ڈاکٹر محمد اکمل خان
میں خود میں شعلوں کا اک جہاں ہوں، مجھے مٹا دو!
فضا میں پھیلا ہوا دھواں ہو، مجھے مٹا دو!
پرانا ویراں سا اک مکاں ہوں، مجھے مٹا دو!
کھنڈر کی ٹوٹی سی جالیاں ہوں، مجھے مٹا دو!
اگر میں زندہ رہا مسائل کھڑے کروں گا
تمہاری شازش سے آشنا ہوں، مجھے مٹا دو!
وہ دن گئے کہ اکیلا ظلمت سے لڑ رہا تھا
میں اب بغاوت کا کارواں ہو، مجھے مٹا دو!
خیال بن کر نکل گیا تو تلاش کرنا
ابھی تو ذہنوں کا بس گماں ہوں، مجھے مٹا دو!
جگر میں جنگ و جدل کے کہرام کا ہوں خالق
دلوں کی آواز بے اماں ہو، مجھے مٹا دو!
بنوں گا مہمان جب تمہیں بھی لحاظ ہوگا
ابھی تمہارا میں میزباں ہوں، مجھے مٹا دو!
میں اگلی نسلوں کی آبرو ہوں، مٹا دو مجھ کو
میں اپنے ماضی کی داستاں ہوں، مجھے مٹا دو!
جو ہوتا اکملؔ تو اپنے ہونے پہ فخر ہوتا
میں نامکمل ہوں، بے نشاں ہوں، مجھے مٹا دو!
٭٭٭
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد
9491971786