میرے لہو کی دھار سے وطن کی بیڑیاں کٹیں

0
0

عارفہ مسعود عنبر مرادآباد

تاریخ جنوں یہ ہے کہ ہر دور خرد میں
ایک سلسلہ دار و رسن ہم نے بنایا

زمانہ طفل میں ماہ اگست کی ابتداء سے ہی اسکول میں جشنِ آزادی کی تیاریاں شروع ہو جاتی تھیں ،کبھی آزادی کے نغموں پر رقص کی تیاری اور کبھی حب الوطنی کے ترانوں میں سر تال درست کرنے کی کوشش ہم بھی جشن میں جوش و خروش سے حصہ لیتے تھے اس وقت نہ آزادی کے صحیح مفہوم کا معلوم تھا نہ غلامی کے درست معنی اساتذہ کی تقاریر سے اتنا ضرور معلوم تھا کہ 15 اگست 1947 کو ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا تھا اور معصوم طفلی ذہن کے لئے جشن منانے کی یہ وجہ کافی تھی لیکن جیسے جیسے عمر نے سیڑھیاں چڑھیں شعور نے اپنی منازل طئے کرتے ہوے تاریخ کے اوراق الٹے پلٹے تب آ زادی کے معنی بھی سمجھے اور غلامی کی کرب ناک داستان سے بھی آشنا ہوئے ، یہ حقیقت بھی عیاں ہوئی کہ انگریزوں نے کس جعل سازی سے ملک عزیز کو غلام بنایا تھا،نیز 15 اگست 1947 کو ایک طویل جدو جہد کے بعد برطانیہ نے قانون آزادی ہند کا بل منظور کرکے قانون سازی کا اختیار مجلس دستور ساز کو سونپ دیا اور تب سے ملک میں یہ دن یوم آزادی کے طور سے بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے ،
ہمارے مجاہدین آزادی نے ہنستے ہنستے موت کو گلے لگا کر ہمیں یہ آزادی فراہم کرائی ہم آزاد ہوئے انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے ، بے خوف خوشحال زندگی جینے کے لئے ،اپنی مذہبی آزادی کے لئے، اپنےمندروں کی حفاظت کے لیے اپنی مسجدوں کی حفاظت کے لیے ،اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے تحفظ کے لیے تاکہ ہر مذہب کے لوگ سر اٹھا کر جی سکیں ،آپس میں کوئی نااتفاقی کوئی لڑائی جھگڑا نہ ہو ،امن ہو شانتی ہو بھائ چارا ہو اس بیش قیمتی آزادی کو پانے کے لئے ہمارے مجاہدین آزادی نے بے شمار اذیتیں برداشت کرکے ہمیں آزادی کا تحفہ پیش کیا

آزاد ہندوستان میں پیدا ہونے والا مسلمان جب اپنے ماضی کی طرف مڑ کر دیکھتا ہے تو اس کا سر فخر سے اونچا ہو جاتا ہے کیونکہ اسے ماضی میں حضرت شاہ ولی اللہ،حضرت شاہ عبدالعزیز یز،حضرت شاہ احمد شہید حضرت حضرت مولانا قاسم نوری قاری رشید احمد گنگوہی وہی مولانا محمد حسین مولانا ابوالکلام آزاد ،مولوی محمد باقر محمد حسین آزاد مولانا حسرت موہانی مولانا محمد حسین آزاد محمد علی جوہر کے تابناک چہرے سامنے آتے ہیں، ہندوستانی مسلمان اس ملک کو اپنا وطن سمجھتے ہیں اور انہوں نے ہر دور میں وطن عزیز کی محبت میں سرشار ہو کر اس کی فلاح اور بلندی کے لئے تن من دھن نثار کیا ہے اور ایسی بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں جو دوسری قوموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ افضل نظر آتی ہیں ، ہندوستان کی جنگ آزادی میں اس ملک میں مسلمانوں کا کردار ایسا مجاہدانہ اور سرفروشانہ رہا ہے کہ اپنے وطن کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے اور دار و رسن کی آزمائش سے گزرنے کی روشن ساز تاریخ رہی ہےکہ سرزمین ہند کو اس پر ہمیشہ فخر ہونا چاہیے، لیکن یہ عجیب وغریب حقیقت ہے کہ ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے کارناموں کو نظر انداز کرنے کا وطیرہ اس ملک میں عام ہو گیا جو انہوں نے اس وطن کو آزاد کرانے کے لئے انجام دئے تھے اب اس کا کوئی ذکر نہیں کرنا چاہتا لیکن تاریخ کو مٹانا اتنا آسان نہیں ہے ،تاریخ ابھی زندہ ہے جس کے مطالعے سے رو نگٹے کھڑے کر دینے والے حقائق سامنے آتے ہیں ،1857 کی جنگ آزادی کے بعد ڈاکٹر ولیم جو ہندوستان کے بہت بڑے سیاستدانوں میں سے تھا وائسرائے کو رپورٹ بھیجی اور لکھا "ہندوستان کی جنگ آزادی صرف مسلمانوں ہی نے لڑی ہے اور جب تک ان کے دلوں میں جزبہ جہاد موجود ہے اس وقت تک ہم مسلمانوں پر حکومت نہیں کر سکتے اس لئے ان کے جزبہ جہاد کو ختم کرنا بہت ضروری ہے اور اس سے پہلے یہاں کے علماء اور ان کی کتاب قرآن کو ختم کرنا ضروری ہے چنانچہ 1861 میں انگریزوں نے تین لاکھ قرآن کریم کے نسخے جلاے اور اس کے بعد علماء کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ”
انگریز مورخ مسٹر تھامسن نے اپنی کتاب یادداشت میں لکھا ہے 1857 سے 1860تک صرف تین سالوں میں انگریزوں نے چودہ ہزار علماء کرام کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا اور دہلی کے چاندنی چوک سے لے کر خیبر تک کوئی درخت ایسا نہ تھا جس پرعلماء کی گردنیں نہ لٹکی ہوں” علمائے اکرام کو سوروں کی کھالوں میں بند کرکے جلتے ہوئے تندوروں میں ڈالا گیا، تھامسن آگے لکھتا ہے ایک انگریز نے کہا مولویوں تم میں سے کوئی ایک یہ کہہ دے کہ ہم 1857 کی جنگ آزادی میں شریک نہ تھے تو ابھی تم کو رہا کر دیا جائے گا لیکن ” مجھے پیدا کرنے والے کی قسم میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کسی عالم نے یہ نہیں کہا سب کے سب آگ پر پک گئے لیکن انگریزوں کے سامنے گردن نہیں جھکائ”۔
لاتعداد مجاہدین کو پھانسی دی گئی،صفوں میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا ،مجاہدین آزادی نے مسلمانوں کے ہر طبقے میں سرفروشی کی تمنا بیدار کر دی ، اس جنگ میں قلم بھی بہادر سپاہی کی طرح میدان جنگ میں اپنا فرض ادا کرتا رہا، مصنفین نے اپنی جان کی بازی لگا کر حق کی صدا بلند کی، انتہائی وحشیانہ کارروائیوں کے باوجود مسلمان اپنی جانیں قربان کر کے حق کے لئے جنگ کرتے رہے برطانوی سامراج سے لڑتے رہے اس راہ میں کتنے مجاہدین کا مقدس خون بہا، کتنوں نے میدان جنگ کو اپنے لہو سے لالہ زار بنایا کتنے صحافی اور مصنفین موت کے گھاٹ اتار دیے گئے،کتنے قلمکار جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی ہار گئے اس کا صحیح اندازہ کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے تاریخ شاہد ہے ہے انیسویں صدی تک ک جتنے مسلمان مجاہدین آزادی پھانسی پر چڑھائے گئے،یا کالا پانی بھیجےگے ،یا عمر قید میں ڈال دیے گئے ،یا صفوں میں کھڑا کرکے گولیوں سے بھون ڈالے گئے،تحریک آزادی کے پورے دور میں دوسری اقوام کی قربانیوں کی مجموعی تعداد بھی اس کے برابر نہیں ہو سکتی اتنی روح فرسا قربانیوں کے بر عکس ہمیں یہ آزادی میسر ہوی تھی ،لیکن افسوس آزادی کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ فسادات نے پھر وہی خونی داستانیں دہرائیں سیاست مسلمانوں کے ساتھ چالیں چلتی رہی اور معصوم مسلمان ان کے جھانسے میں آتے رہے ،نیز 1992 میں تاریخ کو شرمسار کر دینے والا ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے آزادی کے مفہوم کو ہی بدل کر رکھ دیا ظلم بربریت اور نا انصافی کی ایسی مثال قائم کی جسے تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا گیا ، ظہیر الدین محمد بابر کے نام سے منسوب مغلیہ فن تعمیر پر مشتمل 1527 سے ایودھیا میں مقیم بابری مسجد کو مسمار کر دیا اور ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی جو کرب ناک داستان رقم کی وہ صدیوں تک بھلائی نہیں جا سکتی ، برسوں پہلے شروع کی گئی داستان آج بھی بدستور جاری ہے اس داستان میں مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے ایک نئے باب کا ہر روز اضافہ ہو رہا ہے 9 نومبر 2019 کو ہندوستانی عدالت عظمیٰ سپریم کورٹ کے جج نے بابری مسجد کے تعلق سے اپنا حتمی فیصلہ سنایا سپریم کورٹ کے جج نے اسے ہندوتو کے حق میں فیصلہ دے دیا اور 5اگست 2020 ملک کے وزیراعظم کے ہاتھوں رام مندر کے لیے سنگ بنیاد رکھا گیا،میری گفتگو کا موضوع یہ نہیں ہے کہ 5 اگست کو ایودھیا میں کیا ہوا جو ہوا اس کا اندازہ تو برسوں پہلے ہو گیا تھا لیکن آیندہ کی فکر لازم ہے ، ہماری آزادی کو کئ اعتراف سے خطرہ لاحق ہو گیا ہے مگر افسوس ادب کے خیمے کوئ ہلچل محسوس نہیں کی گئ ہے جس قلم نے اپنی طاقت سے ایک عظیم جنگ کو فتح کیا تھا اس کو اذہان اور قوم کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں رہی
اپنی طاقت سے آزادی حاصل کرنے والے قلم کی طاقت اس آزادی کے تحفظ کے لیے کہاں سلب ہوگئ، میں نیند میں سوے ہوے ان ادیبوں پر فخر نہیں کر سکتی جسے بدلتے ہوے حالات کی چیخ نہ سنائی دے ،میری نظر میں وہ قلم ہی کیا جو نا انصافی کے خلاف نہ لکھ سکے جو حق کی وہ آواز بلند نہ کر سکے جس کی گونج ساری دنیا کو سنائ دے، جو عوام کو حق پرستی کا درس نہ سکے، وقت آگیا ہے کہ شاعر، ادیب ،اور محبان اردو کے دعوے بھرنے والے لیکچرز اور پرفیسرز ، اردو کے فروغ کے لیے چند الفاظ لکھ کر ،سیمینارز میں مقالات پڑھ کر ، ہر روز صرف آنلائن مشاعروں میں شرکت کرکے واہ واہی کا خزانہ لوٹ کر اپنی پیٹھ اپنے آپ نہ تھپتھپائیں بلکہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کر کے قوم کے مسائل پر قلم اٹھائیں اور مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کرکے اس کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات اٹھائیں…

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا