ایاز مغل
دوپہر کا وَقت تھا، دُور تک قدرتی نظاروں كے درمیان، بہتا دریا اور ہم. گرمی كے موسم میں، دریا كے کنارے سرسراتی ہوا کسی نعمت سے کم نہیں تھی. تخیل كے سمندر میں گوتا لگایا ہی تھا کہ اچانک ایک آواز سنائی دی.
” بچاؤ بچاؤ ، میرا بھائی ڈھوب رہا ہے” ، کسی چھوٹی بچی کی آواز تھی. نظر اِدھر اُدھر گھمائی، کچھ سمجھ نا آیا. کچھ لوگ دریا كے بیچوں بیچ ایک کھڈے کی طرف بھاگنے لگنے تو میں بھی اُسی طرف دوڑ پڑھا.
ایک بچہ، گھر سے نہانے نکلا تھا. موت كے آغوش میں جا پہنچا. کس کا بچہ تھا ، یہ معلوم نا ہو سکا. شور و گل میں ایک آواز میرے کانوں تک پہنچی، ” یہ تو قتل ہے”. میں چونک اٹھا. مزید دریافت کرنے پر معلوم ہوا كہ JCB مشین نے دریا سے ریت اور کنکر نکالنے كے لیے، گہرے کھڈے کھود رکھے ہیں. شاید غیر قانونی .
” اب تو یہ معمول بن گیا ہے. کسی کو کوئی فرق نہیں پڑھتا ” ، ایک اور آواز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا .
میں نے پوچھا ، ” بھائی تو کون لوگ ہیں وہ؟ ” .
جواب ملا ، ” ہیں کچھ لوگ جنکے سامنے انسان کی جان کی قیمت کچھ نہیں ، پیسہ ہی سب کچھ ہے ” ،
” تو آواز اٹھاؤ ” ، میں نے بڑے جوش سے کہا .
” ارے نہیں بابا ، ہمیں کیا فرق پڑھتا ہے . خوام خواہ ! ہم کیوں جھنجھٹ میں پڑھیں ” ، چہرے كے بھاؤ بدتلے ہوئے، اس نے جواب دیا .
” اگر وہ آپکا یا کسی دولت مند اور اثرورسوخ رکھنے والے کا بچہ ہوتا تو بھی کیا آپ ایسا سوچتے. شاید نہیں ! ” ، میں نے پوچھا .
خیر! اب کوئی جواب نہیں ملا. اور وہ آگے بڑھ گیا .
یہ معلوم نا ہوا كہ کس کا لخت جگر تھا. شائد غریب کا بچہ تھا. امیر کا بچہ ہوتا تو باتھ روم كے ٹب میں نہا لیتا. گرمی بھی لگتی تو ایئرکنڈیشنر جو لگا رکھے ہیں.
ہاں غریب ہی تھا. ورنہ کوئی آواز تو اٹھاتا . آخر ! کسی بچے کی جان گئی ہے. ایک ماں کی کوکھ اُجڑ گئی. ایک باپ نے اپنا لخت جگر کھویا اور بہنوں نے اپنا بھائی.
تعجب ہے! سب جانتے ہوئے بھی لوگ خاموش ہیں اور خدا کی مرضی سمجھ کر سب اپنی اپنی ذمہ داری سے پلہ جھاڑ رہے ہیں.
"کیا فرق پڑتا ہے؟” یہ سوچتا ہوا میں بھی اسی بھیڑ کا حصہ بن گیا.