گیلری ( افسانہ )

0
0

” دودھ جل گیا ہے ۔۔۔۔۔ ہاں جی۔۔۔۔ پورا ایک لیٹر دودھ ۔۔۔ ملائی کریم والا ۔۔۔ ایئں؟؟ —- نہیں جی چولھے پر رکھ کر بھول گئ تھی ۔۔۔۔ او جی ٹی وی پر شو چل رہا تھا ۔۔۔ کپیل شرما شو۔۔۔ بس وہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔ بس بھول گئ ۔۔۔ بالکل بھی یاد نہیں رہا ۔۔۔۔۔ ہاں جی جب جلنے کی بو آئی تو سوچنے لگی کہاں سے بو آ رہی ہے؟ —– کیا جل رہا ہے—- پھر ہوش ٹھکانے آئے ۔۔۔۔۔ اللہ ۔۔۔ چولھے پر دودھ رکھا تھا ۔۔۔۔ ستیا ناس۔۔۔ دوڑ کر گئ ۔۔۔ گیس پر رکھا ہوا دودھ کا پتیلا جل کر راکھ ہو گیا تھا ۔۔۔۔ ”
سامنے کھڑکی سے آتی ہوئی مسلسل آوازیں طاہرہ کو بہت پریشان کر رہی تھیں ۔ لگاتار دو دن سے اس عورت کو وہ سن رہی تھی ۔۔۔ خدا جانے کون تھی کیا نام تھا ۔۔
طاہرہ کو یہاں آئے دو دن ہو گئے تھے ۔ اس علاقے سے وہ ناواقف تھی۔ لیکن جب سے وہ اس گھر میں داخل ہوئی تھی مسلسل ایک آواز، کسی عورت کی گفتگو اسے سنائی دے رہی تھی ۔
” کیوں ۔۔۔ ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے ۔۔۔۔ پھر وہ ہمارے گھر کیوں نہیں آتے ۔۔۔۔ خود ہی بدگمانیاں پال رکھی ہیں ۔۔۔۔۔ ہمارے گھروں کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں ۔۔۔۔ زیبا۔۔۔۔۔ ارے اوہ زیبا ۔۔۔۔ ارے سن تو ۔۔۔”
"للہ ۔۔۔۔ کون ہے جو اس قدر گلا پھاڈ پھاڈ کر چلا رہی ہے ”
بستر پر سوئی ہوئی طاہرہ تکیے کو اپنے سر پر رکھتے ہوئے دل ہی دل میں سامنے کے مکان سے آتی ہوئی آواز پر تلملا اٹھی ۔۔۔
دیر رات گئے تک وہ جاگتی رہی ۔ آنکھوں میں ابھی بھی نیند کا غلبہ تھا ۔۔ مگر اس چیختی چلاتی آواز نے اس کا سونا دشوار کر دیا ۔۔۔۔
اس نئے مکان میں موبائل بالکل بھی کام نہیں کر رہا تھا جانے کتنی بار سیٹینگ آپشن سے اس نے نیٹ ورک کو مینولی سیٹ کیا تھا۔۔ مگر کچھ نا ہو سکا۔
اپنی کتابوں کو سائیڈ میں رکھ وہ پانی پینے لگی ۔
اف یہ کیا پانی بھی ختم ہونے والا تھا ۔۔۔ دوپہر کے دو بجنے والے تھے ۔۔۔ تھکی ہاری طاہرہ کا دل بھی نہیں تھا کہ باہر جاکر کھانا لے آئیں ۔
آن لائن زومیٹو یا سویگی سے کھانا آرڈر کرنے کی خواہش تھی۔ لیکن نیٹ ورک ۔۔۔ توبہ ۔۔۔۔ بھوک کے مارے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے ۔۔ صبح سے چائے بھی نہیں پی تھی ۔ اپنے ساتھ لائے ہوئے اسنیک کوکیز سارے ختم ہو چکے تھے ۔۔۔
” زیبا ۔۔ ارے او زیبا۔۔۔۔۔ مہمان آنے والے ہیں مہمان ۔”
سامنے کھڑکی سے آتی ہوئی آواز نے طاہرہ کو چونکا دیا ۔ اتنی تیز آواز سارے محلے کو واقف کرا دیتی ہے یہ عورت ۔۔۔ للہ ۔۔۔ شاید پیدائش سے ہی اس کا ساونڈ سسٹم ڈیفیکٹیو ہے”۔
طاہرہ غصے میں بڑبڑاتی ہوئی دوسرے کمرے میں چلی گئ ۔
ابھی بھی اس عورت کی دھیمی دھیمی آوازیں سنائی دے رہی تھی ۔
ایک پل کے لیے بھی سکون نہیں تھا۔ مسلسل کچھ نا کچھ بکتی ہی رہتی تھی یہ عورت ۔ کبھی فون پر تو کبھی کسی زیبا نام کی لڑکی سے۔
اف کیا کریں اب اس آواز کو وہ مزید نہیں سن سکتی تھی ۔ کتنی اونچی آواز میں بات کیا کرتی ہے یہ عورت۔ مانو جیسے سامنے والے مکان سے نہیں۔ بلکہ کان کے پاس کھڑی ہو کر چلا رہی ہو ۔
موبائل کا نیٹ ورک نا ملنے کے باعث وہ بے حد پریشان تھی اوپر سے خاموشی میں خلل پیدا کرتی ہوئی یہ عورت۔ آخر کار کچن سے لگا ہوا گیلری کا دروازہ کھول کر وہ باہر آئی ۔ گیلری کے مخالف سمت میں ایک اور بلڈنگ کی گیلری تھی ۔جہاں سے اس عورت کی چیختی چلاتی ہوئی آوازیں مسلسل سنائی دیتی تھیں۔ اور ابھی بھی وہاں سے آوازیں آ رہی تھیں” یہ میری بھابھی ہے ۔۔۔ جی ۔۔۔ بھابھی ”
اف طاہرہ جیسے گیلری میں داخل ہوئی تھی۔ ویسے ہی پلٹ کر واپس اندر آ گئی ۔ طاہرہ نا ہی اس عورت کی آواز سننا چاہتی تھی اور نا ہی اس کی شکل دیکھنا پسند کرتی تھی ۔
یہ کیا! طاہرہ جیسے ہی گیلری سے واپس لوٹی موبائل پر ڈھیروں میسیجز اور نوٹیفکیشن اچانک موجود ہوئے ۔ دو دن سے نا جانے کتنے دوستوں نے اسے واٹس ایپ، فیس بک اور انسٹاگرام پر میسج چھوڑے تھے۔ جو ابھی ایک ساتھ رسیو ہوئے تھے۔
اچھا !! تو یہ بات ہے؟ موبائل نیٹ ورک گیلری میں ساتھ دیتا ہے ۔۔۔ شکر ہے اللہ کا ۔ طاہرہ واپس گیلری میں چلی آئی ۔ ” نئی آئی ہو کیا اس بلڈنگ میں؟؟؟ ۔۔۔۔ امجد بھائی نے دلوایا ہے یہ فلیٹ؟؟ ۔۔۔ امجد بھائی جو پہلے یہاں رہتے تھے—- اب چلے گئے ہیں دوسری طرف ۔۔۔۔ وہاں انہوں نے نیا فلیٹ خرید لیا ہے ۔۔ نائلہ ان کی بیوی ۔۔۔۔ میری بہت اچھی سہیلی تھی ۔۔ ہم دونوں اسی گیلری سے باتیں کیا کرتے تھے ۔۔۔ کھانے کی چیزیں شیئر کیا کرتے تھے ۔۔۔ میں تو ہر چیز اس سے مانگا کرتی تھی ۔۔۔۔ چینی، چائے پتی، مسالے وغیرہ ۔۔۔ اب پانچویں منزل سے بار بار نیچے کون جائے ۔۔۔۔۔ اس سے ادھار لے لیا کرتی تھی۔ اور جب خضر کے ابو لے آتے انھیں واپس لوٹایا کرتی تھی ۔۔۔۔ بے چاری ۔۔۔۔۔بڑی پیاری تھی ۔۔۔ کبھی کوئی چیز دینے سے منع نہیں کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔ فلیٹ چھوڑے دو مہینے ہو گئے ۔۔۔۔۔” مسلسل مجھ سے باتیں کرتی ہوئی وہ عورت کچھ دیر کے لیے رک گئی تھی ۔اور طاہرہ اسے حیرانی کے ساتھ تکتی رہ گئ ۔
گول مٹول مسکراتا ہوا چہرہ، گندمی رنگ، چھوٹی چھوٹی گول آنکھیں، بالوں کا جوڑا بنایا ہوا، کانوں میں سونے کی بالیاں، دوپٹے کو اپنے گلے میں لپیٹے ہوئے ایک موٹی سی عورت طاہرہ سے مخاطب تھی ۔
طاہرہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح ری ایکٹ کریں ۔۔۔
وہ دوبارہ طاہرہ سے مخاطب ہوئی ۔
” تمھیں اس گیلری میں کھڑا دیکھ کر مجھے نائلہ کی یاد آ گئ ۔۔۔۔ کہاں سے آئی ہو تم۔۔۔ اکیلی آئی ہو۔۔۔۔ اور کون کون ہے ساتھ میں ۔۔۔۔۔ ؟؟؟”
” جی ۔۔۔ اکیلی آئی ہوں ۔۔ امتحان شروع ہیں ۔۔۔۔”
” اوہ امتحان؟ ۔۔۔۔ کون سا کالج ؟۔۔۔۔۔ اکیلی ہو۔۔۔۔ کھانا کھا لیا—؟”
” جی۔۔۔۔ ن ن نہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ یہاں۔۔۔ میس کہاں پر ہے؟؟۔۔۔۔”
” میس؟ یہ کیا ہے؟”
” کھانے کا ٹیفن ۔۔۔۔ کیٹرنگ سروس۔۔۔”
اوہ اچھا ۔۔ کھانا؟۔۔۔۔ بھئ وہ تو یہاں کہیں نہیں ملے گا ۔۔۔۔ بھوک لگی ہے۔۔۔۔۔ تم نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا۔۔۔؟؟؟ رکو۔۔۔۔ میں ابھی آئی ۔”
کچھ دیر کے بعد وہ عورت کھانے کا تھال لیے گیلری میں واپس آگئ ” لو یہ کھا لو۔۔۔ دوپہر میں اپنے لیے جو کچھ بنایا تھا۔۔۔ وہی لے آئی ہوں ۔۔۔۔ ” ان دونوں کی بلڈنگ کی گیلری کافی قریب تھی۔ مشکل سے ایک میٹر کا فاصلہ ہوگا۔۔۔۔۔ اس عورت نے بنا کوئی جواب سنے برتن طاہرہ کے ہاتھ میں پکڑا دیا ۔
” چائے پی لی تم نے؟”
” جی نہیں ”
” اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔ تم کھا لو۔۔۔ میں تمھارے لیے گرما گرم چائے بنا دیتی ہوں ”
اس سے پہلے طاہرہ کچھ کہتی وہ اندر چلی گئی ۔ کافی دیر وہ کھانے کا تھال ہاتھوں میں لیے وہاں کھڑی رہی ۔
طاہرہ مڈنے ہی والی تھی کہ اس عورت کی آواز سنائی دی ۔
” ہیلو۔۔۔۔۔ بیٹا تمھارا نام کیا ہے؟”
” جی ۔۔طاہرہ۔” ” اچھا بیٹا۔۔۔ میں میٹھی چائے نہیں پیتی مجھے شوگر ہے ۔۔۔ لیکن تمھارے لیے میں میٹھی چائے بنا دوں گی ۔
وہ عورت واپس اندر چلی گئی ۔ یہ وہی عورت تھی جسے طاہرہ کچھ دیر پہلے کوس رہی تھی۔ برا بھلا کہہ رہی تھی ۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا ۔ وہ چپ چاپ کھانے کا برتن لیے گیلری سے اندر آ گئی ۔
میز پر برتن رکھا اس پر اوڑھایا ہوا کپڑا ہٹا دیا، بھوک کے مارے طاہرہ کا برا حال تھا۔ ایک بڑے سے تھال میں کھانے کی چیزیں چنی گئی تھیی ۔ چاول، دو روٹیاں، سالن، گوشت ، سوجی کا ہلوا وغیرہ ۔
اس کی بھوک اس سے کہنے لگی بنا کچھ سوچے بسم اللہ کر دو ۔ اس نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا ۔۔ طاہرہ کو اس عورت کی سخاوت اور اپنے رویے پر کافی افسوس ہو رہا تھا ۔ کتنی حیرانی کی بات تھی ۔
اسے کھانے کا تھال واپس دینا تھا ۔ اس نے پلیٹ یعنی تھال دھو دیا تھا۔ اس نے اپنے پرس سے سو کا نوٹ نکالا۔
وہ اس عورت کا نام تک نہیں جانتی تھی۔ جس نے اس کے لیے عمدہ کھانا مہیا کرایا تھا ۔
کبھی کبھی ہمیں انسان کی فطرت کا اندازہ بالکل بھی نہیں ہو پاتا، اور ہم اس کی ظاہری شکل و صورت سے یا ان کے برتاؤ سے ہی قیاس آرائیاں شروع کر دیتے ہیں۔
اس عورت کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ اتنے میں گیلری سے آواز آئی ” طاہرہ۔۔ ارے اوہ طاہرہ ۔۔۔ تمھارے لئے چائے بنائی ہے۔”
وہ لپک کر گیلری کی طرف آ گئی۔ اس عورت نے چائے کا پیالہ اس کی طرف بڑھایا ۔ ” آپی” ۔۔۔ وہ جاتے ہوئی واپس مڑی ۔ اس نے بنا کچھ کہے سو کا نوٹ آگے بڑھایا۔ وہ حیرانی سے طاہرہ طرف دیکھتے ہوئے بولی ” ارے باولی ۔۔۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔ بھلا ایک انسان کو کھانا کھلانے سے میرا اناج تو ختم نہیں ہوگا۔۔۔ رزق تو اللہ دیتا ہے ۔۔ جب کوئی مہمان آتا ہے تو کیا ہم اس کی مہمان نوازی نہیں کرتے ۔۔۔۔۔ تم میری مہمان ہو اور جب تک یہاں رہو گی میں روز تمھارے لئے کھانا بناوں گی ۔ وہ عورت اندر جا چکی تھی ۔ سو کا نوٹ طاہرہ کے ہاتھ میں ہی رہ گیا۔ اور اس نوٹ پر بنی گاندھی جی کی تصویر یہ سب دیکھ کر جیسے مسکرا رہی تھی۔

شکیلا سحر
پونہ، مہاراشٹر

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا