از – شبانا اظہر سیّد، ملّت نگر
ماہ محرم سے اسلامی سن ہجری کا آغاز ہوا یعنی اس ماہ سے اسلامی نیا سال شروع ہوتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالی فرماتا ہے سورۃ توبہ (آیت نمبر 36 )”اللہ تعالی کے ہاں اس کی کتاب میں مہینوں کی گنتی بارہ ہے اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ان میں چار مہینے ادب اور احترام کے لائق ہیں یہی درست دین ہے لہذا ان مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو”۔
اس آیت سے ہمیں پتا چلا لا کہ قرآن میں مہینوں کی تعداد بتا دی گئی کہ بارہ ہے اور چار مہینے جو حرمت والے ہیں وہ ذوالقدہ ذوالحجہ محرم اور رجب ہیں۔ دور جاہلیت میں بھی لوگ حرمت والے مہینوں کا احترام کیا کرتے تھے جنگ وجدال ،قتل و غارت گری اور خونریزی وغیرہ سے اجتناب کیا کرتے تھے یوں تو جنگ و جدال، خونریزی اور فتنہ و فساد کی کسی بھی مہینے ہفتے اور دن میں اجازت نہیں تاہم حرمت والے مہینوں میں فتنہ و فساد کی ہرممکنہ شکل سے اجتناب کرنے کی تاکید کی گئی ہے لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ ماہِ محرم کی حرمت کو اتنا ہی پامال کرتے ہیں جتنا کہ اس کا لحاظ رکھنے کی تاکید کی گئی ہےاس ماہ کی پامالی کی ایک صورت تو یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے رنج و غم میں آہ و بکا کا عجیب و غریب اور خوفناک منظر برپا کیا جاتا ہے کہ اللہ کی پناہ! کسی کی وفات یا شہادت پر رنج و غم وافسوس کا اظہار کرنا غلط نہیں ہے لیکن وہ شرعی حدود میں رہ کر کیا جائے۔ نوحہ اور ماتم کرنے والے کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے رخسار پیٹے، گریبان چاک کئے؛ اور دور جاہلیت کے بین کیے” ( بخاری)۔
لوگ ماہِ محرم کی کڑیاں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے جوڑتے ہیں جبکہ اس ماہ کی حرمت وعظمت کا اس شہادت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس ماہ کی حرمت وعظمت اس دن سے قائم ہے جس دن سے کائنات بنی ہے جو سورۃ توبہ آیت 36 میں فرمایا گیا ۔یہ تصور جہالت اور دین سے لا علمی کی بنا پر ہے اگر کسی نامور شخص کی شہادت یا موت کے دن کو یادگار بنانے کی اجازت اسلام میں ہوتی تو اسی ماہ مبارک کی یکم تاریخ کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت پیش آئی تھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ دینی وعلمی لحاظ سے اور خلیفہ ثانی ہونے کی حیثیت سے حضرت حسین سےزیادہ مستحق تھے کہ ان کی شہادت پر وہ سب کچھ کیا جاتا جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر کیا جاتا ہے لیکن اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ۔
اگرچہ کربلا کا واقعہ بہت دردناک ہے لیکن اس کا جواب ہمیں نہیں دینا ہے ان کے مخالفین نے جو کیا اس کی سزا وہ بھگتیں گے ہم کو اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے تو ہمیں اس کی فکر کرنی چاہیے ۔
اس ماہ مبارک کی تاریخ کو لوگ اور بھی کئی چیزوں سے جوڑتے ہیں جیسے کہ:
– دس محرم کو حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی
۔ دس محرم کو نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ سے جا لگی تھی
۔ دس محرم کو حوا علیہ السلام کی ملاقات آدم علیہ السلام سے ہوئی
– اسی ںدن حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے یے
ان تمام باتوں کی کوئی دلیل نہیں ہے یاسند نہیں ہے کوئی حدیث میں اس چیز کا بیان نہیں کیا گیا ہاں صرف ایک چیز بیان کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ وہاں پر یہودی تھے وہ دس محرم کو روزہ رکھتے تھے جسے ہم عاشورہ کہتے ہیں آپ کے پوچھنے پر بتایا گیا کہ اس دن حضرت موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلائی تھی اور اسی دن فرعون سمندر میں غرقاب ہوا تھا (مسلم) یہ چیز حدیث سے ثابت ہے اور ہمیں آپ صلی وسلم کے فرمان سے ہی پتہ چلتی ہے کہ آپ نے کہا کہ ہم موسی علیہ سلام کے زیادہ قریب ہیں تو ہمیں اس دن کا روزہ رکھنا ہے اور پھر یہودیوں سے مشابہت نہ ہو اس لیے آپ صل وسلم نے کہا” جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے”۔(مسلم)اسطرح بھی رکھ سکتے 9 ، 10 یا10 ،11 کے ساتھ ملا کر لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگلا سال نہیں پاسکے آپ وفات پا گئے اس لیے صحابہ کرام نے اس کی پیروی کی اور عاشورہ کا 9 اور 10 تاریخ کا روزہ رکھا جاتا ہے۔ یا 10، 11 تاریخ کا ۔
یہ بھی لوگوں کے ذہن میں ہیں کہ چونکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر پانی روک دیا گیا تھا پیاسے تھے کھانا نہیں دیا جا رہا تھا اس وجہ سے ان کی یاد میں یا اس غم کی وجہ سے اس دن روزے رکھنے چاہیے ۔جو صحیح نہیں ہے۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” عاشورہ کے روزے ایک سال کے گناہ کا کفارہ ہے”۔(ابن ماجہ)۔
جو ہم اس ماہ میں کرتے ہیں نویں تاریخ کو کھچڑا بنانا،راستوں پر سبیل بنانا،تازیہ نکالنا،غم کا مہینہ مان کر اس میں نکاح نہ کرنا۔کوئی خوشی نہیں منانا۔یہ سب بدعات ہیں۔اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔
یکم ماہ محرم کا آفتاب جب طلوع ہوتا ہے تو ہمیں ہجرت کی یاد دلاتا ہے۔رسول اللہ کی عظمت کی یاد دلاتا ہے۔۔ہجرت مکہ سے مدینہ تک ایک پیغام سناتی ہے کہ کوشش کی جانی چاہئے جیسی بھی ہو ۔نظام کفر کو نظام اسلام میں تبدیل کرنے کی جدو جہدکرنی ہے،چاہے اس کے لئےکتنی ہی سختیاں اور آزمائشیں ائے ان کو جھیلنا ہے۔اسی لئے مومن کو اپنا دل مضبوط کر کہ راہ حق میں اپنے قدم جمانے ہیں۔اس نئے سال میں ہم یہ عظم کریں۔
■توحید خالص اور اس کے تقاضوں کو ہم اچھی طرح ذہن نشین کرینگے۔
■ذات الہی پر مکمل بھروسہ کرینگے،کیونکہ دین حق کےعلمبردار ثابت قدم رہنے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اور نتائج کو اللہ تعالی کے توکل پر چھوڑ دیتے ہیں۔
■ہر مومن کودین حق کا سپاہی بننا ہے،صرف ایک مقصد کے لئے۔دین حق کواپنے آپ پر اور دوسروں پر نافذ کرنے کی پر خلوص اور فدائیانہ کوشش۔۔اللہ سے دعا ہے۔
وہ قلب دے جو رکے نہیں وہ روح دےجو جھکے نہیں
وہ قدم تو دے تیری راہ میں جو رکے نہیں۔