابوں کے مسافر‘‘ اسٹیج ڈراما ‘‘ لکھے ۔
انتظار حسین کے فکر و فن کی عمیق نظری کے لیے ان کے افسانوی مجموعے ’’ گلی کوچے ‘‘ ( ۱۹۵۲ ء )کا مطالعہ ضروری ہے۔ افسانوی ارتقاء کے لیے منزل بہ منزل ان افسانوں تک پہنچنا چاہیے جو انھیں اوروں سے ممتاز کر دیتے ہیں ۔’’قیوما کی ماں ‘‘ ،’’ استاد ‘‘ ، ’’ خرید و حلوا بیسن کا ‘‘’’ چوک ‘‘، ’’ اجودھیا ‘‘ ، ’’ پھر آئے گی ‘‘ ’’ عقیلہ خالہ ‘‘ ، ’’رہ گیا شوق ‘‘ ،’’منزل مقصود ‘‘اور ’’ روپ نگر کی سواریاں ‘‘ جیسے افسانے ان کے شاہکار افسانے ہیں ۔ وہ دیگر افسانہ نگاروں کی نسبت زیادہ تیزی سے شہرت کے نردبان پر پاؤں رکھنے لگے ۔ یہی وہ افسانے ہیں جن کی وجہ سے انتظار حسین عالمی شہرت کے حامل ہوئے ۔
انتظار حسین کی افسانہ نگاری کا اگر بہ نظرعمیق مطالعہ کریں تو ان کی افسانہ نگاری کو چار ادوار میں منقسم کیا جا سکتا ہے ۔ پہلا دور جس میں ان کا اولین افسانوی مجموعہ ’’گلی کوچے ‘‘ (۱۹۵۱ئ) اور ’’ کنکری ‘‘ (۱۹۵۵ء ) زیور طباعت سے آراستہ ہوئے ۔ ان میں انتظار حسین کا انداز تحریر نہایت سادہ اور رواں ہے ۔ ان افسانوں میں وہ ماضی کی یادوں میں کھوئے ہوئے ہیں ۔ یہ دور ماضی کی یادوں او رتہذیبی و معاشرتی رشتوں کے احساس پر مبنی ہے ۔اس دور کے افسانوں میں ’’ آم کا پیڑ ‘‘ ، ’’ بن لکھی رزمیہ ‘‘ ، ’’ خرید و حلوہ بیسن کا ‘‘ ، ’’ روپ نگر کی سواریاں ‘‘ او ر’’ چوک ‘‘ میں قصبات کی فضا موجود ہے ۔ اس دورکے افسانے ایک گم شدہ دنیا کو یادوں کے سہارے تلاشنے کی جدوجہد ہے ۔ اس دور کی کہانیوں میں زیریں سطح پر ہجرت کا کرب بھی محسوس کیا جا سکتا ہے ۔اپنے بچھڑے ہوئے دوستوں ، گلی محلے کی عمارتوں ، پتنگ بازوں ، کبوتر بازوں ، پنواڑی کی دکانیں ، امام بارگاہیں ، قوالی میں محفلیں اور اسی طرح کی معاشرتی زندگی کے کوائف کو بیان کرنے کی کامیاب و کامران کوشش ہے ۔ انتظار حسین اس دور میں یادوں کی پرچھائیوں میں جینے کی راہ تلاش کرتے رہے ہیں ۔ وہ ماضی میں آرام و سکون ڈھونڈتے رہے ہیں ۔ دوسرے دور میں ’’ آخری آدمی ‘‘ (۱۹۶۰ء )اس دور میں انتظار حسین انسان کے وجودی مسائل پر غور و فکر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ اس دور میں کہانیاں بیانیہ اور تمثیلی اندازمیں سامنے آتی ہیں ۔ جن کا اسلوب نہایت سادہ ہے ۔ اس دور کے اہم افسانوں میں ’’ آخری آدمی ‘‘،’’ زرد کتا‘‘، ’’ پرچھائیں ‘‘ ، ’’ ہڈیوں کا ڈھانچہ ‘‘ اور ’’ ٹانگیں‘‘ شامل ہیں۔ ان افسانوں کے موضوعات اگرچہ مختلف ہیں مگر ان میں درد کی لہر ایک سی ہے ۔ ’’ آخری آدمی ‘‘ یہودی اساطیرکی فضا میں لکھا گیا ہے۔اس کہانی میں انتظار حسین کی علامتیں ہمارے اجتماعی لاشعور اور تہذیب و تاریخ کے بطن سے جنم لیتی ہیں ۔ اس کہانی میں کردار وں کے نام او رصورت حال کے ارتقاء کو آسمانی صحائف او ربالخصوص قرآن کی اس مخصوص حکایت کے قریب رکھا ہے جہاں سے اس کہانی کو ماخوذ کیا گیاہے ۔ ’’ زرد کتا‘‘ میں عہد وسطیٰ کے صوفیا اور ان کے ملفوظات کی تمثیل موجود ہے ۔عہد نامہ عتیق کی زبان سے استفادہ کیا گیا ہے ۔اس میں ابو مسلم بغدادی کا کردار بڑا جاندار ہے جو اپنے نفس کے خلاف لڑتا رہتا ہے ۔ بنت الاخضر ایک رقاصہ کا کردار ہے جو ابو مسلم بغدادی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مرکزی کردار اپنے نفس کے ساتھ کشمکش جاری رکھتا ہے او ربالآخر خدا سے پناہ مانگتا ہے ۔یہ دونوں کہانیاں بڑی منفرد اور انوکھی ہیں ۔
تیسرے دور میں ’’ شہر افسوس ‘‘ کے افسانے ہیں جن میں سماجی و سیاسی نوعیت کی کہانیوں کو سامنے لائے ہیں جن میں سماجیات پر گہری طنز بھی ملتی ہے اس دور کے افسانوں کو ناقدین نے ماضی کی طرف مراجعت کا کہہ کر نظر انداز کر دیا انہیں انتظار حسین کے ذہنی سفر میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی ۔ ’’ شہر افسوس ‘‘ میں ہمیں دو طرح کی کہانیاں ملتی ہیں ایک وہ جن میں سماج کا کرب اور دکھ تمثیلی انداز میں اور رمزیہ اسالیب میں بیان کیا گیا ہے ۔ ان میں ’’ وہ جو کھوئے گئے ‘‘ ،’’ شہر افسوس ‘‘ ، ’’دوسرا گناہ ‘‘ اور ’’ وہ جو دیوار نہ چاٹ سکے ‘‘ شامل ہیں ۔اس دور میں ان کے ہاں مکالماتی کہانیاں بھی ملتی ہیں جن کے اسلوب میں داستانی انداز پایا جاتا ہے ۔ ’’ شہرافسوس ‘‘ میں ہجرت کے بعد کے مسائل کو بیان کیا گیا ہے ۔ دوسری کہانیاں وہ ہیں جن میں تمثیلی پیرائے کا لبادہ کہیں کہیں چاک کر دیا گیا ہے ۔ ’’ دوسرا گناہ ‘‘ میں انتظار حسین نے نہایت چابکدستی سے سماجی طبقات کی تقسیم اور ناہمواریوں کو خوبصورت سے بیان کیا ہے ۔ وہ بڑی باریک بینی سے معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں اور انہیں صفحہ قرطاس پر منتقل کر دیتے ہیں ۔ ’’ وہ جو کھوئے گئے ‘‘ میں ہجرت کے مسئلے کو غرناطہ ، جہاں آباد اور بیت المقدس کے تناظر میں دیکھا گیا ہے ۔ انتظار حسین نے صدیوں کے دکھ درد کے احساس کو اجاگر کیا ہے اور کہانی کا انجام بھی اسی دکھ کے احسا س کے ساتھ انجام پذیر ہوتا ہے ۔ ’’ مشکوک لوگ ‘‘ اور ’’دوسرا راستہ ‘‘ کا موضوع معاشرے میں پھیلی ہوئی بے یقینی ہے جبکہ ’’ شرم الحرم ‘‘ اور ’’ کانا دجال‘‘ کا موضوع بیت المقدس پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے ۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو انتظار حسین صرف اپنے اندر کے دکھ کو ہی بیان نہیں کرتے بل کہ خارجیت کو بھی اپنے افسانوں میں لے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی مسائل کو بھی انھوں نے نظر انداز نہیں کیا ۔ وہ بین الاقوامی حالات و واقعات پر بڑی گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔ چونکہ افسانے کا تعلق زندگی سے بہت گہرا ہے اس لیے ایک افسانہ نگار دنیا میں ہونے والے اہم واقعات اور حالات سے بے خبر نہیں رہ سکتا ۔وہ بین الاقوامی مسائل کو کسی نہ کسی طور اپنے افسانے کا حصہ بنا لیتا ہے ۔ وہ اجتماعی دکھ کو انفرادی دکھ کے سانچے میں پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ بعض اوقات انفرادی دکھ کو اجتماعیت میں دیکھنے کی سعی کرتا ہے ۔
چوتھا دور ’’ کچھوے ‘‘ (۱۹۸۱ئ)اور’’ خیمے سے دور ‘‘ کے افسانوں کا ہے جن میں نفسیاتی، دیومالائی اور دیگر اساطیری روایتوں کو باہم آمیز کر کے افسانوں کی عمارت کو اٹھایا گیا ہے یہی وہ دور ہے جس کے افسانوں نے ان کو ایک نئی پہچان عطا کی ۔ ان کی دیومالائی اور اساطیری افسانے بہت مقبول ہوئے ۔ اسی دور میں انھوں نے ماضی کی پرچھائیوں ، بھولی بسری یادوں یا تقسیم سے پیدا ہونے والے معاشرتی المیے کے حوالے سے سادہ اور رواں کہانیاں تخلیق کیں ۔ اس دور میں بدھ کی جاتکی کہانیوں ، قصص الانبیاء ، عہد نامہ قدیم ، وید مقدس ، اور قرآن مجید کے اجزاء باہم ایک ہو کر کچھ ایسے رچاؤ کے ساتھ سامنے آئے ہیں کہ جس میں موجودہ سیاست اور تہذیب کی جھلکیاں بھی نمایاں ہو گئی ہیں ۔
’’ کچھوے‘‘ بدھ جاتکوںپر مبنی کہانی ہے ۔ جس میں شانتی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اسی دور کی اہم کہانی ’’ کشتی‘‘ ہے اس میں قدیم سامی و اسلامی روایتوں اور ہندوستانی دیومالائی حکایتوں کو باہمی مربوط کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں ’’ افسانوی تکنیک کاایسا تجربہ ہے جس کی کوئی مثال اس سے پہلے دور میں نہیں ملتی ’’ کشتی ‘‘ میں مسئلہ نسل انسانی کی تباہی و بربادی اور اس کی بقا (Survival) کا ہے ۔ ‘‘
انتظار حسین کے افسانوں میں عورت خال خال ہی دکھائی دیتی ہے ۔ اس دور کے مجموعے ’’ خیمے سے دور ‘‘( ۱۹۸۶ئ) میں ہجرت کے مسائل اور جاتک کہانیوں کے علاوہ جو چیز خاص دکھائی دی وہ عورت ہے ۔ ان کے افسانوں میں مرد اور عورت کے تعلق کے حوالے سے فطری رنگ بہت مدھم رہے ہیں ۔ ’’پوراگیان‘‘ اور ’’ نر ناری ‘‘ جیسے افسانوں میں انھوںنے اس کمی کو پورا کیا ۔ ’’ مور نامہ ‘‘ ان کا ایک ایسا افسانہ ہے جس میں پاکستان کے ایٹمی دھماکے کے پس منظر میں چاغی کے پہاڑوں میں پائے جانے والے موروں کی کہانی ہے جودھماکے سے قبل کی چہکار کو بھول کر اب گونگے بہرے ہوگئے ہیں ۔ انھوں نے پاکستان کے ایٹمی دھماکے کو ایک اور انداز میں دیکھنے کی کوشش کی ہے جو ان کے اندر ہمدردی کا پتہ دیتا ہے ۔بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو پہلے دو رمیں معاشرتی یادوں کی کہانیاں ، دوسرے دور میں انسان کے روحانی او راخلاقی دور کا قصہ اور اس کے وجودی مسائل کا ذکر ۔ تیسرے دور میں سماجی مسائل کی کہانیاں او رچوتھے دور میں نفسیاتی کہانیاں اور بدھی جاتک او رہندو دیومالائی اور دیگر اساطیری کہانیوں کا امتزاج ملتا ہے ۔ اس ادوار سے انتظار حسین کے موضوعات کے علاوہ فنی و فکری ارتقاء کا پتہ چلتا ہے ۔ بقول گوپی چند نارنگ ’’ انتظار حسین نے افسانے کو متصوفانہ اور فلسفیانہ جستجو اور تڑپ (Mystical Quest ) سے آشنا کر ایا ۔‘‘
انتظار حسین کی افسانہ نگاری کا عرصہ بے حد طویل ہے ان کے مختلف ادوار میں مختلف موضوعات بھی سامنے آتے رہے ہیں ۔ ان کے موضوعات میں ہجرت ، مایوسی ، ڈر اور خوف کی نفسیات ، مذہبی ، اخلاقی اقدار کی شکست و ریخت اور ماضی کی بازیافت شامل ہیں۔ انتظار حسین کے ہاں ہجرت کا المیہ سب سے بڑا دکھ بن کر سامنے آتا ہے ۔ یہ دکھ ان کے اولین ناول ’’ چاند گہن ‘‘ اور افسانوں کے مجموعے ‘‘کنکری ‘‘ میں طرح طرح سے سامنے آیا ہے ۔ ان کے فن میں ارتقاء موجود رہا ہے ۔ انتظار حسین اردو کے جدید مختصر افسانے کی اہم شخصیت ہیں ۔ جنھوں نے اردو افسانے کے وقار میں اضافہ کیا اور اسے اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں پہنچ کر اردو افسانہ فخر سے اُن کی طرف دیکھ رہا ہے ۔
٭٭٭٭٭