کالم نویس :. محمد فرید اعوان راز
بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
فون نمبر:.9149971684
انسان دنیا میں آنے کے بعد زندگی گزارتا ہے اور پھر ایسے ایسے کارنامے انجام دیتا ہے ۔جن کو بھلانا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ایسی ہی ایک شخصیت جناب مولانا محمد شفیع صاحب کی ہے۔جو نیک انسان تھے ۔اپنی زندگی گزار کر اس دنیا سے چل بسے۔مولوی محمد شفیع صاحب 1944ء میں پیدا ہوے۔ان کے والد کا نام جمال دین تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی ۔مولوی صاحب کی ایک بہن تھی ۔جنکا نام نسیم اختر تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد لسانہ کے ایک مکتب میں داحلہ لے لیا۔ لسانہ مولوی عبدالکریم بہشتی صاحب سے تعلیم حاصل کرنے لگے۔ مولوی شفیع صاحب کے ساتھ مولوی جمال دین صاحب ، مولوی عبدالحق صاحب ، مولوی صادق واصل صاحب ،ان سب ساتھیوں نے اگھٹا داحلہ لے لیا۔ لسانہ سے فراغت کرکے دارالعلوم دیوبند میں تشریف لے گے۔ کچھ عر صہ وہاں پر زیر تعلیم رہے۔ فراغت سے قبل ہی دارالعلوم دیوبند سے واپس اپنے گاوں آگے تھے۔ پھر گاوں کلائی میں ہی ذریعہ معاش کے لیے ایک چھوٹی سی دوکان کھول لی ۔اور اپنا گزر بسر کرنے لگے اسی اسنا میں 1962ء میں الیکشن ہوا۔ ماسٹر غلام محمد صاحب اور غلام قادر بانڈے صاحب کے درمیا ن 1962ءمیں مولوی شفیع صاحب نے سیاست میں قدم رکھا ۔اس وقت گجر اتحاد میں تھے۔ چوہدری دھکڑ صاحب اور وزیر محمد ہکللہ صاحب اور چوہدری صید محمد اور بھی بہت ساتھی تھے۔ ان سب نے مل کر یہ فیصلہ کیا۔ کہ اس مرتبہ بانڈے صاحب کو الیکشن جتوانا ہے۔ ماسٹر غلام محمد صاحب کا چناؤں نشان تھا ۔ ”گائے بچھڑہ“اور بانڈے غلام قادر صاحب کا چناؤں نشان تھا ”طرازوں “.گورنمنٹ کی ایک پالیسی کے تحت الیکشن بوکس کو تبدیل کیا گیا۔ اور ماسٹر غلام محمد کو جتوا دیا۔ اور بانڈے غلام قادر کو شکست کا سامنا کرنا پڑھا۔ اور مولوی صاحب کے سبساتھیوں نے کانگرنس پارٹی کرلی۔اور وزیر محمد ہکللہ صاحب چوہدری دھکڑ صاحب ۔اور چوہدری صید صاحب سب نے مل کر کانگرس پارٹی جوائن کرلی۔لیکن مولوی صاحب نے اپنے تمام ساتھیوں کا ساتھ نہ دیا۔اور اپنے قدموں پر کھڑا رہے۔اور اپنی جگہ دٹے رہے۔
اس کے بعد مولوی محمد شفیع صاحب نے عبدالغنی لوں کی پارٹی پیپل کانفرنس جوائن کر لی۔دوسرے سب ساتھیوں نے کانگرس جوائن کی۔اور مولوی محمد شفیع خلاف رہے۔ کچھ عرصہ بعد مولوی صاحب نے عبدالغنی لون کی پارٹی پیپل کانفرنس چھوڑ کر (این ۔سی) جوائن کر لی۔ ضلع پونچھ کے نیشنل کانفرنس کے لیڈر جناب قاضی محمد سعید تھے۔ چوہدری محمد اسلم صاحب کے مقابلے میں چار الیکشن لڑے اور بلکل نزدیک سے قاضی محمد سعید کو ہار کاسامنا کرنا پڑھا ۔مولوی محمد شفیع صاحب آخری دم تک نیشنل کانفرنس کی حمایت کرتے رہے۔ حویلی اور سرنکوٹ میں بھی سعید صاحب کی حمائت کرتے رہے۔
چراغ لاکھ ہیں مگر کسی کے اٹھتے ہی
براۓ نام بھی محفل میں روشنی نہ رہی
سماج اور معاشرے کےلیے بہت سے کام مولوی محمد شفیع صاحب نے کیے۔ مولوی صاحب کے احسانات کو فراموش کرنا ، ممکن ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ لوگوں کا حد سے زیادہ تعاون کیا۔ ضلع پونچھ میں مولوی صاحب اول درجے کے ٹھکیدار تھے۔ ضلع پونچھ ٹھکیدار یونین کے صدر بھی رہے۔1971.72ء میں اوقاف کا ایک الیکشن ہوا اس میں مولوی صاحب نے حصہ لیا ۔اس وقت پانچھ ۔ چھ گاوں کی پنچائت اک تھی۔مدانہ ،بچہ والی، کلائی، سیڑی خواجہ، سیڑی چوہانہ، اور ہاڑی بڈہ ۔اوقاف کے نزدیک ایک ہی ہلکہ تھا۔چوہدری اسلم صاحب نے۔چوہدری محمد دین دھکڑ صاحب کو Nominate منتحب کیا۔مولوی شفیع صاحب نےبذات خود ہی الیکشن میں حصہ لیا۔ مولوی صاحب کا کوئی حمائتی نہیں تھا۔ آخر مولوی صاحب چوہدری دھکڑ صاحب سے جیت گے۔ اس سال مولوی صاحب اوقاف کے چیرمین بھی تھے۔
1980.87ء تک قاضی محمد آمین صاحب آپ کے ساتھ رہے۔ اس وقت شیندرہ کے سرپنچ چوہدری صید صاحب تھے۔عدم اعتماد مولوی صاحب سرپنچ جیت گیے ۔اور چوہدری صید صاحب کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔اوقاف چیرمین کا عہدہ اپنے قریبی دوست اور ہمعصر ساتھی ٹھکیدار جمال دین صاحب کو سونپ دیا۔ بعد میں 1978.86ء تک کوئی الیکشن نہیں ہوا۔1986ء مولوی صاحب بیمار ہوگے۔
بیماری لگنے کی وجہ یہ بنی کہ مولوی صاحب کا جموں میں ایک مکان تھا۔ وہ مکان انہوں ایک کرایا دار کو دیا ہوا تھا ۔بعد میں اس کرایہ دار نے کہا کہ یہ مکان میرا ہے۔ مولوی صاحب کا اس میں کو خق نہیں ۔وہاں سےمولوی کو فشار پیدا ہوگیا۔ مولوی صاحب کے تعلقات اعلی سطح کے تھے۔ نیشنل کانفرنس کا ایک منسٹر تھا۔ آر۔ایس ۔چب۔ اس سے ملاقات کرکے اس مکان کا قبضہ واپس لیا۔اسی سال فشار کی وجہ سے بیمار ہوگے۔ ایک سال تک ہی دواء استعمال کرتے رہے۔ پونچھ سے مولوی صاحب کو جموں ریفر کر دیا۔ اور کہا کے ان کو جموں لے جاو۔جموں سے چندی گڑھ ریفر کردیا۔ یہاں سے چندی گڑھ ان کے ساتھی جمال دین صاحب اور انکی بہن نسیم اختر صاحبہ لے گے تھے۔
چندی گڑھ ان کے دماغ کا اوپریشن ھوا۔ اور وہ ٹھیک نہ ھو سکا۔ ڈاکٹروں کی اٹکل بھی کسی کام نہ آئی ۔موت کا وقت آگیا۔اور مولوی صاحب اللہ کو پیارے ھو گیے ۔ مارچ 1987ء میں مولوی صاحب اس دار فانی سے رخصت ھوئے ۔جہان فانی کو کوچ کر گیے۔اللہ پاک مولوی صاحب کی قبر کو روشن فرمائے ۔آمین ثمہ آمین
جن کی یادوں سے رگ جا ں میں دکھن ہونے لگے
ذکر چھڑ جاۓ توپتھر کا بھی دل رونے لگے