ہمارے اسلاف کیسے عید مناتے تھے

0
0

عیدالاضحٰی : مقصوداحمدضیائی
انسانی تہذیب و روایات کے تسلسل کا اہم جز مسرت و خوشی کی گھڑیا ں ہیں مثلا ولادت عقیقہ نکاح اور دیگر تقریبات کے موقعوں پر ہم ان خوابیدہ جذبات کی آبیاری کرتے ہیں جو ہمارے دلوں میں پنہاں ہوتی ہیں مسرت کے یہ لمحات ہمارے سماج کو پیار ومحبت کے رشتے میں پرونے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں معاشرتی زندگی میں تہواروں کی بھی ایک مسلمہ حیثیت رہتی ہے ان تہواروں سے جسم میں نشاط و تازگی کی لہر دوڈ جاتی ہے ایک کمزور انسان بھی اپنے اندر ایک خاص قسم کی طاقت اور خوشی محسوس کرتا ہے ان تہواروں میں ہم عید الاضحٰی کو کیسے بھلا سکتے ہیں جو اپنے دامن میں بے شمار مسرتوں کی سوغات لاتا ہےکل خوشی کا دن ہے اور اس خوشی کے مو قع پر یہ سمجھنے کی کو شش کریں کے یہ خوشی کس چیز کی ہے ؟ اور اسے ہمارے اسلاف نےکس طری سے منایا ؟ اور آج ہماری عید کس طرح سے ہوتی ہے ؟ ذیل میں اس حوالے سے اختصار کیساتھ چند اہم واقعات ذکر کیے جاتے ہیں
آنکھ ڈبڈباتی ہے ان یتیم بچوں پر
عید پر نئے کپڑے جن سے روٹھ جاتے ہیں
محسن انسانیت پیغمبراسلام جناب محمد رسول اللہﷺ نے عید کے روز ایک بچے کو اس حالت میں دیکھا کہ خوشیاں اس کے چہرے سے کافور ہیں اور مایوس بیٹھا ہوا ہے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یتیم ہے اور ماں نے دوسرا نکاح کر لیا ہے بایں وجہ سرپرستی سے محروم ہوگیا ہے ظاہر ہے اس صورت میں اس یتیم اور بے سہارا بچے کے لیے کیا خوشی ہوسکتی ہے اور یوم عید اس یتیم بچے کے لئے کیا بہاریں لاسکتا ہے پیغمبراسلام اس یتیم بچے کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس لائے اور فرمایا کہ اس بچے کو نہلاو اور اچھے کپڑے پہناو خوشبو لگاو چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس یتیم بچے کی خوشیاں لوٹ آئیں اور وہ یتیم بچہ فرط جذبات میں اپنے ہمعصر بچوں سے کہنے لگا کہ عید تو میری ہی ہے تم میں ہے کوئی جو میرے جیسا ہو کہ جس کو محمد رسول اللہﷺ جیسا مشفق باپ اور حسن و حسین جیسے بھائی فاطمہ و رقیہ جیسی بہنیں اور امہات المومنین کی صورت میں مائیں مل گئیں ہوں درخت کے پتوں بارش کی بوندوں اور ریت کے ذروں سے کہیں زیادہ سلام ہو اس آقا ﷺ پر کہ جو رہتی دنیا تک کے لیے ایسا کردار چھوڑ گئے کہ جو تاریخ انسانی میں اپنی مثال آپ ہے امام عدل و حریت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بعض لوگوں نے مبارک باد پیش کی کہ آج عید ہے تو آپ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں فرمایا کہ آج عید کا دن ہے ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہیں لیکن میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر آج کے دن کوئی شخص بھوکا پیاسا اور ننگا رہا تو آنے والے کل خالق کائنات کے سامنے مجھ سے سوال کر لیا گیا تو میں کیا جواب دوں گا ؟ حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ کے بچوں نے اپنی والدہ سے عید کے لیے نئے کپڑوں کی فرمائش کی والدہ محترمہ عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ کی خدمت میں پہنچیں آپ مناجات میں مشغول تھے اسی دوران بیہوش ہوگئے ہوش آنے پر پوچھا کیسے آنا ہوا ؟ بتایا کہ بچوں نے عید پر نئے کپڑوں کی فرمائش کی ہے حضرت نے بیت المال کے خزانچی کو مکتوب لکھا خزانچی کی طرف سے جواب آیا کہ امیرالمومنین آپ کو ایک ماہ تک زندہ رہنے کا یقین ہے ؟ امیرالمومنین نے خزانچی کا جواب پڑھا تو آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور فرمایا کہ ہاں ! موت کا کوئی بھروسہ نہیں ہے کسی کو نہیں معلوم کون کب تک زندہ رہے گا غرض کہ وہی خلیفتہ المسلمین عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ کہ جنہوں نے ہزاروں گھروں کو خوشیاں واپس دلائیں تھیں ہزاروں یتیموں کی کفالت کا انتظام فرمایا تھا وغیرہ وغیرہ لیکن خود آج اپنے بچوں کے ساتھ پرانے کپڑوں میں عید ادا فرمائی حضرت شبلی علیہ الرحمہ کو کسی نے عید کے روز نالہ کرتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ آج تو عید ہے خوشی کا دن ہے اور آپ نالہ کر رہے ہیں فرمایا کہ میں ان لوگوں پر نالہ کر رہا ہوں کہ جنہوں نے عید کی خوشی میں وعید کو فراموش کر دیا ہے حضرت سری سقطی علیہ الرحمہ کی نظر عیدگاہ جاتے ہوئے ایک مسکین بچے پر پڑی جو ہر قسم کی خوشی سے عاری تھا غربت و افلاس کا مجسم پیکر تھا اس بچے کو دیکھتے ہی حضرت سری سقطی علیہ الرحمہ کا دل بھر آیا اور فرمایا کہ آج تو عید کا دن ہے مگر بچے نے عرض کیا کہ میرے باپ کاسایہ میرے سر سے اٹھ گیا ہے چنانچہ حضرت سری سقطی علیہ الرحمہ اس بچے کو لے کر ایک باغ میں چلے گئے اور گٹھلیاں چننی شروع کردیں لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت نماز عید کا وقت ہوچکا ہے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے نماز عید کا متبادل بھی موجود ہے لیکن جو کام میں اس وقت کر رہا ہوں وہ اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے چنانچہ وہ گٹھلیاں بازار میں فروخت کرکے اس بچے کے لئے کپڑے مہیا فرمائے خدائے تعالٰی ہمیں بھی اپنے اسلاف سے عملی وابستگی عطا فرمائے وبالاختصار مذہب اسلام اس بات کی قطعا اجازت نہیں دیتا کہ ہم خوشی میں مست ہو کر برائیوں میں ڈوب جائیں اور رنگ رلیا ں منائیں ہماری تہذیب و تمدن اور ہمارے رسم و رواج اس کی بالکل اجازت نہیں دیتے پس عید کا حاصل ذکرِ الہی خشیت الہی خدمت خلق رُو ح اجتما عیت دنیا میں رہ کر آخرت کو نہ بھو لنا اور زندوں کے ساتھ ہی اموات سے بھی رشتہ جوڑے رکھنا اور اُن میں سے ہر چیز کی رُوح اور معیارِ ایمان کو قرار دینا نہ کہ ظاہر داری اور دنیا سازی تاکہ خلق خدا کیساتھ خالق کائنات سے وابستگی اصلِ اصو ل ثابت ہو تی رہے سیدالطائفہ حاجی امداداللہ مہاجر مکی نوراللہ مرقدہ کے اس ناصحانہ اور عارفانہ شعر میں سمجھنے والوں کے لیے بہت بڑا سبق ہے فرمایا کہ
عیدگاہ ماہ غریباں کوئے تو
انبساط عید دیدن روئے تو
الحمد للہ ! چند روز بعد عیدالاضحی آرہی ہے تمام اہل ایمان کو دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کو دارَین کی مَسَرَّتیں اور شادکامیاں نصیب فرمائے حدیثِ پاک میں ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ” لوگوں میں بہتر و ہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے “ (کنز العمال،ج 8 ،ص 54 ، جزء : 16، حدیث : 44147) عید الاضحی جسے عید قرباں بھی کہا جاتا ہے اہل ایمان کے لیے یہ مسرت کا دن ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے ایک عظیم ایثار کی یاد آوری میں اہل ایمان قربانی دے کر اپنی ملت کی بنیاد کو مضبوط کرتے ہیں اس بار یہ دوسری عید ہے جو لاک ڈاون کے دورانیہ میں آرہی ہے لاک ڈاون کی وجہ سے یوں تو ہر کوئی متاثر ہوا ہے تاہم یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور پیشہ افراد بطور خاص متاثر ہوئے ہیں آپ اگر صاحب حیثیت ہیں یا دوسروں کی مدد کی کچھ بھی طاقت رکھتے ہیں تو اس موقع پر ایسے لوگوں کا ضرور خیال رکھیں راشن ، لباس اور نقد وغیرہ سے ان کی مدد کریں مساجد مدارس علماء و طلبہ کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں بعض لوگ خودار ہوتے ہیں وہ سخت مجبوری اور اشد ضرورت کے وقت بھی اہل و عیال کے کھانے پہننے اور دوائی کے لیے ہاتھ نہیں پھیلاتے اور نہ ہی اپنی پریشانی کا کسی اور کو احساس ہونے دیتے ہیں آپ ایسے لوگوں کی اس طرح مدد کریں کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو بطور خاص اپنے رشتہ داروں کو ہرگز فراموش نہ کریں بعض وہ لوگ جو گھریلو معاملات کی وجہ سے ایک دوسرے سے ناراض ہوتے ہیں بایں وجہ خوشی غمی میں بھی دور دور رہتے ہیں ایسا ہر گزنہیں ہونا چاہیے عید جیسے خوشی کے موقعوں پر مخفی طریقہ سے ان کا بھی خیال رکھا جائے غرض کہ جس طریقے سے بھی ممکن ہو سماج کے کمزور لوگوں کا تعاون کریں جو کہ اہل ایمان کا بحیثیت مومنون بنیادی دینی سماجی اور ملی فریضہ بھی ہے غرض کہ عید ضرور منائیں لیکن بیچارے اور مجبوروں ناداروں کمزوروں اور پریشان حال لوگوں کو ہر گز نہ بھولیں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا