دور حاضر میں تعلیم کا تصور

0
0

از شبانہ اظہر سید

اردو میں تعلیم کا لفظ دو خاص معنوں میں استعمال ہوتا ہے ١ اصطلاحی ٢ غیر اصطلاحی

غیر اصطلاحی مفہوم میں تعلیم کا لفظ واحد اور جمع دونوں صورتوں میں استعمال ہو سکتا ہے یہ آدرش ،درس،ارشادات، ہدایت اور نصا ئح کے معنی دیتا ہے ۔جیسے رسول کی تعلیم یا تعلیمات،حضرت عیسی کی تعلیم یا تعلیمات ۔اصطلاحی معنوں میں تعلیم یا ایجوکیشن سے وہ شعبہ مراد لیا جاتا ہے جس میں خاص عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی نشونما ،تخلیقی قوتوں کی تربیت وہ تہذیب ،نصاب ،معیار تعلیم ،اساتذہ کی تربیت اور اس طرح کے دوسرے موضوعات زیر بحث آتے ہیں ۔

تعلیم کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے، مگر آج کے تعلیم یافتہ دور میں اس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے افراد اور اقوام کی زندگی میں تعلیم وہ تربیت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ تعلیمی معیار ھی کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔تعلیم ہر انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت امیر ہو یا غریب کی بنیادی ضرورت ہے ۔یہ ہر انسان کا حق ہے جو اس سے کوئی چھین نہی سکتا۔ دیکھا جائے تو انسان اور حیوان میں فرق تعلیم ھی کی بدولت ہے .ہمارے مذہب میں حصول تعلیم کے لئے پر زور تلقین کی گئی ہے ایسی تعلیم جو زندگی کے نصب العین کی ،مقصد حیات کی اور تہذیب و تمدن کی رہنمائی کرتی ہو، جو دو نسلوں کے درمیان تعلق پیدا کرتی ہواور پرانی ثقافت کو نئی ثقافت سے جوڑتی ہے۔

آج ہمارے ملک کا حال کیا ہے؟ہمارا تعلیمی نظام ایک غیر معمولی تبدیلی کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ صرف ١١ فیصدعوام کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل ہے، اس کی اصل وجہ ہماری بڑھتی ہوئی آبادی ومعیشت ہے اور اس ضمن میں سب سے بڑی مشکل یہاں تعلیم کا کمزور معیار ہے۔ اساتذہ کی قلّت ہے ۔جو اساتذہ ہیں وہ بھی ایسے جو نہ ان علوم پر گہری نظر رکھتے ہیں جو وہ پڑھاتے ہیں اور نہ تعلیم کے حقیقی مقصد سے آشنا ہیں۔ رابرٹ فراسٹ نے کیا خوب کہا کہ ” میں پڑھاتا نہی جگاتا ہوں”I am not a teacher but i am an awakener استاد وہ نہی جو چار کتابیں پڑھا کر اور کچھ کلاسز لے کر اپنے فرائض سے مبرّا ہو گیا بلکہ استاد وہ ہے جو طلبا و طالبات کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے انھیں شعور و ادراک ،علم و آگہی کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔

اگر آج کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا پیشہ تدریس کو بھی آلودہ کر دیا گیا ہے۔ کل تک حصول تعلیم کا مقصد تعمیر انسانی تھا آج نمبرات اور مارک شیٹ ہیں۔ افسوس کے ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں پر مفاد پرست لوگ قابض ہیں جن کے نزدیک اس عظیم پیشے کی کوئی قدرو قیمت نہیں بہت کم ایسے استاد ملیں گے جو اپنے پیشے کے تئں مخلص اور سچے ہیں جو صحیح معنوں میں انے والی نسل کے معمار ہیں

جنکے کردار سے آتی ہے صداقت کی مہک /انکی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

ہماری جدوجہد آزادی کے سرکردہ مجاہدین میں مولانا ابولکلام آزاد کا نام نمایاں حیثیت رکھتا ہے، وہ اس ملک کے پہلے وزیر تعلیم بنے .انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ١١ سال تعلیمی نظام کی راہیں استوار کرنے اور اسے قومی رنگ و آہنگ عطا کرنے میں صرف کے .انکے عہد وزارت میں تعلیمی منصوبہ بندی کا آغاز ہوا، اور یونیو رسٹی گرا نٹس کمیشن کا قیام عمل میں آیا وہ تعلیم کا ایک جامع اور بلند تصور رکھتے تھے ..

آج کے دور میں تعلیم آمدنی کا بہترین ذریعہ بن گئی ہے۔ اسکی مثال دیکھینگے صبح و شام کی شفٹ میں اسکا سلسلہ زوروں پر ہے ہر جگه اور ہر مقام پر تعلیم کو فروغ دینے کی بات کی جارہی ہے ،جگه جگه کوچنگ سینٹر بھی اپنے فرائض کی انجام دہی کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔اور یہ سینٹر خوب زور شور سے چل رہے ہیں۔ کیونکہ طلباء کو تعلیمی اداروں سے مکمل رہنمائی نہی مل رہی، یا پھر یوں کہہ لیں کہ اس مقابلہ آرائی کےدورمیں والدین اپنے بچوں کو وہاں بھیجنے پر مجبور ہیں ۔گو کہ یہ کوچنگ سینٹر اور نئے تعلیمی ادارے بھاری بھرکم فیس وصول کرتے ہیں اور والدین بچوں کے تابناک مستقبل کے لئے یہ بھی جھیلنے تیار ہیں ۔تب ھی تو بنا کوچنگ کلاس کے ہمارے بچّےامتحان کے لئے تیار ھی نہی ہو پاتے ..ہر نئی حکومت اسکول اور کالج تو بنا دیتی ہے مگر معیار تعلیم کو بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہیں ہر دور میں تعلیمی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہی ہوتا ….کیا ہمارا آج کا تعلیمی نظام پوری طرح انسان کو با شعور اور با اخلاق بناتا ہے؟کیا وہ انسان کے اندر چھپی صلاحیتوں کو بیدار کر کے انھیں پروان چڑھاتا ہے ؟ہمارے یہاں برسوں سے جو تعلیم کا نظام ہے کہ بس رٹالگانا اور پرچے چھاپنا …کیوں کہ جدید طریقہ تعلیم سے ہم کوسوں دور ہیں چند دن پہلے میری نظر سے ایک سروے گزرا جس میں یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک فن لینڈ کے تعلیمی طریقے کے بارے میں لکھا تھا یہ ملک آبادی کے اعتبار سے دنیا میں ١١٤ نمبر پر ہے اس ملک کی کل آبادی ٥٥ لاکھ کے قریب ہے لیکن اس وقت تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سے فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جبکہ سپر پاور امریکہ ٢٠ ویں نمبر پر ہے یہاں کا کوئی بھی اسکول زیادہ سے زیادہ ١٩٥ بچوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ ١٩ بچوں پر ایک ٹیچر مقرر دنیا میں سب سے لمبی بریک (وقفہ )اسی ملک میں بچے اپنے اسکول ٹائم کا ٧٥ منٹ بریک میں گزارتے ہیں دوسرے نمبر پر ٥٧ منٹ کی بریک نیویارک میں ہوتی ہے پورے ہفتے میں محض ٢٠ گھنٹے پڑھائی ہوتی ہے جبکہ اساتذہ کے ٢ گھنٹے روز اپنی "اسکلز”بڑھانے میں صرف ہوتے ہیں .فن لینڈ میں ٹیچر بننا ڈاکٹر اور انجینئر بننے سے زیادہ مشکل اور اعزاز کی بات ہے پورے ملک کی یونیورسٹیز کے” ٹاپ ٹین "ماسٹرز کئے ہوے طالب علموں کو ایک خصوصی امتحان کے بعد اسکولوں میں بطور استاد رکھا جاتا ہے ٧ سال سے پہلے بچوں کے لئے پورے ملک میں کوئی اسکول نہیں ہے اور پندرہ سال سے پہلے بچوں کے لئے پورے ملک میں کسی قسم کا باقاعدہ کوئی امتحان نہی ہے …اب جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ھی مضمون سکھایا جاتا ہے اور وہ "اخلاقیات”اور "آداب "ہیں ..حضرت علی( رض) نے فرمایا "جس میں ادب نہی اسمیں دین نہیں "..جاپان والے حضرت علی( رض) کو کیسے جانتے ہیں جبکہ ہمیں ابھی تک انکی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی …

ایک صاحب کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا انہوں نے اپنا تعارف کروایا کی میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نششتوں سے کڑھے ہو گئے اس دن مجھے معلوم ہوا کی قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے ..استادوں کو عزت وہی قوم دیتی ہے جو تعلیم کو عزت دیتی ہو…

 

رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے

استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

 

ہمارے یہاں تعلیم کا نصب العین صرف حصول معاش بن کر رہ گیا ہے آج کا نوجوان طبقہ صرف یہ سوچ کر اپنی تعلیم کا شعبہ چنتا ہے کی کس فیلڈ میں آمدنی زیادہ ہے …. دور حاضر کی مارکیٹ ڈیمانڈ کس شعبہ کی ہے اسے پڑھا جائے تاکہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد معاشی تنگی نہ ہو آج ہم سب یہی سوچ رکھتے ہیں

 

آدمیت اور شئے ہے علم ہے کچھ اور شئے

کتنا طوطےکو پڑھایا پر وہ حیواں ھی رہا

 

آج کیوں یونیورسٹیز اور کولیجیزسےفارغ ہونے کے بعد بھی ہمارے نوجوانوں میں وہ تہذیب وہ اقدار کا فقدان ہے ..آج ہمارے معاشرے کے علاوہ درسگاہوں میں بھی "اسپیشل دن”جو منانے شروع کر دئے ہیں "روز ڈے”،ٹریڈیشنل ڈے "،فرینڈ شپ ڈے "مدر ڈے ” ..یہ ہماری تہذیب کا حصّہ تو نہیں کہ ایک خاص دن کو اس نام سے متعارف کرایا جائے ہماری نوجوان نسل ان ہی خرافات میں الجھ کر اپنے اصل مقصد سے غافل ہو چکی ہے …

اب جو نئی خبر پھیلی ہے کہ حکومت کی طرف سے جو تبدیلی لائی جا رہی ہے۔ایک خاص مذہب جو کہ باطل ہے اسے ہماری آنے والی نسلوں کو پڑھنا ہوگا۔اللہ رحم کرے۔
آخر میں ہم اس نتیجے پر پہنچیں ہیں کہ تعلیم کا حقیقی مقصد انسانی سیرت وکردار کی تعمیر کرنا اسکو ایسے سانچے میں ڈھالنا کہ وہ خود کو مفید شہری بنا کر صالح معاشرے کو وجود میں لانے میں مددگاربنے .تعلیم اس انداز سے بھی مفید ہونی چاہیے اسے حاصل کرنے کے بعد تمام لوگ ایک دوسرے کی سلامتی کے ضامن بن جائیں۔ تعلیم لوگوں کے ماحول حالات اور خود لوگوں کی ذات پر اثرانداز ہوتی ہے ….اگر ہم آج معاشرے کو بگڑا ہوا کہتے ہیں تو ہمیں ضرور اس تعلیمی معیار کو بلند کرنا ہوگا اسے صرف کتابوں کی صورت میں رٹنا اور چھاپنا نہی بلکہ اپنی زندگی کے اوراق کو اس سے سجانا ہوگا ۔ ہمارے انتظامیہ کو بھی احساس دلانا ہوگا کی اب وہ پرانا بوسیدہ نظام ہٹا کر جدید طریقوں کو اپنا کر ہمارے ملک کی آنے والی نسلوں پر رحم کریں …اس نظام میں تبدیلی بہت ضروری ہے ..

 

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا

لیا جاےگا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا..

 

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نہ زن

کہتے ہیں اس علم کو ارباب نظر موت

 

منجانب: شبانہ اظہر سیّد، ملّت نگر

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا