خوابوں کا پہار فتح کرنے کا خواب

0
0

تھنلس نوربو
لیہ،لداخ

کرونا کی وجہ سے گھروں میں قید ہونے سے پہلے لوگوں کو انہیں ملی ہوئی آزادی کی قدر کم تھی۔ لیکن اس طویل مدتی لاک ڈاؤن نے انہیں صرف آزادی کا مطلب سمجھا دیا۔اب لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے کافی قدر ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سارے لوگوں نے، جن میں مشہور شخصیات بھی شامل ہیں، اس دوران اپنے خوابوں کے سفر کی یاد تازہ کر رہے تھے۔ ایسے ماحول میں ٹزرنگ لاڈول کے اس سفر کو، جس میں انہوں نے 15 سال کی عمر میں دنیا کے سب سے اونچی چوٹی کو سر کیا تھا، کو یاد نہ کیا جائے تو یہ ناانصافی ہوگی۔
ٹزرنگ نے اپنا بچپن لداخ کے ضلع لیہ کے جنوب مشرق میں 270 کلومیٹر مسافت پر واقع چانگتھن میں گزارا۔ یہاں کے خانہ بدوش اپنی زندگی گزر بسر کرنے کے لیے یاک ، بھیڑ اور بکری کی پرورش کرتے تھے۔چانگتھن اس وقت ترقی سے کوسوں دور تھا۔ ٹزرنگ کا ماننا ہے کہ انہیں کوہ پیمائی کا شوق اس وقت ہوا جب وہ این سی سی کیڈٹ بنیں۔ محترمہ اظہار خیال کرتے ہوئے کہتی ہیں "میں نے چانگتھن میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کیبعد میں اسپتک چلی گئی۔ دسویں جماعت کے بعد اعلی تعلیم کے لئے لیہ پہونچ گئی۔ لیہ میں گرلز ہائر سیکنڈری اسکول میں پڑھنے کے دوران ہی مجھے نیشنل کیڈٹ کور (این سی سی) میں شامل ہونے کا موقع ملا۔”
ٹزرنگ دنیا کے ایک بلند ترین مشکلات سے گھرے ہوئے خطے میں پیدا ہوئی تھی۔ عظیم ہمالیہ کی چوٹیوں کو دیکھنا اور کھڑی پہاڑیوں سے گزرناان کی زندگی کا معمول رہا ہے۔ ٹزرنگ اور پہاڑوں کے مابین ایک پرانا تعلق تھا – لہذا پہاڑوں پر چڑھنے کا خیال ان کے لئے بالکل بھی نیا نہیں تھا بلکہ فطری طور پر اس نوجوان لڑکی کے اندر موجود تھا جو برف سے ڈھکے ہوئے آسمان کی چوٹیوں سے کافی متاثرتھی۔ ٹزرنگ اپنی زندگی کے سفر کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ "عظیم ماؤنٹین ایوریسٹ پر چڑھنے کے لیے درکار جسمانی اور ذہنی قوت سے میں اچھی طرح واقف تھی۔ بہر کیف میرے اندر اس خطے کی عظمت کو کھوجنے کے جنون نے مجھے ایوریسٹ پہاڑ پر چڑھنے کے لیے راغب کیااور میں اپنی پہلی ہی کوشش میں کوہ پیمائی کے اس سفر میں کامیاب رہی۔” ٹزرنگ مزید کہتی ہیں کہ ان کی کامیابی کا سہرا یقینی طور پر ڈاکٹر نامیگل اور ان کے اہل خانہ کے ان تمام افرادکو جاتا ہے جن کے ساتھ وہ اسپتک میں قیام پذیر تھیں۔
چوٹی پر چڑھنا اتنا آسان نہیں جتنا الفاظ میں بیان کرنے سیظاہر ہوتا ہے۔ ایوریسٹ پر قدم رکھنے کی کوشش کرنے والوں کو مختلف قسم کے چیلنجوں کا سامنا کرناپڑتا ہے اور اس کی تنوع اور شدت کو سمجھنے کے لئے کئی طرح کے تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ ٹزرنگ اظہار خیال کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ "میں نیفیانگ،سیاچن گلیشیئر ، اتراکھنڈ اور دہلی میں مناسب تربیت حاصل کی تھی۔ اس نے مجھے ایوریسٹ پرچڑھنے کے قابل بنایا۔” کیڈٹ ٹزرنگ لاڈول بھارتی فوج طرف سے ایورسٹ مہم کی ایک رکن تھیں۔ انہوں نے دنیا کی سب سے اونچی چوٹی کو 2 جون 2005 کو فتح کیا۔ ایورسٹ فتح کرنے والی ٹیم کل نو افراد پر مشتمل تھی جن میں پانچ مرد اور چار خاتون شامل تھیں۔ٹزرنگ کے علاوہ تین دیگر خاتون کیپٹن سپرا مجمدار ، کیپٹن اشونی پوار اور نیپال اسپیشل فرونٹیر فورس کی ڈیچین لوما اس مہم میں شامل تھیں۔ بھارتی فوج کی یہی وہ خواتین ہیں جنہوں نے پہلی بار
کوہ پیمائی کی مہم میں حصہ لیا۔
چوٹی پر چڑھنے کے دوران صرف اندرونی قوت جواب دینے کا ڈر نہیں تھا بلکہ کوہ پیمائی کے دوران چوٹی کے مختلف جگہوں پر پڑی ہوئی انسانی لاشوں کو دیکھ کر بھی دہشت پیدا ہوتی تھی۔ ایورسٹ کا سفر مکمل کرنے کے کئی منٹ بعد تک ٹزرنگ نے اپنی آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔ محترمہ لاڈول اپنے ایوریسٹ پر جانے کی روداد بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ "چوٹی کے سفر پر بہت ساری لاشیں پڑی تھیں۔ اچانک ایک خوفناک سوچ نے مجھے پریشان کرنا شروع کیا – میں خود سے پوچھ رہی تھی کہ کیا میں وہاں مرنے جا رہی ہوں؟ اچانک میرے سر پر بندھا ہوا ٹارچ ایک مردہ لاش کے چہرے پر گر پڑااس وقت میں ساڑھے آٹھ ہزار میٹر کا فاصلہ طے کر چکی تھی۔ آج بھی مجھے یاد نہیں ہے کہ میں کسی وہم و گمان میں مبتلا ہوگئی تھی یا وہ مردہ شخص سچ میں مجھ پر ہنسنے لگا تھا۔ مسکراتے ہوئے ، میں آگے بڑھ گئی اور کچھ دیر بعد جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ مردہ شخص میرا تعاقب کر رہا تھا۔ اس نے مجھیاندر سے بری طرح جھنجوڑ دیااور میں سب کچھ بھول کر اپنی پوری قوت کے ساتھ چوٹی کی طرف آگے بڑھنے لگی۔ میں اب بھی سوچتی ہوں کہ شاید اس مردہ لاش نے ہی میرے سفر کو آسان بنایا تھا۔ 2 جون 2005 کو میں نے دنیا کی سب سے اونچی چوٹی کے سفر مکمل کیا”
یہ وہ لمحہ تھاجب انہیں محسوس ہواکہ اب انہوں نے اپنے تمام خوابوں کو نہ صرف پورا کرلیا بلکہ اپنے تمام طرح کے خوف پر بھی فتح حاصل کر لیا ہے لیکن یہ احساس بس لمحہ بھر کے لیے ہی تھا۔ اہل خانہ کی مالی تنگ دستی کے سبب ایوریسٹ سیواپس آنے کے فورا بعد ہی ٹزرنگ کی ترجیحی خواہش تھی کہ انہیں کوئی سرکاری ملازمت مل جائے اور اس کے لیے انہوں نے بہت ساری درخواستیں بھی دیں لیکن اس وقت لداخ میں روزگار کے زیادہ مواقع موجود نہیں تھے جس کی وجہ سے ٹزرنگ کو ملازمت
حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی۔ ٹزرنگ کہتی ہیں کہ "مجھے اپنی ہمت و بہادری کی وجہ سے ایوارڈز اور پہچان دونوں ملیلیکن میری ترجیح نوکری حاصل کرنا تھی جس میں میں ناکام رہی۔ مجھے اسٹیٹ ایوارڈ 2005 ، راکشا منتری پدک2008 اور ہمالیہ ہیرو ایوارڈ 2018 کے لیے منتخب تو کیا گیا مگر ان تمام ایوارڈز کے باوجود کسی بھی طرح کی ملازمت نہیں دی گئی۔ مجھے تھوڑی مایوسی ہوئی۔” لیکن وہ ایک فاتح ہے۔ وہ صنفی دقیانوسی تصورات کو توڑتی رہی اورآج سری نگر کے گلمرگ میں اسنو اسکیٹنگ انسٹرکٹر کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔
ٹزرنگ کا اپنے دیہی علاقے چانگتھن سے دنیا کی سب سے اونچی چوٹی کا سفر واقعی میں متاثر کن ہے۔ وہ ان بہادر خواتین میں سے ایک ہے جنہوں ایسے چیلنجوں قبول کیا جو کبھی صرف مردوں کے لئے ہی خاص سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے لداخ میں نوجوان نسل کے لئے ایک جرآت مندانہ مثال قائم کی ہے اور لوگوں کو متاثر کرتے ہوئے یہ سیکھ دی ہیکہ جب بھی زندگی میں کسی طرح کے حصول کی بات کی آئے تو اس کے لییکوئی کسر نہ چھوڑا جائے۔ (یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2019 کے تحت لکھا گیا ہے)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا