بیوائیں اور ان کے مسائل

0
0

سبزار احمد بٹ

اویل نورآباد

عام اصطلاح میں بیوہ اس عورت کو کہتے ہیں جسکا شوہر کسی وجہ سے  اسے داغ مفارقت دے جائے  لیکن یہ لفظ سنتے یا کہتے ہی دنیا بھر کی مجبوریوں ، محرومیوں اور لاچاریوں کا  نقش دل و دماغ میں ابھر کر آ جاتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے ان مصیبتوں کا براہ راست تعلق بیوہ عورت سے ہو اور مصیبتیں اور پریشانیاں جھیلنا بیواؤں کا مقدر بن گیا  ہو قرآن مجید کا فرمان ہے کہ "اللہ نے انسان کو کمزور پیدا کیا ہے” یعنی دونوں مرد و زن کمزور ہیں لیکن دونوں ایک ساتھ ہوں تو کسی بھی مصیبت کا مقابلہ مل کر کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے کیونکہ ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں بقول شاعر

کبھی تھکن کے اثر کا پتہ نہیں چلتا

وہ ساتھ ہو تو سفر کا پتہ نہیں چلتا

دونوں میں سے ایک اس جہان فانی سے کوچ کر جائے تو دوسرا بے یارو مددگار ہو کے رہ جاتا ہے بلکہ بے پردہ ہو جاتا ہے کیونکہ اسلام نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے اور عورت تو صنف نازک ہے اس کا اکیلا پن اسے کچھ ذیادہ ہی بے بس اور لاچار بنا دیتا ہے جب تک ایک عورت کا شوہر زندہ ہوتا ہے وہ کسی ملکہ سے کم نہیں ہوتی چاہے اس کا شوہر ادنیٰ سا نوکر یا مزدور ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ہر شوہر اپنی بیوی اور بچوں کی ذمہ داریوں کا بوجھ خوشی خوشی اٹھاتا ہے اور ان کی خواہشیں پوری کرتے کرتے قبر کی دہلیز تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی اُف تک نہیں کرتا اتنا ہی نہیں شوہر کے زندہ ہوتے ہوئے عورت کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات بھی نہیں کرتا لیکن یہی عورت جب بیوہ ہو جاتی ہے تو بالکل بے پردہ ہو جاتی ہے اور ہر ایری گیری نظر کی شکار ہو جاتی ہے  اور  معاشرے کے رحم و کرم پر  زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہے ایسے میں عورت خود بھی سخت سخت مزدوری کرتی ہے اور کبھی کبھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اپنے معصوم بچوں سے بھی مزدوری کرواتی ہے اس طرح سے ہزاروں یتیم بچے تعلیم کے نور سے منور نہیں ہو پاتے ہیں اور معاشرے کے صاحب ثروت لوگ یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں بلکہ کسی حد تک اس سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں جب کسی عورت کا شوہر فوت ہو جاتا ہے تو لوگوں کی کثیر تعداد اس کی ڈھارس باندھنے کے لیے آتی ہے اور لوگ طرح طرح کی یقین دہانیاں کراتے ہیں کہ وہ سب لوگ مصیبت کی اس گھڑی میں اس عورت اور اس کے یتیم بچوں کے ساتھ ہیں لیکن ابھی شوہر کو مرے ہفتہ بھی نہیں ہوا ہوتا ہے کہ سب لوگ رفوچکر ہوجاتے ہیں  کہیں کہیں پر تو سسرال والے بھی بیوہ عورتوں کے ساتھ تلخ رویہ روا رکھتے ہیں اور اس بیوہ اور اس کے یتیم بچوں کو پس پشت ڈالا جاتا ہے اس کے بعد اس بیوہ کو اپنے یتیم بچوں کو پالنے پھوسنے کے لیے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں  یہ اسی بیوہ کا کلیجہ جانتا ہے اپنی ذمہ داری نبھانے کے بجائے یہ سماج اس عورت پر الٹا وار کرتا ہے اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھتا ہے اور اس عورت پر طرح طرح کے فقرے کسے جاتے ہیں اس عورت کے ہنسنے اور اچھے کپڑے پہننے کو بھی معیوب سمجھا جاتا ہے اتنا ہی نہیں جو عورت بیوگی کی حالت میں ہوتی ہے اس کے اخلاقیات اور ذاتیات پر بھی سوال اٹھائے جاتے ہیں اگر یہ بیوہ کبھی کبھار زیور وغیرہ پہنے تو سماج اس پر یہ کہہ کر طنز کرتا ہے کہ اس عورت کو شوہر کی جدائی کا ذرا بھی دکھ نہیں ہے آج کا معاشرہ بیوہ عورت پر نگاہ رکھتا ہے کہ یہ عورت کیسے اور کن محفلوں میں جاتی ہے یعنی سماج اس بیوہ کی داد رسانی کرنے کے بجائے الٹا اسے خوشی سے جینے نہیں دیتا ہے اور اسے طرح طرح کے نام دیے جاتے ہیں معاشرے نے اس عورت کی دوسری شادی کو تقریباً تقریباً ناممکن ہی بنا دیا ہے اتنا ہی نہیں ایشیاء کے چند ممالک میں بیواؤں کو منحوس سمجھا جاتا ہے اور شادی شدہ عورتیں یعنی سہاگنیں تو ان کی پرچھائیوں سے بھی ڈر جاتیں ہیں ایسا صرف ہمارے ہاں ہی نہیں بلکہ تمام دقیانوسی معاشروں میں ہوتا آ رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ اس عورت نے اپنے شوہر کے ساتھ ساتھ اپنی خواہشوں اور تمناؤں کو بھی دفن کر دیا ہو معاشرے کے اس رویے کو فرسودہ رویہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ایسا نہیں ہے کہ بیواؤں کے لیے کوئی کچھ نہیں کرتا ہے لیکن جتنا کچھ کیا جاتا ہے اس سے زیادہ کیا جانا چاہیے اور کرنے کی گنجائش موجود ہے  اسلام میں بیواؤں سے اس طرح کا برتاؤ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اسلام وہ  دین ہے جس میں ہر کسی کے حقوق و فرایض متعین کر دیے گیے ہیں جن میں یتیموں اور بیواؤں کے حقوق بھی شامل ہیں بیوہ  ہونے کے بعد عورت کے لیے اسلام نے چار مہینے اور دس دن کا مخصوص وقفہ متعین کیا ہے کہ اس عرصے کے دوران یہ عورت نہ ہی بناؤ سنگار کر سکتی ہے اور نہ ہی دوسری شادی   بلکہ یہ وقت اس بیوہ کو بہت ہی سادگی اور متانت سے گزارنا ہوگا اسلامی اصطلاح میں اس عرصے کو عدت کہتے ہیں اس کے بعد عورت کو دوسری شادی کی اجازت ہے اور اب یہ عورت عزت و احترام کے ساتھ باقی عورتوں کی طرح زندگی گزار سکتی ہے   قرآن مجید کا فرمان ہے کہ” اور تم میں سے جو لوگ وفات دیے جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ (بیویاں )چار مہینے اور دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں  پس جب وہ اپنى (مقررہ) مدت کو پہنچ جائیں  تو پھر وہ (عورتیں ) اپنے متعلق معروف کے مطابق جو بھى کریں اس بارے میں تم پر کوئى گناہ نہیں اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو ہمىشہ باخبر رہتا ہے۔ یعنی اسلام نے بیواؤں کی دوسری شادی کی باضابطہ اجازت دے دی ہے تاکہ بیوہ عورتیں پھر ان خوشیوں اور مسرتوں سے لطف اندوز ہو جائیں جن سے وہ شوہر کی وفات کے بعد محروم ہو چکیں تھیں ”  ایک حدیث پاک میں  رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا ہے کہ بیوہ اور یتیم کی خبر گیری کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے  اتنا ہی نہیں ایک اور جگہ پر ہمارے پیارے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اے علی!تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو نماز میں جب اس کا وقت ہو جائے جنازہ میں جب حاضر ہو اور بیوہ عورت کے نکاح میں جب اس کا ہم کفو رشتہ مل جائے” ۔   یا اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے کہ حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کے عقد میں ایک کو چھوڑ کر باقی سب بیوائیں تھی لیکن نہ جانے کیوں موجود سماج  بیواؤں کو حقیر سمجھتا ہے اور ان سے نکاح کرنا دور بلکہ یہ سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتے
جموں و کشمیر کی حالت سے کون واقف نہیں ہے نامساعد حلات کی وجہ سے آئے دن کوئی نہ کوئی موت کا نوالہ بن جاتا ہے  بچے یتیم ہو جاتے ہیں  سال 2010 کی ایک سروے کے مطابق جموں و کشمیر میں بیواؤں کی تعداد 32000 ہے جبکہ یتیم بچوں کی تعداد 97000 ہے اس تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اس لیے سرکار کے پاس بیواؤں کی بازآبادکاری کا ایک مستحکم منصوبہ ہونا چاہیے تاکہ انہیں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی کبھی ضرورت نہ پڑے اور نہ ہی کسی جرم کے مرتکب ہو جائیں  انتظامیہ کی اور سے آج بیواؤں کو صرف ایک ہزار روپیہ ماہانہ بطور مشاہرہ دیا جاتا ہے جس کے لیے ان بیواؤں کو بنکوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں تب جا کر کہیں چار چار مہینے کے بعد اس قلیل مشاہرے کی ایک قسط وصول ہو پاتی ہے آج کے دور میں جب مہنگائی آسماں کو چھو رہی ہے ایسے میں ایک ہراز پر مہینے کا گزارہ  کیسے ممکن ہو سکتا ہے کیسے ایک بیوہ اپنے چار چار بچوں کو پال سکتی ہے ان کی دوائی پڑھائی اور کپڑوں کا خرچہ کہاں سے لائے گی یہ ایسے سوالات ہیں جن پر انتظامیہ کے ساتھ ساتھ سماج کے ہر ذی شعور فرد کو غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے   لہذا انتظامیہ کو چاہیے کہ مہنگائی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مشاہرے میں مناسب اضافہ کیا جائے اور  اسے حاصل کرنے کے عمل کو آسان سے آسان تر بنایا جائے اور ان کے لیے راشن  کے کوٹا اور مختلف بیماریوں کے ادویات کی قیمتوں میں بھی رعایت رکھی جائے  اتنا ہی نہیں سرکار کو چاہیے کہ ان کے بچوں کی شادی کے وقت ان کی معاونت کی جائے عوامی سطح پر بھی بیواؤں کے تئیں منفی سوچ کو مثبت سوچ میں بدلنے کی ضرورت ہے اور اس سوچ کو بدلنے کے لئے مختلف زرایع جیسے ریڑیو، ٹی وی، اخبارات اور سوشل میڈیا کا سہارا لیا جا سکتا ہے تاکہ بیواؤں کے تئیں معاشرے کے فرسودہ روئیے میں تبدیلی لائی جا سکے اور  یہ بے بس اور لاچار طبقہ بھی سر اٹھا کر زندگی گزار سکے اور ہمیں بھی اللہ کے حضور شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے کیونکہ بیواؤں کے تعیں ہماری بہت ساری ذمہ داریاں ہیں   قیامت میں ہمیں ان کے بارے میں پوچھا جائے حالانکہ ہر سال 23 جون کو بیواؤں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس دن دنیا بھر میں مختلف تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے اس دن کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ عوامی سطح پر بیواؤں کی فلاح کے لیے شعور بیدار کیا جائے اس دن بیواؤں کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور ناانصافی کا ازالہ کرنے کا عزم کیا جاتا ہے لیکن زمینی سطح پر کچھ اور ہی نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے بیواؤں کی حالت زار دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح کی محفلوں میں محض کاغذی گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں اور یہ سب زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے جہاں تک کشمیر کا سوال ہے  الحمدللہ کشمیر کے ہر گاؤں میں ایک اوقاف کمیٹی کام کر رہی ہے اس کمیٹی کو چاہیے کہ اپنے اپنے گاؤں میں یتیموں اور بیواؤں کی نشاندہی کر  کے انہیں مالی معاونت کی جائے اور ان کے  یتیم بچوں کی پڑھائی کا خاص خیال رکھا جائے سرکار کے ساتھ  اور نجی اسکولوں مالکان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ یتیم بچوں کے لیے  نشستیں مشخص رکھیں تاکہ انہیں بھی تعلیم حاصل کرنے میں آسانی ہو تاکہ کوئی بھی یتیم یا بیوہ کوئی سنگین قدم اٹھانے پر مجبور نہ ہوں
سرخ ہونٹوں پہ تو مرتے ہیں سبھی حسن پرست

زرد ہونٹوں کی نقاہت پہ بھی کچھ بات کرو

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا