اندھیرا، موت اور مسیح سپرا کاایک اجمالی خاکہ

0
0

⁦✍️⁩قسیم اظہر

ادیب دوراں، سلطان القلم مشرف عالم ذوقی صاحب کی” اندھیرا، موت اور مسیح سپرا” ایک غیر مطبوعہ ناولٹ ہے، جس کی ابتداء ہی اتنی دلکش اور دلآویز ہے کہ قاری پڑھتاہی چلاجائے، زندگی اور موت سے آمیز فلسفیانہ باتیں اس پر چار چاند لگا دیتی ہے اور جلد ہی قاری کو اپنے انداز بیاں سے دل کو موہ لیتی ہے، اسے اپنے سحر میں گرفتار کرلیتی ہے اور اس کے دل پر ایسی زد لگاتی ہے کہ وہ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی سرد خانوں اور سفید چادروں کے حصار میں طلسماتی اندھیر نگری سے نہیں نکل سکتا۔

ذرا دیکھیے اس اقتباس کو اور خود ہی اندازہ لگائیے کہ دنیا اور زندگی سے دور، وحشتوں کی وادیوں میں خیمہ لگانے والا مسیح سپرا موت کاتصور کیسے کرتاہے۔

"سپرا کے لیے یہ خیال کافی تھا کہ وہ مرچکا ہے اور اس کا زندگی سے ہرطرح کا تعلق ختم ہوچکا ہے۔ بقول مجومدار وہ ایک انجانے جزیرے کا سیاح ہے اور اس کے چہار اطراف دودھیانہ نہر بہہ رہی ہے، اسے احساس ہوا، باہر کتے رورہے ہیں اور بلّیاں بھی، رونے کی ان آوازوں کا تعلق بھی موت سے ہے اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ بلّیاں اور کتے انسانوں سے زیادہ موت کی آہٹ کو محسوس کرنے کی حس رکھتے ہیں، مسیح سپرا ہر انسانی کیفیت سے باہر نکلنا چاہتا تھا، مگر جس وقت وہ لیٹا ہوا تھا اور خود کو موت کی آغوش میں محسوس کررہا تھا اور اس عورت کو جو موت کا فرشتہ تھی اور نقاب میں تھی، اس کو بھی قریب سے دیکھ رہا تھا”

 

اگر آپ مسیح سپرا کی اس اندھیری نگری میں چراغ روشن کریں گے تو اجگر کئی زندہ لاشوں کو نگل کر ڈکاریں لے رہا ہوگا، مایوسیاں بند کمرے میں واویلامچارہی ہوں گی، موت اپنے منہ کو پھاڑے قہقہہ لگارہی ہوگی، اگر آپ ان قہقہوں کو نچوڑیں گے تو آنسو ہی آنسو نظر آئیں گے، آپ محسوس کریں گے کہ تھوڑی دیر پہلے ایک اور دنیاتھی، وہ اب نہیں رہی، تھوڑی دیر پہلے ایک چراغ تھا وہ اب گل ہو چکاہے، ایک گلشن تھا وہ اب نہیں رہا، جمہوریت تھی اب نہیں رہی، قانون اور عدالتی نظام تھے لیکن اب نہیں____!

 

سپرا کی داستان کو پڑھتے پڑھتے آپ نمدیدہ ہونے سے خود کو روک نہیں پائیں گے، ٦/دسمبر/١٩٩٢ کی تصویر آپ کی زاویہ نگاہ میں آپ کو ماضی کاالمیہ سنانے لگے گی۔

جب چاند خونی افق میں نہاکر آسمان میں تیررہاتھا، بچے اور بوڑھے بسترے پر پہلو بدل رہےتھے، سمندری لہریں خاموش اور ساحل سنسان پڑاتھا، زعفرانی کپڑوں میں ملبوس بندروں اور خانہ بدوشوں کی جماعت تاریخی اور پرانی عمارت کے گنبد پر چڑھ کر اسے ملبے میں تبدیل کر رہےتھے، تمام سیاسی پارٹیاں ایک ہی حمام میں ننگی کھڑی تھیں، آرمی اور پولیس کادستہ جنگلی سوروں کو سیلوٹ کررہاتھا، وشال کرشن ناتھانی، بانسری جوشی اور شردھابھارتی اپنے سڑے ہوئے بدبودار سپنے کو ساہکار ہوتے دیکھ کر خوشی سے جھوم رہے تھے، ناولوں کی مقبولیت سے سیاست کابڑاچہرہ بننے والا باکردار لیڈر، مسیح سپرا سیاست سے ناواقف اور جذباتی انسان تھا، وہ سیاسی میدان کو خیرآباد کرچکاتھا۔

بوڑھا کرشن ناتھانی اپنے بندروں اور جنگلی سوروں سے کہہ رہاتھا۔
میری بات اچھی طرح گانٹھ باندھ لو "ممکن ہے زندان کادروازہ کھل جائے، ممکن ہے، مذہبی عمارت کو گرانے کے عوض میں ہم پر مقدمہ چلایا جائے! مگر یہاں ہم سب دوست ہیں، جو زندان کے پالن ہار ہیں، وہ بھی؛ جو بیڑیوں میں بند ہیں، وہ بھی؛ جو وحشتوں کے اسیر ہیں، وہ بھی؛ جوسیاست کے مزدور ہیں، وہ بھی؛ جو حکومت کے طرفدار ہیں، وہ بھی؛ اس لیے تماشہ تو ضرور ہوگا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا، کیوں کہ سب اپنے ہیں، اوران کی تعداد بہت کم ہے جو پرانی عمارت سے چپکے ہوئے ہیں”

مصنف نے پردے کی آڑ میں چھپے بھیانک چہروں سے کیسے نقاب کشائی کی ہے___؟ کیسے انہیں ننگا کیاہے___؟اس کی ایک جھلک پیش کرتاہوں، یقین مانیں! آپ مصنف کو داد دیے بغیر نہیں رہ پائیں گے۔

 

تم سب سے اعلیٰ عہدے پر فائز ہو۔
ہاں،ایسا ہے۔ ۔ ۔ ۔’
اور تم ایک سیاسی آدمی ہو۔
‘ منظور۔’

‘ اور تم پر ذمہ داری تھی کہ پرانی عمارت۔ ۔ ۔ ۔ ۔’
‘ میں ایک مذہبی آدمی بھی ہوں۔’

‘ کیا مذہبی آدمی آئین اور دستور کا خیال نہیں رکھتا؟’
‘ مذہب کا دائرہ ان دائروں سے زیادہ بلند ہے۔’

‘ کیا تم کو معلوم ہے کہ افراتفری میں کتنے لوگوں کی جان گئی؟’
‘ تین سو چھیاسی۔’

‘اور اس موقع پر کتنے شہروں میں فساد ہوا۔’
‘ ایک سو باون۔’

‘ ذمہ دار کون ہوا؟’
‘ سلطان۔’

‘ کیا سلطان نے پرانی عمارت کی تعمیر کی تھی؟’
‘ ایسا ہی ہے۔’
‘ کیا پرانی عمارت سے پہلے بھی کوئی عمارت تھی، اس کا کوئی ثبوت ہے؟’
‘ آستھا ہے۔’
‘ آستھا اور آئین کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟’
‘ جتنا فاصلہ آپ کے اور ہمارے درمیان۔’

‘ کیا آپ کو پرانی عمارت کے ٹوٹنے کا غم ہے؟’
‘ نہیں۔ حادثہ یہ ہے کہ آپ مجھے عدالت میں لے کر آئے اور اس ملک میں یہ پہلی بار ہورہا ہے۔’

‘ کیا پہلی بار ایسا نہیں ہوا کہ بغیر جواز یا ثبوت کے ایک پرانی عمارت محض اس قیاس پر ڈھادی گئی کہ اس کے نیچے کوئی اور عمارت موجود تھی؟’
‘ آستھا۔’

‘ آستھا کا تعلق کن لوگوں سے ہے ؟’
‘ صرف اکثریت سے۔’

‘ اور اقلیت ؟’
‘ حکومت اقلیتوں کے ووٹ سے تعمیر نہیں ہوتی۔’

‘ اقلیتوں کا خیال رکھنا بھی ضروری نہیں ہے؟’
‘ ہاں۔’

‘ کیا آپ جانتے ہیں کہ پرانی عمارت اب جبکہ ایک تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، یہ تاریخ آپ کے مرنے کے بعد بھی دہرائی جاتی رہے گی اور آپ کا نام۔ ۔ ۔ ۔ ؟’
‘ زندہ رہے گا؟’

‘ آخری سوال۔ آپ کی حکومت کا رنگ کیا ہے؟’
‘ زعفرانی۔’

‘ اور جو دوسری پارٹی سامنے آئی ہے؟’
‘ اس وقت سب سے بڑی طاقت زعفران ہے۔ جس کا حصہ مضبوط ہوگا، بندر اسی کے ہوں گے۔’

‘ بندر کیوں؟’
‘ ڈارون نے کہا تھا۔ ہم سب بندر ہیں۔’
‘ اور بندر پرانی عمارت پر چڑھ کر، عمارت کو ملبہ بناسکتے ہیں؟’

‘ آستھا۔ اب میری میٹنگ کا وقت ہے۔’

آخر کار پڑھتے ہوئے آپ یہ فیصلہ لینے پر مجبور ہوجائیں گے کہ” اندھیرا، موت اور مسیح سپرا” یہ ناولٹ ہے ہی نہیں بلکہ بھارتی مسلمانوں کی دل سوزی، ان کو مشق ستم بنائے جانے اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کی ایک خونچکاں داستان ہے جس پر خامہ فرسائی کرنا بڑے بڑے قلم کاروں کے لیے بہت مشکل ہے، مگر ذوقی کے قلم نے یہ کردکھایا۔

میری یہ بات تسلیم کیجیے!
یہ قول "عین ممکن ہےکہ سعادت حسن مرجائے لیکن منٹو زندہ رہے گا” اگر کسی پر صادق آتا ہے تو وہ ذوقی ہی ہیں‌۔

ہاں..! منٹو آج بھی بشکل ذوقی زندہ ہے، آج بھی اس کے وہی تیورہے، وہ آج بھی سچائی کی آواز بن کر کھڑاہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا