مدرس قوم کی بنیاد کے معمار ہوتے ہیں

0
0

اسلامی تہذیب میں استاد کا اعلی مقام ہے۔جس کی فضلیت کو بیان کرتے ہوے پوری دنیامیں انسانِ اول سے لیکر انسانِ آخر تک جس شخصیت کی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی مل پائے گی میری مراد حضرت محمد الرسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو بھی معلم ثابت کیاہے۔لیکن پھر بھی دنیا کا دستور کچھ الگ ہوتاہے۔اس دستور کے مطابق عالمی یوم اساتذہ پانچ اکتوبر جبکہ قومی یوم اساتذہ پانچ ستمبر کو منایاجاتاہے۔یہ قومی دن ایک عظیم شخصیت فلسفی اور علم کے عظیم رہنماء ڈاکٹر سروپلی رادھاکرشن کی پیدائیش کے موقع پر منایاجاتاہے۔جہاں انہوں نے ایک بہترین خدمت کی ہے۔وہی ایک قابل ترین بے مثال ہمدرد اور عظیم سوچ کے مالک تھے۔ جس دن پورے ملک میں اساتذہ کے متعلق عالمی سطح پر پروگراموں محفلوں کا انعقاد کیا جاتاہے۔اور اساتذہ بہترین خراج تحسین پیش کیا جاتاہے۔ ان مواقوں پر اساتذہ کی خدمات کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مقام پر مکالے ترانے نظمیں تقاریر کے ساتھ ساتھ اچھے اور قابل ترین اساتذہ کی بہترین کارکردگی پر انہیں انعامات اور اعزازات سے بھی نوازاجاتاہے۔ جو حق بجانب ہے۔کیوں کہ سماج میں اگر سب سے اعلی مقام کسی شخص کا ہےوہ استاد ہوتاہے۔اعلی قیادت استاد کی ہے۔ استاد سے فیضیاب ہوے بغیر انسان کسی عہدہ یامنصب پر فائز نہیں ہوسکتاہے۔ جس کو بھی کہیں جاناہے۔ باب الاستاد سے ہوکر ہی جاسکتاہے۔ اس سے الگ تمام شہرائیں راستے منزل تک نہیں پہونچتی ہیں۔دنیا کا کوئی بھی شعبہ استاد کے بغیر نامکمل ہے۔ سیاست قیادت ریاضت فصاحت بلاغت صحافت ملازمت عدالت تجارت غرض زندگی کا کوئی بھی شعبہ استاد کے بغیر نامکمل ہے۔اسی لئے کہتے ہیں کہ مدرس قوم کی بنیاد کی تعمیر کا معمار ہوتاہے۔جس معاشرہ میں استاد کی قدر ومنزلت ہوتی ہے۔وہ کبھی تنزلی کا شکار نہیں ہوسکتاہے۔ اس کے بلمقابل جس سماج یا معاشرہ میں اساتذہ کی کوئی قدر نہیں ہوتی ان کے وقار سے ناواقفیت ہوتی ہے۔تو پھر ناکامی اور تنزلی یقینی کہی جاسکتی ہے۔ اساتذہ کا کردار معاشرہ میں ایک روشن چراغ کی مانند ہے۔جس کی روشنی اس چراغ چاروں طرف روشنی دیتاہے۔یہاں ایک پتے کی بات یہ کہ چراغ کے نیچے روشنی نہیں ہوتی ہے ۔جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہےکہ استاد گراہوانہیں ہے۔اس چراغ کے نیچے روشنی نہ ہونے سے یہ بھی عکس کیا جاسکتاہے۔کہ جو لوگ اساتذہ کا ادب واحترام نہیں کرتے ہیں ۔اور ان کے مرتبہ کم تر سمجھتے ہیں ۔وہ ہ۔ہمیشہ پستی اور ناکامی کی طرف ہی جاتے ہیں ۔تنزلی ان کا مقدر بنتی ہے۔سربلندی نصیب نہیں ہوسکتی ہے۔ ماں باپ کے بعد استاد کا مقام بلند وبالاہے۔ لیکن تعلیم کے معاملہ میں والدین سے استاد احترام میں بڑھ جاتے ہیںں کیوں کہ استاد نے یہ تعلیم دی کہ والدین اور ان کا مقام کیا ہے۔اگر چہ رفتہ رفتہ زمانہ ترقی کی راہوں پر رواں دواں ہے۔اسی تیزی سے اساتذہ کا مقام بھی ہمارے دلوں سے نکلتاجارہاہے۔ جس کی وجہ سے معاشرہ میں مزید بگاڑ اتاجارہے۔علم عام ہوتے ہوے بھی ادب واحترام کا فقدان ہے۔علم ہوتے ہوے بھی والدین کی نافرمانیاں عروج پر ہیں ۔علم ہوکر بھی جھوٹ فریب دغہ بازی آبروریزی عام ہوتی جارہی ہے۔علم ہوتے ہوے ہر جگہ فتنہ و فساد ظلم بربریت جھوٹی گواہیاں مطلب کی سیاست غرض ہر قسم کی برائیاں پنپ رہی ہیں ۔حقیقت کی آنکھ سے دیکھاجاےتو اساتذہ کی ناقدری اور نافرمانیوں کا نتیجہ ہیں۔ حقیقت تو یہ کہ اب وہ اساتذہ بھی بہت کم رہ چکے ہیں ۔جو اپنے مقام ومرتبہ سے واقف ہیں ۔اپنی زمہ داری کا احساس رکھتے ہیں ۔نام تو باقی ہے پر اس نہیج پر کام باقی نہیں رہاہے۔ایک دن تھا۔ عالمی یوم اساتذہ ہم سے جہاں یہ مطالبہ کرتاہے۔اساتذہ کی قدر منزلہ کو پہچانو وہی اساتذہ کو بھی احساس دلاتا ہےکہ وہ مقام مرتبہ کی سربلندی کردار کی پاکیزگی زبان کی مٹھاس حلم بردباری گاہ گاہ مطالعہ تاریخ سے واقفیت رکھیں۔اور اپنے اسلاف کے نقشہ قدم کو مشعل رہ بنائیں ۔ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے بلکل متصل ایک گاوں اڑائی ہے۔لیکن آزادی سے لیکر آج تک اسگاوں اڑائی کی ایک تاریخ رہی ہی ہے۔گاوں جو ضلع پونچھ کا آبادی کے لحاظ سے دوسرےنمبر پر انے والا گاوں ہے۔اس وقت اگر سب سے زیادہ اساتذہ کا اعزاز رکھنے والا گاوں ہے وہ بھی اگر اڑائی ہی کہاجاے تو شائید جھوٹ نہیں ہوگا۔ابتدا سے ہی یہاں دینی اور دنیاوی تعلیم اور اس کی فکر مندی ہمارئ اسلاف میں بھری ہوئی تھی ۔جس کی وجہ سے آج بھی یہ گاوں اڑائی دینی اور دنیاوی تعلیم میں سب سے آگلی صف میں نظر آتاہے۔ سال 2017 یا اٹھارہ میں محکمہ تعلیم سے سبکدوش ہونے والے ماسٹر مولانا الطاف حسین رضوی نے اڑائی میں تعلیم کے آغاز پر اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا کہ گاوں اڑائی میں پہلی بار جامع مسجد حویلی کے پاس سرکاری کی جانب سے سکول ملاں علم دین کے مکان پر کھولاگیا۔جہاں کے طالب علموں میں شامل ریٹائیرڈ نائیب تحصیلدار محمد عبداللہ تانترے جیسے لوگ تھے۔ چار یا پانچ سال اس مکان پر رہاہے۔اس کے بعد قریب میں بھٹی برادری کے عبداللہ نامی شخص کے گھر پر اس اسکول کو منتقل کیا گیا۔جہاں کچھ ماہ تک رہا۔شائید پانچ یا چھ ماہ تک رہا اس کے بعد اس اسکول کے لئے پیر سید منیر حسین شاہ سے دو یا تین مرلہ جگہ لی گئی۔جس زمین کے حصول میں بھی استاد اول کا اہم رول رہا۔اس وقت یہ سکول قریب 1962 سے پہلے ہی کھل چکاتھا1965 میں یہی اسکول پانچویں تک گیا۔اس گاوں میں تعلیم کی شمع کو سب سے پہلے روشن کرنے کے لئے جو تعینات ہوے۔وہ مشہور زمانہ استاد ہیں ۔پیار کی نگاہوں سے دیکھتے اور ان کے لئے دعا مغفرت بھی کرتے ہیں ۔ان کا نام ہے ۔بانڈے عبدالعزیز صاحب جنہوں نے حویلی سے تعلیمی سرگرمی کا آغاز کرتے ہوے اسکول کھولا۔اس وقت چونکہ تعلیم کا رواج نہیں تھا۔لوگ سکول سے نفرت کرتے تھے۔اس زمانہ میں ماسٹر عبدالعزیز بانڈے صاحب نے لوگوں کے گھروں پر جاکر ان کی منت سماجت کی انہیں سمجھایا۔ان کی خوشامند کی کہ جس کے چار بچے ہیں۔ایک بچہ مجھے دے دو ۔اس پر بھی لوگوں نے کافی مخالفت کی ۔اور اس وقت گھریلوں پڑے لکھے جو لوگ تھے۔انہوں نے بھی مخالفت کی کہ ہماراکام کاج کون کرے گا اگر یہ بچے اسکول میں پڑھنے لگ جائیں ۔آپ ان کو کیوں پڑھاتے ہو۔ہمیں نوکر ی کے لئے کون آئے گا۔وغیرہ وغیرہ بیت سارے حیلے بہانے کئے۔لیکن اس علم کے متوالے کے دل میں اصلی استاد کا درد تھا۔کسی بھی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوے۔انہیں اسکول میں لاکر پڑھایا۔ یہاں تک کہ اپنے چھوٹے بھائی ماسٹر عبدالمجید کو بھی پڑھایا۔اس طرح ان کے شاگردوں میں نائیب تحصیلدار محمد عبداللہ تانترے ماسٹر عبدالمجید بانڈے جو بعد میں یہاں استاد کے عہدہ پر فائز ہوگئے۔اور برادرم اکبر کے ساتھ مل کر مذید محنت کرنے لگ گئے
ماسٹرسید افضل حسین ماسٹر راجولی ٹھکر ماسٹر عبدالقیوم پرے ماسٹر محمد شفیع ملک ماسٹر میر محمد ٹھکر ماسٹر منظور حسین شاہ وغیرہ بہت سے لوگ ان کے فیض یافتہ تھے۔جن میں سے اس وقت کچھ اپنی زمہداریوں سے سبکدوش ہوچکے ہیں ۔بعض حضرات اس دار فانی سے رحمت فرما چکے ہیں ۔اس زمانے کا سکول آج کی طرح نہیں بلکہ کچاایک کمرہ بارش میں سارا پانی اندر اور دھوپ میں بھی کمرے میں گیلاپن رہتاتھا۔بچوں سے مٹی وغیرہ ڈلواکر بارش کے پانی کو روکنے کی کوشش کی جاتی تھی۔سردیوں میں بھی چھٹیاں نہیں ہوکرتی تھی۔پاوں جوتے نہیں تھے اس وقت کی رسیوں سے بنی پول کا استعمال کرتے تھے۔نہ کھانے کو روٹی اور نہ ہی پہننے کو کپڑے تھے۔اسکول کی چھت کے لئے لکڑی بھی گھر سے لاتے تھے۔اور جہاں سے اسکول ٹوٹ جاتا ہم وہاں یہ لکڑی رکھ کر مٹی ڈال دیتے تھے۔پڑھائی میں سخت لائیق ترین استاد تھے۔بچوں کو محنت لگن اور ہمدردی کے ساتھ پڑھاتے تھے۔انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی یہی بنالیاکہ اپنے گاوں میں تعلیم فضاوں کو عام کرکے اپنے ضلع کا نام روشن کرناہے۔انہوں نے اپنی تعلیم کے دوران کا ایک واقع بیان کیاکہ اسکول میں تختیاں لکھائی جاتی تھی۔ایک دن تختی پر ے کے نیچے دو نقطے ڈالنے کے بجاے اوپر لگا دیئے ۔میری کاپی غلطی والی تختیوں میں شامل کردی گئی۔بہت بار بولنے کے باوجود انہوں نے کہاکہ اپنی تختی اٹھا و اور پڑھو ۔میں چند بار پڑھا۔آخر کار کچھ خدمت ہوئی تو مجھے اپنی غلطی نظر آگئی۔اس زمانے میں استاد کو سر نہیں بلکہ ماسٹر جی کہ کر پکارتے تھے۔اسکول کو مدرسہ کہتے تھے۔اب جبکہ ماڈرن زمانہ ہے ۔ہر چیز میں فیشن آگیاہے۔انہوں نے کہاکہ میرے اساتذہ میں یہی میرے استاد ہیں ۔ان کے بعد ماسٹر جلال الدین بھٹ ماسٹر میر چوغتہ صاحب ماسٹر افضل حسین ماسٹر محمد شفیع ملک ماسٹر راجولی ماسٹر میر محمد بھی ہیں ۔ان کے مطابق ماسٹر جلال الدین بھٹ کا ن لینا اس لئے ضروری ہےکہ ۔اس استاد کو اس وقت بہت کم لوگ جانتے تھے۔کیوں کی سادہ لباس اور سرپر عمامہ باندھتے تھے۔گھر میں غربت کا زمانہ تھا۔لیکن ان کی محنت اور لگن بھی اب کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ اب میرے والد محترم نے ایک مولانا سید شائید حسین بخاری کی تقریر سنی ۔جس کے بعد ماسٹر عبدالعزیز بانڈے صاحب سے مشورہ کرکے بریلی میں دینی تعلیم سے روشناس ہوا اس کے بعد واپس آکر کچھ سالوں بعد محکمہ تعلیم میں خدمت کا موقع ملا۔اس دوران ماسٹر جلال لدین بھٹ کے فرزند نے اپنے والد کی بارے میں اور اسکول کے بارے میں کچھ جانکاری اس طرح سے دی کہ 1947میں ہمارا وطن عزیز انگریزوں سے مکمل طور آزاد ہوا۔تب تک ضلع پونچھ میں چند ایک تعلیمی ادارے ہی قائیم تھے۔جن میں بڑے بڑے خاندانوں کے بچے ہی تعلیم حاصل کرسکتے تھے۔جن میں وکٹوریہ اسکول جو آج ہائیر سیکنڈری اسکول پونچھ کے نام سے جاناجاتاہےمشہور تھا۔تب تک ایک طرف تو انگریزی تسلط تھا۔دوسری جانب جاگیردارانہ نظام کا بھول بھالاتھا۔ایسے میں پورے ضلع پونچھ میں تعلیم کا نظام نہایت ہی ناگفتہ بہہ حالت تھی۔ ایسے میں کچھ درد دل رکھنے والوں نے علم کی شمع کو روشن کرنے کے لئے اپنی زمہ داری کا احساس کیا۔1949 ء میں تحصیل منڈی کے گاوں اڑائی میں تعلیمی نظام کا آغاز ہوا۔جن شخصیات کو استاد کی حثیت سے تعینات کیا انہیں آج بھی اور رہتی دنیا تک بڑے ادب واحترام سے یاد کیاجاتارہے گا۔جن کی آمد سے گاوں اڑائی میں باضابطہ طور دنیاوی تعلیم کا آغاز ہواتھا۔ماسٹر جلال الدین کی تعلیم وکٹوریہ سکول پونچھ سے ہوئی تھی۔انہوں نےدوسری علم گیر جنگ کے دوران 1940ء سے 1944ءتک انگریزی فوج میں خدمات انجام دی ۔اور پرتگال تک کا سفر کیاتھا۔جب دوسری علمگیر ختم ہوئی تو 1945ءسے 1947ءیعنی انگریزی حکومت کے خاتمہ کے خاتمہ تک وہ محکمہ ایکسائز میں ملازم ہوے۔پھر انگریزوں سے آزادی نصیب ہوئی تو اس کے بعد انہوں نے 1949 میں محکمہ تعلیم میں قدم رکھا۔اور اپنے گاوں کو تعلیم سے روشناس کرنے کے لئے ماسٹر عبدالعزیز بانڈے اور ماسٹر عبدالمجید بانڈے لوگوں کی منت سماجت کرکے بچوں کو سکول تک لائے۔حالانکہ اس وقت بھی جاگیردارانہ نظام کے دور کا اثر تھا۔سکول کی تعلیم کو فضول اور بیکار سمجھاجاتاتھا۔ لوگ اساتذہ کو یہ کہہ دیتے تھے۔کہ استاد جی آپ اپنی تنخواہ لو اور آرام کرو کیاکروگے بچوں کو پڑھاکر۔اگر ان بچوں کو اسکول میں داخل کروادوگے تو ہمارے گھر کا کام کون کرے گا۔انہوں نے بھی ماسٹر عبدالعزیز بانڈے ماسٹر عبدالمجید بانڈے کے ساتھ مل کر اپنے گاوں کو تعلیمی میدان میں چار چاند لگانے میں اپنی ساری محنت اور مشقت صرف کی ۔ہائی سکول اڑائی میں تعینات ماسٹر محمد دین نے کہا کہ 1949میں ارائی گاوں میں سکول کھلا تھا جن میں ماسٹر عبدالعزیر بانڈے صاحب تعینات ہوے اج جن کی محنت اور مشقت کا یہ صلاح ہےکہ آج اڑائی گاوں میں ایک ہائیر سیکنڈری اسکول ایک ہائی اسکول چار میڈل سکول اور بارہ پرائیمری اسکول موجود ہیں ۔ان کے لگاے ہوے باغ سے اس وقت کل61 ٹیچر6 ماسٹر 7 لیکچرر ایک پروفیسر دورہبر کھیل استاد جواس وقت مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم کی شمع کو روشن کررہے ہیں ۔جبکہ اس وقت تک اڑائی گاوں سے گیارہ اساتذہ محکمہ تعلیم سے سپکدوش ہوچکے ہیں۔جن میں چار وفات پاچکے ہیں۔اور سات ابھی حیات ہیں ۔یہ وہ باغ ہے۔جو محنتوں مشقتوں کو برداشت کرنے کے بعد تیار ہوہاہے۔اب بھی مرحوم ومغفور ماسٹر عبدالعزیز بانڈے ماسٹر عبدالمجید بانڈے ماسٹر جلالالدین بھٹ کے لگاے ہوے پودوں میں بہت سارے اساتذہ کرام ان کے نقشہ قدم پر چل رہے ہیں ۔جن میں ماسٹر محمد خرشید صابری جو اس قدر لگن اور محنت کررہے ہیں کہ آج کے دور میں اسلاف کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ ،پروفیسر ڈاکٹر شمیم احمد بانڈے جواستاد محترم ماسٹر عبدالمجید بانڈے صاحبکے صاحبزادے ہیں ۔پونچھ میں رہ کر وہاں سے بھی اپنے گاوں کو تعلیمی میدان آگے لانے کے لئے انتھک کوشش کررہے ہیں ۔ استادالاساتزہ ماسٹر عبدالعزیر بانڈے صاحب اور اپنے والد استاد محترم ماسٹر عبدلمجید بانڈے کی میراث کو تقسیم کررہے ہیں ۔ ،لیکچرر ابوبکرملک ،ماسٹر محمد دین ،ماسٹر محمد اکرم ٹھکر ،ماسٹر محمد حیات، ماسٹر محمد اشرف ،ماسٹر اعجاز احمد، مقصود احمد ،محمد افضل مسرت حسین شاہ سرفہرست ہیں۔ اس گاوں کے تمام اساتذہ بہت کم کو چھوڑ کر قابل تحسین ہیں ۔کہ انہوں نے اپنے اسلاف کی رسی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں ۔ اس وقت تعلیمی شعبہ سے ہٹ کر بھی گاوں اڑائی کسی سے کم نہیں ہے۔ سیاسی میدان کو دیکھا جاے تو مرحوم بانڈے محمد دین کو دیکھ لیجئے ۔محکمہ مال سے منسلک نائیب تحصیلدار محمد عبداللہ تانترے، کے بعد تحصیلدار نثار احمد شاد، نائیب تحصیلدار صیف دین پرے ،ٹریجری آفیسر محمد اکرم ٹھکر دینی لحاظ سے دیکھیں تو اڑائی گاوں کو عالموں پیروں مفتیوں حافظوں قاریوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ سماجی خدمات دیکھیں محمد فرید ملک صحافت میں ہم ہیں ۔پٹواریوں میں ہمارے نوجوان موجود ہیں ۔محکمہ بجلی پانی پنچائیت و دیگر محکمہ جات میں ہم اہم اڑائی موجود ہیں ۔وہ سب فیض ان اساتذہ کرام کاہے جنہوں نے مشکلیں جھیل کر ہمارے لیے تعلیم کے میدان کو ہموار کیا۔ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ابھی بہت کچھ دیکھناباقی ہے۔ابھی بہت سے میدان فتح کرنے ہیں ۔جن کے لئے ہمیں آپنے اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنی پڑیں گیں۔ اساتذہ کو محبت کی نگاہوں سے دیکھناہوگا۔ اساتذہ کو اپناخیر خواہ مانناہو گا ۔اساتذہ کا ادب واحترام بجالاناہوگا۔گھر گھر میں علم کی شمع کو روشن کرنے کی فکر کرنی ہوگی ۔تب جاکر ہم صیح معنوں میں یوم اساتذہ کا حق اداکرپائیں گے۔حقیقت میں گاوں آرائی کے بڑے اساتذہ اس شعر کے مصداق ہیں ۔
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگل جاتے ہیں

محمد ریاض ملک اڑائیوی منڈی پونچھ جموں وکشمیر
9858641906
[email protected]

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا