امام جلالی اور مخالفین :فکری تجزیہ 

0
0
ڈاکٹر مفتی محمدساجداحمد
اس دور جدید میں ایک بات تو تقریبا سبھوں میں کامن ہوتی جا رہی ہے وہ یہ کہ ”مجھ سے بڑا کوئی نہیں “،یہ بات اگر جنرلی طور پر جہلا میں ہوتی تو قلم اٹھانے کی نوبت ہی نہ آتی کہ وہ کہیں نہ کہیں معاشرتی طور پر معذور سمجھے جاتے ہیں کہ ان کے پاس علم نہیں ہوتا ہے لیکن ہماری پڑھی لکھی ڈگری ہولڈر  کمیونٹی ،جس کو قوم نے پوسٹروں ،پمفلیٹس،کتابوں کی تقریظات میں ”علامہ،غزالی ،راہ بر راہ شریعت  اور نہ جانے کیا کیا “بناد یتی ہے ،ایسے علامہ اور غزالی وراہ بر راہ شریعت لوگوں کو خود ہی نہیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے بنیادی نقطہ نظر کیا ہیں ،اہل سنت کے عقائد ونظریات کیا ہیں ؟ عجیب مضحکہ خیز بات اس وقت ہوتی ہے جب مروجہ پیشہ ور پیر  اپنے آپ کو مجدد بنانے کے چکر میں امام اہل سنت سیدنا سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو  بہ انداز حقارت”مولوی احمد رضا “کہہ کر مخاطب کرنے لگتے ہیں،ان پیران خوش گمان اور قائدین بے لگام کے چند کارنامے ملاحظہ فرمائیں ۔۱۔گزشتہ دنوں میں شہر پاکستان میں ایک پیر صاحب جلوہ بار ہوئے ،وہ اپنے مریدوں میں یوں مخاطب ہوتے تھے کہ”جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھ سے یوں ۔۔۔۔۔کہا،جیسے میرے چار خلیفہ یہاں ہیں اور چار آسمان پر ہیں “اس بے لگام پیر کو نکیل ڈالنے کے لیے کوئی غزالی،علامہ نظر نہ آئے ،اگر کسی نے منارہ پاکستان پر علی الاعلان چیلنج کرتے ہوئے اس کے باطل نظریات کا رد بلیغ کیا تو وہ علامہ جلالی تھے جنہوں نے اپنے منصب کاحق ادا کیا ،یوں ایک پیر صاحب نے تحریک لبیک میں جب علامہ خادم اور علامہ جلالی میں اختلاف ہوا تو فرمایاکہ ”ایک تنظیم دو خداؤں کو کیسے تسلیم کرسکتی ہے “اسٹیج سے لے کر سوشل میڈیا تک کوئی علامہ اور پیر وا بہ لب بھی نہ ہوئے لیکن رضا کے کچھار کا شیر نر چپی سادھ کر کہاں بیٹھتا ،موصوف محقق نے اس صریح کفریہ کلمہ کا  رد کرتے ہوئے حکم شرع سے آگاہ کیا ،تھوڑا سا اور دیکھیے ،ایک خطیب صاحب ہیں بہ گمان خویش وہ ایک خطیب اور محقق و مجدد بھی ہیں جن کے یہاں ”معاویہ“کا معنیٰ”بھونکنے والا کتا “ہوتا ہے ،یوں ہی کئی ایک عجائب آپ کو دیکھنے کو ملیں گے اور یہ صرف پاکستان کی ہی بات نہیں کم و بیش  ہمارے ہندوستان میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک نمونے دیکھنے کو ملیں گے،درجہ ثالثہ، رابعہ  تک تعلیم نہیں ہوتی ہے خود کو محقق علی الاطلاق سمجھتے ہیں ،گزشتہ دنوں ایک خطیب شیریں مقال ،شعلہ بیان نوجوان صاحب نے اپنی انوکھی تحقیق کا ایک باب پیش کیا کہ جس کو لوگ ”سائیں باباکہتے ہیں ،وہ مسلمان تھے ،ان کا نام عبد الرحمٰن تھا “اب بتائیے صاحب !ان کو کون بتائے گا کہ جس آدمی کا کفر مشہور ہو اس کے اسلام کی دلیل چاہیے ،دوسری نایاب تحقیق پیش فرمائی  کہ ”عید غدیر وہی منائے گا جو حلالی ہوگا “اس طرح سے اور بھی بہت ساری تحقیقات شیطانی کی ریشہ دونیاں پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ،جس پر چند مظلوم مفتیان کرام کے سوا کسی خانقاکے سجادہ نشین ،وپیران عظام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ سکے ،حیرت ہوئی کہ مواخذہ کرنے والے مفتیان کرام کو اس قدر زد وکوب کیا گیا کہ مت پوچھیے صاحب !شتر بے مہاری کے اس دور میں ایک ایسے مجمع الصفات ،ذی علم ،متدین ،امین ،بہ ہمت اور بلند فکر مفتی ،حق گو خطیب ،سیلم الطبع قائد کی ضرورت تھی جو پاکستان کی پیاسی گود میں  ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے جماعت اہل سنت کو ایک اور نعمت عنایت فرمائی ،اس بندے نے ہر محاذ پر ،پہرہ دیا ،خارجی،رافضی، شعیعی،لادینی اور اسلام مخالف طاقتوں کو دھول چٹا دیا ،فرضی پیروں ،جاہل خطیبوں ،نہ اہل مفتیوں اور دین کے دشمن صاحبان جبہ ودستار ،راہ بر کی شکل میں راہ زنوں کی اینٹ سے اینٹ بجا کر بے نقاب کیا  ، اسلام کی صحیح اور درست شبیہ کو پیش فرما کر فسطائی قوتوں کو بے دست وپا کر دیا ،صبح کو فتنہ اٹھتا اور شام ہوتے ہی موصوف اس کا رد بلیغ کرنے میں کام یاب ہوتے ہیں ،آپ نے بغض و عناد ،حسد وکینہ نہیں بلکہ شریعت کو معیار بنایا ،شرعی مجرم کے لیے بخشش کا دروازہ نہیں کھولا،اپنے ہوں یا غیر ،چھوٹا ہو یا بڑاسب کے ساتھ شرعی امور میں ایک ہی رویہ اپنایا ،جس سے اپنے بھی خفا ہوگیے اور بے گانے بھی نہ خوش ہوگئے لیکن پائے ثبات کو لغزش نہیں ،استقلال جرأت کو تزلزل نہیں ،لومۃ ولائم کا خوف نہیں ،حالیہ دنوں میں موصوف نے اظہار حق فرمایا اور غیر انبیا و ملک کے  لیےعقیدہ معصومیت کو چیلنج کیا ،جس سے دین کے دشمنوں کے پیٹ میں مروڑ پیدا ہوا،اور بغض جلالی میں اپنے بھی غیروں کے ساتھ ہوگیے اور بے دلیل گالیوں پر مشتمل مخالفت  کا ایک پینل چلا دیا جس کے روح رواں رافضی فکر کے پیر ،شعیعیت زدہ خطیب ،بے علم امام،روشن خیال اسکالر،عیاش مزاج محبین،ادب کے نام پر گستاخی کرنے کرنے والے گروہ سب کے سب ایک ہوکر اپنے اپنے حلقہ ارادت  میں اپنے مریدوں(جو بہ ظاہر مرید لیکن اصلا پیرہیں )سے ”المدد یا مرید “کا نعرہ بلند کیا ،اسلام مخالف حکومتی پالیسی کی در پر دہ ،جانے ان جانے  میں تعان کرتے رہے جس کے نتیجہ میں ملت اسلامیہ کا ترجمان ،مذہب و مسلک کا سچا علم بردار جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا پہنچا حالاں کہ اس مجاہد کا جرم ہی کیا تھا سوائے اس کے کہ اس بندہ بلند فکر نے جماعت اہل سنت کے عقاید ونظریات کی صحیح ترجمانی کی تھی ،رافضیت وخارجیت کا منہ توڑ جواب دیا تھا جس کا ترک مخالفین کے پاس نہیں تھا ،یقین جانیں ایسی ہستیاں جو امام احمد بن حنبل کے کردار کی یاد تازہ کردیں کہیں کہیں اور کبھی کبھی پیدا ہوتی ہیں ،اس دور قحط الرجالی میں موصوف جلالی کے ردو وانفعالات یقینا قابل تقلید ولائق صد ستائش ہے،حکومت وقت نے آپ کے مسئلہ میں انتہائی غیر ذمہ  دارانہ کردار اد کیا ہے جس سے حکومت پاکستان کی اسلام دشمنی صاف نظر آتی ہے ،حکومت کو چاہیے کہ بے قصور جلالی کو جلد از جلد رہاکرے اور ان پر لگائے گیے الزمات سے خود بھی شرمندگی کا اظہار کرے اور دو نمبر پیر وں کو بھی معافی تلافی کرنے کا حکم نامہ جاری کرے ،ہم اسی انتظار میں ہیں کہ حکومت جلد ہی یہ قدم اٹھائے گی ۔
مضمون نگار:تحریک تحفظ عقاید کے نگراں ہیں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا