آغا اشرف علی کا مختصر تعارف

0
0

یواین آئی

سرینگر؍؍آغا اشرف علی 18 اگست 1922 کو پرانے شہر کے نوا کدل علاقے میں واقع اپنے آبائی گھر میں پیدا ہوئے۔ آپ معروف علمی و اعلیٰ درجے کے جاگیردار خاندان قزلباش کے چشم و چراغ تھے۔آغا اشرف علی کی والدہ بیگم ظفر علی کشمیر کی پہلی میٹرک پاس خاتون تھیں اور والد آغا ظفر علی اعلیٰ پایہ کے دانشور تھے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم مشن اسکول فتح کدل سری نگر میں حاصل کی اور شری پرتاب کالج سری نگر سے فرسٹ کلاس میں گریجویشن کی ڈگری مکمل کی۔ شری پرتاب کالج میں ہی بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کے ایک لیکچر سے ان کی زندگی میں انقلاب بپا ہوا۔گریجویشن کے بعد آغا اشرف نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ‘تاریخ’ کے مضمون میں فرسٹ ڈویڑن کے ساتھ پوسٹ گریجویشن کی ڈگری حا صل کی جس پر انہیں سال 1945 میں موریسن میڈل سے سرفراز کیا گیا۔بعد میں آغا اشرف علی دلی گئے جہاں انہوں نے جامعیہ ملیہ اسلامیہ میں درس وتدرس کی خدمات انجام دینا شروع کیں۔ اس دوران ان کا ہندوستان کے بعض ممتاز دانشوروں کے ساتھ گہرے مراسم استوار ہوئے جن میں ڈاکٹر ذاکر حسین، پروفیسر مجیب، پروفیسر حبیب اور پروفیسر عابد حسین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔تقسم ہند کے بعد آغا اشرف علی اپنی اہلیہ صوفیہ نعمانی سمیت واپس وطن لوٹے اور یہاں اس وقت کے وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ نے انہیں مزید تحصیل علم کے لئے انگلستان بھیجا جہاں انہوں نے کمپریٹیو ایجوکیشن اور ایجوکیشنل آرگنائزیشن اینڈ ایڈمنسٹریشن میں ڈپلومہ کیا۔سال1951 کے آخری تین مہینوں کے دوران آغا اشرف نے فرانس، جرمنی، سویڈن، سویزر لینڈ اور ڈنمارک کے سکولوں کا دورہ کر کے وہاں کے تعلیمی نظام اور تعلیم و تعلم کے طریقوں کو سمجھنے کے بعد واپس کشمیر کا رخ کیا۔آغا اشرف علی کو صرف 28 برس کی عمر میں انسپکٹر آف سکولز کے عہدے پر فائز کیا گیا اس دوران انہوں نے بلا خوف اپنی خدمات انجام دے کر شعبہ تعلیم میں ایک انقلاب بپا کیا اور کبھی بھی کسی بھی طاقت کے سامنے اپنے اصولوں کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا۔مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی گرفتاری کے بعد آغا کی ٹیچرس کالج آف ایجوکیشن کے پرنسپل کی حیثیت سے تقرری عمل میں لائی گئی جہاں انہوں نے سال 1955 سے 1960 تک اپنی خدمات انجام دے کر کئی نامور اساتذہ کو تیار کیا۔سال 1960 میں انہیں فل برائٹ سکالر شپ سے نوازا گیا اور وہ اپنی فیملی کے ساتھ امریکہ چلے گئے جہاں انہوں نے انڈینہ میں واقع بال سٹیٹ ٹیچرس کالج میں کمپریٹیو ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔جب کشمیر یونیورسٹی نے پوسٹ گریجویشن کے لئے شعبہ ایجوکیشن کا قیام عمل میں لایا تو آغا اشرف علی کو اس شعبے کا پہلا پروفیسر بنایا گیا۔ وہ پہلے کشمیری پروفیسر تھے کیونکہ اس وقت یونیورسٹی میں صرف لیکچررس اور ریڈرس ہوتے تھے۔ انہوں نے اس شعبے کی کئی برسوں تک سربراہی کی اور کشمیر یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات انجام دیں۔آغا اشرف علی کو کئی اعزازات سے سرفراز کیا گیا ہے جن میں نگینہ وطن بھی شامل ہے جو انہیں سال 2006 میں یوم اساتذہ کے موقع پر تعلیمی شعبے میں نمایاں خدمات انجام دینے پر دیا گیا۔سال 1982 میں اعلیٰ تعلیم کے کمشنر کی حیثیت سے ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی آپ یونیورسٹیوں، کالجوں اور دوسرے سمیناروں میں اپنے لیکچروں کے ذریعے تشنگان علم ودانش کی پیاس بجھاتے رہے۔آغا اشرف علی ایک ماہر تعلیم ہی نہیں بلکہ ایک نامور مقرر و دانشور کی حیثیت سے بھی ملک وبیرون ملک کے علمی و ادبی حلقوں میں اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ آپ قومی و بین الاقوامی سیاسی امور پر بھی دقیق نظر رکھتے تھے۔سال 2011 میں انہوں نے اپنی سوانح حیات ‘کچھ تو لکھئے کہ لوگ کہتے ہیں’ منظر عام پر لائی جو اردو زبان میں لکھی گئی ہے جس سے آپ کا اردو کے ساتھ والہانہ لگاؤ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا