اساتذہ کا ادب واحترام کامیابی کی ضمانت ہے

0
0

 

 

محمد عامل ذاکر مفتاحی
استا د کو ہر زمانے میں قدروں کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے کیونکہ استاد علم کے حصول کا براہ راست ایک ذریعہ ہے اس لے انکے تکریم اور احترام ہم پر لازم ہے۔استاد ہی شخصیت سازی اور کردار سازی میں معاون کردار ادا کرتے ہیں۔اسلامی تعلیم میں بھی استاد کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اس لے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ’’ انما بعثت معلما‘‘ کہ مجھے ایک معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ جو اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ اسلام میں بھی استاد کا مقام و مرتبہ نہایت بلند و بالا ہے۔اسی لے کہا جاتا ہے کہ اساتذہ کسی بھی معاشرے کا معمار ہوتے ہیں قومیں نئی نسل میں اپنی اقدار اور روایات کی تشکیل جن اداروں کے ذریعہ کیا کرتی ہے ان میں استاد سرفہرست ہیں قوم کے بچوں کو حرف شناسی سے لیکر قومی و ملی امنگوں سے ہم اہنگ تک اساتذہ اپنے کردار کو باخوبی نبھاتے ہیں۔ کسی مفکر نے کہا تھا کہ استاد کی عزت کرو یہ وہ ہستی ہے جو تمہیں اندھیرے سے نکال کر روشنی کی راہ دیکھاتی ہے۔اور یہ حقیقت بھی ہے ایک روز ایک کلاس میں شاگرد نے اپنے ریاضی کے استاد محترم سے یہ سوال کیا کہ جب انگلش پڑھانے والے استاد انگلش میں ، اردو والے استاد اردو میں اور عربی والے عربی میں گفتگو کرتے ہیں توآب بھی ریاضی میں کیوں بات نہیں کرتے ۔ استاد نے اپنے شاگرد نے کہا کہ مجھ سے تین پانچ مت کرو، ساری چارسو بیسی نکال دوں گا، چلو نو دو اگیارہ ہو جائو ورنہ ایسا ماروں گا کہ ایک کہ دو دونظر آئیں گے،،مذکورہ بالا جملوں میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ استاد نے اپنے استادی فن کی بدولت کس طرح اپنے شاگرد کی بولتی بند کر دی اسی لے استاد کو استاد کہا جاتا ہے۔
1954ء میں ہندوستان کے سب سے بڑے شہری ایوارڈ’’بھارت رتن‘‘ انعام یافتہ ہندوستان کے دوسرے صدر جمہوریہ رہ چکے ڈاکٹر رادھا کرشن کے یو م پیدائش پر5 ستمبر کو ملک بھر میں یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر رادھا کرشن نے اپنی زندگی کہ 40سال استاد کے طور پر گزارے تھے۔ جب وہ 1962 میں صدر کے عہدہ پر فائض ہو ئے تو کچھ شاگرد انکے پاس گے اور یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اپنا پیدائشی دن یوم اساتذہ کے طور پر منائیں۔ اس طرح انکے حامی بھر لینے کے بعد سارے ملک میں ڈاکٹر رادھا کرشنن کی پیدائش کے دن 5 ستمبر کو یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔

مولانا ابولکلام ازاد کی نگاہ میں اساتذہ کوذمہ دار، محنتی،فرض شناس انسان ہونا چاہیے انکے مطابق استاد شمع کی مانند ہے جو خود کو جلا کر روشنی کرتی ہے۔

ایک بہترین استاد کا یہ نصب العین ہے کہ وہ ہرمقام پر اپنے شاگروں کی حوصلہ افزائی کریں اور انکے کردار میں مثبت سوچ پیدا کریں۔
عام طور پر یہ دیکھا جارہاہے کہ وقت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ٹیچر ڈے کے منانے کے طریقہ کار پر بھی تبدیلی آئی ہے آج متعدد اسکولوں میں ٹیچر ڈے کو موقع پرتحائف کے نام پر بچوں پر یہ دبائو بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنے استاد کے لے قیمتی سے قیمتی تحائف کا بندوبست کریں بیشترنجی اسکولوں میں فحش گانوں پربچے رقص کرتے ہوئیں دیکھائی دیتے ہیں یہ ا عمال بچے کے ذہن اور استاد کے لے بھی ازہر آلود ہوسکتے ہیں اس لیئے ٹیچر ڈے ہمیں نہایت سادگی کے ساتھ منانا چاہیے۔
لیکن دور حاضر کے طلباء اپنے استاد کااحترام کرنے سے عاجز و قاصر ہیں اگر احترام کرتے ہیں تو دوران تعلیم، تعلیمی فراغت کے بعد طلبہ اساتذہ کو سلام تک نہیں کرتے۔ یہ اچھے معاشرے کی تشکیل کی علامت نہیں ہمیں اپنا محاسبہ کرتے ہوئے جن استادوں سے ہم نے تعلیم حاصل کی انکار احترام ہمارے لے تمام عمر لازم ہیں ہم زندگی کے کسی بھی بڑے عہدہ پر کیوں نہ فائض ہوجائے مگر استاد کی تعظیم ہر حال میں کریں ۔ آج کے معاشرے میں ایک خرابی یہ دیکھی جارہی ہے کہ اگرہم اعلیٰ عہدہ پر فائض ہوجاتے ہیں تو اپنے استاد جن سے ہم نے پرائمری میں تعلیم حاصل کی تھی انکے احترام میں کھڑا ہونا معیوب سمجھتے ہیں ۔

ہندوستان کے مقابل میں دوسرے ملک جو آج ترقی کر چکے ہیں اور ہر لحاظ سے ہم سے آگے نکل چکے ہیں ان کی ترقی، امن و خوش حالی سب سے بڑا راز یہی ہے کہ وہاں ایک معلم کو ملک کے وزیراعظم سے بھی زیادہ عزت حاصل ہے۔ حضرت علی کا قول ہے کہ ’’ اگر کوئی مجھے ایک لفظ بھی سکھا دے تو میں اس کو اپنا استاد مانتا ہوں۔‘‘

یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اُستاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ اُستاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن، مہرومحبت و دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ اُستاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گم راہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔

معاشرے میں جہاں ماں باپ کا کردار بچے کے لیے اہم ہے، وہاں استاد کو بھی اہم مقام حاصل ہے۔ ماں باپ بچوں کو لَفظ بہ لفظ سکھاتے ہیں، ان کی اچھی طرح سے نشوونما کرتے ہیں، ان کو اٹھنے، بیٹھنے اور چلنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں مگر استاد وہ عظیم رہنما ہے جو آدمی کو انسان بنا دیتا ہے، آدمی کو حیوانیت کے چُنگل سے نکال کر انسانیت کے گُر سے آشنا کرواتا ہے۔ استاد آدمی کو یہ بتاتا ہے کہ معاشرہ میں لوگوں کے ساتھ کیسے رشتے قائم رکھنے چاہئیں۔ استاد، ایک معمولی سے آدمی کو آسمان تک پہنچاتا ہے

چنانچہ اساتذہ کی خدمات کا کوئی نعم البدل نہیں سوائے اس کا کہ ہم انکا دل سے احترام کریں اور جو اس دنیا میں نہیں ہے انکے خراج عقیدت کے طور پراگر ہم صاحب ثروت ہیں تو انکے اہلیان کی ہوسکے توکچھ مدد کردے تب ہی ٹیچر ڈے ٹیچرڈے ہوگا ورنہ نمائش کے سوا کچھ بھی نہیں ۔اللہ رب العزت ہم لوگوں کو اپنے استاد محترم کی تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین

محمدعامل ذاکر مفتاحی
مدرسہ فاروقیہ و الفلاح کلاسس گوونڈی ممبئی
رابطہ نمبر 9004425429

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا