5ستمبر یوم اساتذہ

0
0

معاشرے میں اساتذہ کے احترام میں کمی کا ذمہ دار کون؟

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

اساتذہ کی تکریم و احترام میں ملک میں ہر سال یوم اساتذہ 5 سمبر کو بھارت کے دوسرے صدرجمہوریہ ڈاکٹر رادھا کرشن کی یوم پیدائش پر منایا جاتا ہے جو ایک ماہر تعلیم فلاسفر کے علاوہ چالیس سال تک بحثیت استاد رہے ہیں – اس دن جہاں بہتر کارکردگی دکھانے والے اساتذہ کو انعامات و اعزازات سے نوازا جاتا ہے وہیں مختلف سکولوں میں اس دن تقریبا ت کا اہتمام کر کے اساتذہ کو شاگروں سے تحائف وغیرہ بھی پیش کئے جاتے ہیں – دنیا کے مختلف مذاہب نیجہاں استاد کو گرو کا درجہ دیا ہے وہیں دین اسلام نے بھی استاد کو کو ایک اعلیٰ پائے کا درجہ عطا کیا ہے – پوری دنیائے انسانیت کے معلم اعلیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علم سیکھوں اور علم کے لیے سکینت اور وقار سیکھو اور جس سے علم حاصل کرو اس سے تواضع سے پیش آؤ۔ پیغبر آخر الزماں حضرت محمد ﷺکو دْنیا میں معلم بنا کر بھیجا گیا ۔ اسلامی تعلیم میں بھی استاد کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اس لئے ا?پ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ’’ انما بعثت معلما‘‘ کہ مجھے ایک معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ جو اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ اسلام میں بھی استاد کا مقام و مرتبہ نہایت بلند و بالا ترہے۔اسی لے کہا جاتا ہے کہ اساتذہ کسی بھی معاشرے کا معمار ہوتے ہیں قومیں نئی نسل میں اپنی اقدار اور روایات کی تشکیل جن اداروں کے ذریعہ کیا کرتی ہے ان میں استاد سرفہرست ہے -استاد قوم کا معمار ہوتا ہے نسلیں در نسلیں ان ہی کی زیرنگرانی پروان چڑھتی ہیں۔ سماج اور معاشرہ کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے معلم اور اساتذہ کیسے رہے ہونگے-استاد شاگرد کی نہ صرف عصری تعلیم سے منور کرتا ہے ہے بلکہ وہ اسکی مکمل تربیت کرتا ہے – استاد اس وقت استاد ہے جب وہ خود کو ایک طالب علم تصور کرے یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہیکہ وہ بنا مذہب و ملت رنگ اور ذات پات کے طلبہ کی صحیح سمت میں رہنمائی کریں تو دوسری طرف طلبہ کے لئے یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ علم کے متلاشی بنیں، سیکھیں اور تحقیق کریں تب ہی اسکی مستقبل سنور سکتی ہیں۔استاد کو ہر زمانے میں قدروں کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے کیونکہ استاد علم کے حصول کا براہ راست ایک ذریعہ ہے اس لے انکے تکریم اور احترام ہم پر لازم ہے۔ ایک شاگر کی شخصیت سازی، کردار سازی میں استاد کا اہم رول ہوتا ہے – استاد کو چاہئے کہ وہ پڑھانے کے ساتھ ساتھ خود بھی پڑھا کریں چونکہ اگر کس استاد نے یہ سمجھ لیا کہ اس نے تعلیم مکمل کر لی ہے اسکی یہ سوچ درس وتدر یس کے کام کو براہ راست اثر انداز کر سکتی ہے -اور اس کی تربیت میں بھی وہ اثر نہیں پایا جائے گا – ایک استاد کو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ خود کو اپ ڈیٹ رکھنے کی ضرورت ہے تب جا کر ہی وہ ایک بہتر معلم تصور کیا جاسکتا ہے ۔
پرانے زمانے میں استاد کو جس احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتاھا یہ اب دھیرے دھیرے کم ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے – اس کی بنیادی وجوہات جہاں تک سمجھ میں آتی ہیں اس کا ذمہ دار کسی حد تک موجودہ دور کااستاد بھی ہے جو اپنے فرائض کو بھول کر طلبہ کے ساتھ قریبی دوستی کے رشتے قائم کر کے وہ استاد اور شاگرد کے فاصلیکو ختم دینا ہے – استاد اور شاگرد کے درمیان فرینڈ شپ نے استاد کے احترام میں نمایا کمی کر دی ہے – وہی والدین کی طرف سے بچوں کے سامنے ان کے اساتذہ کی برائی کرنا بھی استاد کے احترام میں کمی کی اہم وجوہات سمجھی جا رہی ہیں – کئی اساتذہ دن رات محنت کر کے خود پڑھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہیں معاشرے میں کچھ ایسے بھی اساتذہ آج کے دور میں موجود ہیں جنہوں نے ٹیوشن کی شکل میں اس پیشے کو کاروبار کی شکل دے دی ہے – جدید دور میں بہت کم قلیل اجرت پر اساتذہ بچوں کی کل ہم تعمیر کے لئے کام کرتے تھے اور اسے سماجی یعنی سوشل ورک کے طور پر مانتے تھے لیکن اب تصویر کچھ بدل گئی ہے – اس میں کوئی شک نہیں کہ ابھی بھی ہمارے معاشرے میں کچھ استاد ایسے موجود ہیں جو کہ اسی راہ پر گامزن ہے اور ان کا سماج میں ایک الگ اور قابل قدر مقام کی حثیت حاصل ہے – لیکن کچھ ایسے بھی استاد ہیں جنہوں نے اس پیشے کو ٹائم پاس کے لئے پار ٹائم جاب کی طرح اپنایا ہوا ہے – یہ کچھ چند وجوہات ہیں جن سے استاد کے وقار اور احترام میں دن بہ دن کمی دیکھنی کو مل رہی ہے کسی مفکر نے کہا تھا کہ استاد کی عزت کرو یہ وہ ہستی ہے جو تمہیں اندھیرے سے نکال کر روشنی کی راہ دیکھاتی ہے۔
کچھ اساتذہ کی اپنے فرائض کے تئیں فرض شناسی اور کردار میں کمی کی وجہ سے معاشرے کے تمام اساتذہ کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے – آج کے دور میں بھی کچھ ایسے اساتذہ موجود ہیں ہیں جو بچوں کو بہتر تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی بہترین کردار سازی کرنے کے علاوہ اس وبائی بیماری کے دوران بھی اپنے فرائض کو انجام دینے میں مشغول ہیں اور اپنے کردار کا بہترین ثبوت پیش کررہے ہیں – ایک استاد کو جہاں ذمہ دار محنتی اور فرض شناس ہونا چاہئے وہیں سرکاروں اور محکمہ تعلیم کے آفسروں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے وہ استاد کی عزت اور وقار کو بحال کرنے کی کوشش کریں – پرائمری سطح استاد سے لیکر یونیورسٹی سطح تک کے استاد کی قدر اور اس کی اہمیت پر خاص توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے – اساتذہ کو مختلف ذمروں میں تقسیم کر کے اس فرق کو مٹانے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی استاد خود کو کم تر نہ سمجھے اور کچھ خود کو اعلیٰ تر ین۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دو سال قبل جموں کشمیر کے چالیس ہزار سے زائد رہبر تعلیم اساتذہ نے اپنی جائز مانگوں اور مطالبات کو لیکر 5 ستمبر کے اس دن کو جموں کشمیر میں یوم سیاہ کے طورپر منایا تھا اور سرینگر کی سڑکوں پر کالے کپڑوں میں ملبوس ہزاروں کی تعداد میں صدائے احتجاج بلند کر رہے تھ اورانہیں پولیس طاقت کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا -آج بھی کئی اساتذہ اپنیمے مختلف مسائل اور مشکلات کو لیکر در در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں – اعلیٰ آفسروں کے حکم کے باوجود ان کے ماتحت آفسرز ان اساتذہ کے مسائل کو حل کر نے میں عدم دلچسبی کا اظہار کر رہے ہیں اور یہ سینکڑوں اساتذہ آج بھی اپنی تنخواہ وں کی واگذاری و دیگر مطالبات کو پورا کرنے کی گہوار لگاتے نظر آتے ہیں – شاگردوں کے سامنے استاد کی تذلیل و دیگر اس طرح کے مسائل نے بھی استاد کی لگن اور دلچسپی دلچسپی دلچسپی دلچسپی کو کم دیا ہے – وہیں دوسری جانب نجی سکولوں میں دہائیوں سے کام کر رہے اساتذہ جو دن رات خون پسینہ ایک کر کے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں لیکن ان کے سکول ملکان جنہوں نے کروڑوں کی جائیدادیں ان اساتذہ کے بل بوتے پر بنائی ہیں ان سے کام لینے کے باوجود یہ لوگ لیبر قوانین کی دھجیاں بکھیر کر انہیں Minimum wages act سے بھی کم اجرت دی جارہی ہے جو کہ لیبر حقوق قوانین کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ اگر اسے انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی قرار دیا جائے تو بیجا نہ گا –
شہروں میں اس سلسلے میں محکمہ تعلیم کی طرف سے جاری کردہ احکامات پر کھبی کھبار عمل بھی کیا جاتا یے لیکن گاؤں میں ان اساتذہ کے ساتھ مالی طور ہر ظلم کا سلوک برابر رواہ ہے – 3 ہزار سے لیکر 5 ہزار کی کم۔ قلیل ماہانہ اجرت دے کر ان اساتذہ کو مالی و ذہنی طور پر پریشانیوں کا سامنا ہے – کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی چار کی تعلیم پر منحصر ہوتی یے اور اگر تعلیم فراہم کرنے والے اساتذہ ہی ذہنی و مالی طور پر پریشان ہوں تو اس معاشرے کا، مستقبل کیا ہو سکتا ہے یہ اپنے آپ میں ایک سوال ہے۔
موجودہ دور میں جہاں سرکار اور محکمہ کو اساتذہ کی حالت زار پر دھیان دینے کی ضرورت ہے وہیں دوسری جانب اساتذہ کو بھی خود احتسابی کی بے حد ضرورت ہے انہیں اپنے فرائض کو تندہی سے انجام دینے کے علاوہ اپنے کردار، اخلاق اور محنت پر بہت زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے – استاد اور شاگرد کے رشتے کو جان کر اس ہرچعملی طور ہر کام کرنے کے علاوہ بچوں کو بدی اور برائی کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ انہیں اساتذہ کے وقار اور ود کے بارے میں بھی جانکاری فراہم کرنے ہو گی – والدین کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اساتذہ کے تقدس اور تعظیم کے بارے میں واقف کرائیں –
موجودہ دور میں بچے اپنے استاد کا احترام کرنے سے قاصر ہیں اگر احترام کرتے ہیں تو دوران تعلیم،تعلیمی فراغت کے بعد اب تو ہمارے بچے اپنے استادوں کو سلام تک نہیں کرتے۔یہ اچھے معاشرے کی تشکیل کی علامت نہیں ہمیں اپنا محاسبہ کرتے ہوئے جن اساتذہ نے ہمیں تعلیم نے نور سے منور کیا یے انانکارپوریٹڈ احترام ہمارے لئے تا عمر لازم ہے۔ اج کے بچے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے ساتھ ہی اپنے کریمیا اور مڈل یا ہائی سکول میں پڑھانے والے استاد کے احترام۔ میں کھڑا ہونا معیوب سمجھتے ہیں – کھڑا ہونا تو دور سلام کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے – ٹیچرز ڈے منانے سے اساتذہ کا احترام نہیں کیا جا سکتا یے بلکہ موجودہ دور میں یہ ایک فیشن کی صورت میں ایک تفریح و مشغلہ بن کر رہ گیا ہے – اس دن کا مقصد تب ہی پورا ہو سکتا ہے جب اسراد اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر اپنے فرائض کو انجام دیں اور شاگرد کو یہ سبق ملے کہ استاد کا، مقام۔ کیا ہے – اس کے علاوہ معاشرے میں سماج کے ہر فرد کیساتھ ساتھ محکمہ تعلیم کے اعلیٰ آفسروں اور سرکار وں کو بھی اپنا رول نبھانے کی ضرورت ہے تب جا کر ہی استاد اور شاگرد کے اْس اعظیم رشتے کی قدر دوبارہ زندہ ہو سکتی ہے ورنہ یہ ایک نا ممکن سا عمل دکھائی دے رہا ہے ۔

(کالم نویس ایک ٹی جی ٹو ٹیچر اور فری لائنس رائٹر ہے) :
[email protected]
9858239083

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا