خصوصی پوزیشن کے خاتمے کا ایک برس مکمل!

0
0

ایک سال میں کیا کچھ ہوا ہے
یواین آئی

سرینگر؍؍مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی تنسیخ اور ریاست کو دو حصوں میں منقسم کرنے کا ایک سال مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر میں لاک ڈاؤن کا بھی ایک برس مکمل ہوا ہے۔مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے سال گذشتہ پانچ اگست کو پارلیمنٹ میں جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی دفعات 370 اور 35 اے کی منسوخی اور ریاست کو دو حصوں میں منقسم کرنے کے اعلان سے قبل ہی وادی میں سیکورٹی فورسز کی اضافی کمپنیوں کی تعیناتی اور سیاحوں کو وادی چھوڑنے اور یاترا کو بیچ میں ہی منسوخ کرنے کی ہدایات سے اہلیان وادی میں مختلف النوع خدشات و تحفظات پیدا ہوئے تھے اور وادی میں ہر سو خوف و دہشت کا ماحول چھا گیا تھا۔انتظامیہ نے وادی میں چار اور پانچ اگست کی درمیانی رات کو ہی تمام تر مواصلاتی خدمات معطل کردی تھیں اور وادی میں سخت ترین پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔اس ایک برس کے دوران وادی میں تمام تر شعبہ ہائے حیات از حد متاثر ہوئے ہیں۔ مبصروں کا کہنا ہے کہ اس سال کے دوران سرکاری ملازمین کے بغیر تمام لوگوں، خواہ وہ کاروباری لوگ ہیں یا دستکار، مزدور ہیں یا کاریگر، دکان دار ہیں یا ریڈہ بان، کا حال بہت ہی بے حال ہوگیا ہے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ ترقی کے نام پر ہٹائے جانے والی دفعات کے بعد وادی میں کہیں کوئی تعمیر ترقی نظر نہیں آرہی ہے اور نہ ہی رشوت ستانی میں کوئی تفاوت واقع ہوئی ہے۔کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا کہنا ہے کہ اس ایک سال کے دوران یہاں معیشت کو زائد از چالیس ہزار کروڑ روپے کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔مواصلاتی خدمات پر عائد پابندیوں کی وجہ سے صحافیوں کا اپنے اپنے متعلقہ اداروں کے ساتھ کئی روز تک رابطہ منقطع ہوگیا تھا اور بعد ازاں انہیں ایک سرکاری میڈیا سینٹر میں اپنی رپورٹیں اپنے اداروں کو میل کرنے کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔پانچ اگست 2019 سے لے کر پانچ اگست 2020 تک وادی میں تجارتی سرگرمیاں کبھی بحال ہی نہیں ہوئیں اگرچہ سیال میں ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران بازار کھلنے لگے تھے اور دیگر سرگرمیاں بھی بحال ہونے لگی تھیں کہ کورونا وبا کے پیش نظر نافذ کئے جانے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب کچھ ایک بار پھر ٹھپ ہو کے رہ گیا۔پانچ اگست سے قبل ہی سیاحوں کو وادی چھوڑنے کی انتظامیہ کی طرف سے جاری کی جانے والی ایڈوائزری سے لے کر وادی کے تمام چھوٹے بڑے سیاحتی مقامات مسلسل سنسان ہیں۔وادی کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا شعبہ سیاحت مکمل طور پر ٹھپ ہے اور اس کے ساتھ وابستہ لوگوں خواہ وہ ہوٹل مالکان ہیں یا شکارہ والے، ٹور آپریٹرس ہیں یا ٹورسٹ گائیڈ، گھوڑے والے یا ہیں عام دکاندار تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔بلیوارڈ روڈ پر واقع ایک ہوٹل میں کام کرنے والے سید حیسن نامی ایک ملازم نے یو این آئی اردو کو اپنی روداد بتاتے ہوئے کہا: ‘سال گذشتہ کے پانچ اگست سے میں بیٹھا ہوں، کچھ ماہ تک یہ امید تھی کہ حالات ٹھیک ہوں گے اور کام دوبارہ شروع ہوگا لیکن جب حالات بد سے بد تر ہونے لگے تو میں نے مزدوری کرنا شروع کی اور اس طرح اپنے عیال کو پالتا ہوں’۔انہوں نے کہا کہ وادی کے تمام ہوٹل خالی پڑے ہیں جس کی وجہ سے ان کے مالک قرضے کے بھاری بھر کم بوجھ کے نیچے دب گئے ہیں۔وادی کی سڑکوں سے سال گذشتہ کے پانچ اگست کو پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہوا تھا جو بحال ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔محمد قاسم نامی ایک ٹرانسپورٹر نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ اس سال کے دوران میری بس صرف دو دن چلی ہے باقی سال بھر گھر پر کھڑی ہے۔انہوں نے کہا: ‘میری بس اس سال کے دوران صرف دو دن چلی ہے اور پندرہ سو روپے کمائے ہیں۔ میں بس کا بنک قرضہ ادا کرنے کے لئے زمین بیچنے کی سوچ رہا ہوں’۔موصوف نے کہا کہ ٹرانسپورٹ سے وابستہ لوگ دیوالیہ ہوگئے ہیں اگر ان کی باز آباد کاری کے لئے کچھ نہیں کیا گیا تو ان لوگوں کے لئے دوسری دنیا ہی بہتر ہوگی۔وادی میں سال گذشتہ کے پانچ اگست سے سال رواں کے پانچ اگست تک تعلیمی اداروں میں صرف پندرہ دن درس وتدریس ہوا ہے۔اساتذہ اور طلبا کا کہنا ہے کہ یہاں فور جی انٹرنیٹ خدمات کی معطلی کی وجہ سے آن لائن کلاسز ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ایک طالب علم نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ تیز رفتار انٹر نیٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے میں ایک کلاس بھی آن لائن نہیں لے سکا۔ایک ماہر تعلیم نے کہا کہ اس سال کے دوران جو یہاں طلبا کو تعلیمی نقصان ہوا ہے اس کی بھر پائی ممکن نہیں ہے۔وادی میں اس ایک برس کے دوران صحافیوں کو گونا گوں مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔پانچ اگست 2019 کے بعد یہاں صحافیوں کو کئی روز تک اپنے اداروں کے ساتھ رابطہ منقطع رہا بعد ازاں انتظامیہ نے پہلے سری نگر میں ایک نجی ہوٹل میں اور بعد ازاں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے دفتر میں ایک میڈیا سینٹر قائم کیا جہاں سہولیات کا فقدان تھا جس کی وجہ سے ایک صحافی کو اپنی رپورٹ یا تصویر اپنے ادارے کو ارسال کرنے کے لئے اپنی بھاری کا گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑتا تھا۔تاہم بعد ازاں رواں برس جنوری میں براڈ بینڈ انٹرنیٹ اور ٹوجی انٹرنیٹ خدمات کی بحالی کے بعد صحافیوں کے مشکلات میں قدرے کمی واقع ہوئی اور وہ اپنے ہی دفاتر میں کام کرنے لگے۔ادھر خصوصی درجے کے خاتمے اور ریاست کا دو یونین ٹریٹریوں میں منقسم ہونے کے بعد ڈومیسائل قانون کے اطلاق کو لے کر اہلیان وادی میں مختلف خدشات و تحفظات برابر پائے جارہے ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے کہ ڈومیسائل قانون سے نہ صرف کشمیری تعلیم یافتہ نوجوانوں کی نوکریاں خطرے میں ہیں بلکہ یہاں کی اراضی کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ایک معزز شہری نے اپنا نام مخفی رکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ وادی میں ہر سو خاموشی اور سناٹا چھایا ہوا ہے اور لوگ سڑکوں پر بر سر احتجاج نہیں ہیں لیکن یہاں ہر کسی کے دل میں خدشات کا ایک طوفان بپا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہاں سایہ فگن غیر یقینی صورتحال کبھی بھی کوئی سنگین رخ اختیار کر کے پر اسرار خاموشی کو توڑ سکتی ہے۔ما بعد پانچ اگست 2019 پیدا شدہ حالات وادی کے مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے لئے بھی سازگار اور موزوں ثابت نہیں ہوئے۔سابق وزرائے اعلیٰ سمیت کئی لیڈروں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کئی کئی ماہ تک نظر بند رکھا گیا جبکہ کئی لیڈران بشمول سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی ہنوز نظر بند ہیں۔اس سال کے دوران مزاحمتی لیڈران کلی طور پر منظر نامے سے اوجھل ہوئے۔ ان میں سے کئی ملک کے مختلف جیلوں میں بند ہیں جبکہ کئی اپنی رہائش گاہوں پر ہی نظر بند ہیں۔ مزاحمتی لیڈروں کی طرف سے اس سال کے دوران ایک بھی بیان سامنے نہیں آیا۔لوگوں کا کہنا ہے کہ کمیشن برائے انسانی حقوق اور کمیشن برائے خواتین سمیت کئی ادارے و نیم سرکاری دفاتر بند کئے جانے کی وجہ سے نہ صرف انصاف کا حصول ناممکن بن گیا ہے بلکہ روزگار کے مواقع بڑھنے کی بجائے گھٹ گئے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا