حج : عبادت اور وحدت فکر و عمل کا مظہر

0
0

قرطاس و قلم : مقصوداحمدضیائی
مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ اسلامیان عالم کے دلوں کی دھڑکنوں کا مرکز و محور ہیں ، اس خطہ بے نظیر کی تاریخ و تہذیب کو پورے عالم اسلام کی نمائندگی کا شرف حاصل ہے ، جب سے خالق انسان نے اس وادئ غیر ذی زرع کو اپنی بستی فرمایا اور اپنے پیارے و عاشق زار حضرت جد الانبیاء ابراہیم علیہ السلام کے زبانی ہمیشہ کے لیے تمام عشاق کے نام یہ پیغام بھیجا ، کہ یہ خطہ ارضی عاشقانہ ہجوم کا ہمیشہ بازار بنے ، خدا معلوم کتنے خوش نصیبان ازال اس جلوہ گاہ کی تجلیات کے معمورے میں آئے اور چلے گئے طور کا جلوہ دنیا نے تو ایک بار ہی دیکھا ہے ، مگر اس جلوہ نمائی کی داستان اب تک دہرائی جا رہی ہے ، اور ہمیشہ دہرائی جاتی رہے گی ، اور یہاں تو یہ جلوہ اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ ہر سال نظر آتا ہے ، حج بیت اللہ سے متعلق اہل علم نے اہم حقائق اور داستانیں رقم کی ہیں کہ یہ سفر عشق و مستی کا سفر ہے ، جیسے کوئی محب اپنے محبوب کو ملنے جاتا ہے ، تو دل میں بڑی امنگیں ہوتی ہیں ، تو مومن بھی اسی شوق و جذبہ کے ساتھ یہ سفر کرتا ہے ، خدائے قدوس کے گھر کی حاضری کے لیے آنے والا ہر آدمی اپنی کیفیت کے ساتھ حاضر ہوتا ہے ، اسی لیے احرام باندھنا ضروری قرار دیا گیا ، کہ جب تم اپنے محبوب سے ملنے کے لیے آ رہے ہو تمہیں دنیا کی زیب و زینت سے کیا سروکار ، یہ امیری اور غریبی کا فرق سب ختم کرو تم سب خدائے وحدہ لاشریک کے بندے ہو
ایک ہی صف میں کھڑے ہیں محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز
حاضرئ مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ مسلمان کے لیے جہاں گوناں گوں برکتوں کا ذریعہ ہے ، تو وہاں حیرت انگیز نعمتوں کا وسیلہ بھی ہے ، وجہ ظاہر ہے کہ خدائے لم یزل نے خانہ کعبہ کو اہل ایمان کی اجتماعی زندگی کے قیام کا ذریعہ اور انسانوں کے باقی رہنے کا مدار ٹھہرایا ہے ، اس حقیقت پر ابھی تک کم لوگوں کی نگاہ گئی ہے ، کہ نظام عالم خانہ کعبہ اور اس کی دعوت و مقام سے وابستہ ہے ، اس کو ہماری ظاہری آنکھیں دیکھ نہیں رہی ہیں ، لیکن اہل بصیرت سمجھتے ہیں ، جس طرح پہاڑوں کا وجود ملک اور زمین میں استقرار و توازن پیدا کرتا ہے ، اسی طریقے سے اس سے بالا تر ایک نظام ہے ، اور وہ نظام وابستہ ہے ، خانہ کعبہ سے ، جب تک یہ خانہ خدا موجود ہے ، اور اس کا وہ پیغام زندہ ہے ، اس وقت تک گویا نظام عالم قائم ہے ، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے کہ حق تعالٰی نے خانہ کعبہ کو عزت و عصمت کی جگہ بنائی ، قیاما للناس لوگوں کی زندگی کا دار و مدار اس کے اندر لوگوں کی معیشت دنیا اور نسل انسانی کو برقرار رکھنے کا راز ہے ، ( سورہ مائدہ آیت نمبر ۹۷ ) حرم کعبہ کیا ہے ؟ تجلیات ربانی کا مظہر جلیل اہل ایمان کے احترام و تقدیس کا دنیا میں سب سے بڑا مرکز ملت اسلامیہ کی وحدت و اجتماعیت کا نشان عالی شان جہاں پہنچ کر ایسا محسوس ہوتا ہے ، کہ گویا اس نے بار گاہ ربانی کی چوکھٹ پر اپنی پیشانی رکھ دی ہے ، اور اس کے گنہ گار ہاتھوں میں کعبہ کا غلاف نہیں بلکہ خدائے رحمن و رحیم کا دامن رحمت آگیا ہے ، جہاں عاصی و نافرمان پیشانیوں میں بھی سجدے مچلنے لگتے ہیں ، اور جہاں کئی زبانیں بھی خدائے قدوس سے ہمکلام ہونا چاہتی ہیں ، مکہ مکرمہ کے قریب ہی شہر مقدس مدینہ منورہ ہے ، جس کے ذرہ ذرہ سے محبت کی بوئے شمیم اٹھتی ہے ، اور ہر مسلمان کے مشام جاں کا عطر بیز کر دیتی ہے ، جس کا تصور بھی قلب کے لیے سامان سکون ہے ، اور جس کی گرد راہ چشم محبت کا سرمہ اور مریض عشق کے لیے اکسیر ہے ، اسی کی آغوش میں وہ پاک اور عظیم ہستی آسودہ خواب ہے ، جس کی غلامی کا طوق بادشاہوں کے لیے تمغہ افتخار اور عزت و وقار ہے ، پھر اسی شہر مقدس میں شمع نبوت کے ہزاروں پرونے آرام فرما ہیں ، یہاں کی فضاوں میں بھی جانثاران اسلام اور فدا کاران پیغمبراسلام کے لہو کی خوشبو رچی بسی ہے ، کتنے خوش بخت اور سعادت نصیب ہیں وہ لوگ ، کہ جنہیں اس دیار مقدس میں حاضری کا اور اس کوچہ محبت میں دیدہ دل بچھانے کا شرف حاصل ہو کہ اگر انسان یہاں سر کے بل چل کر بھی جائے تب بھی شاید زمین کے تقدس کا حق ادا نہ ہو ، جہاں امام مالک علیہ الرحمہ پوری زندگی رہنے کے باوجود ہمیشہ برہنہ پا چلتے رہے ، اور چپل پہننا گوارہ نہ کیا ، اس سعادت کا حال ان عاشقان سے پوچھنا چاہیئے ، جن کے سینوں میں تمنائیں کروٹ لیتی ہیں ، اور بعض دفع یہ آرزو اور اشتیاق موتی بن کر دیدہ دل سے دیدہ چشم تک پہنچ جاتا ہے ، لیکن ان کے خواب تشنہ تعبیر رہ جاتے ہیں ، شاید ان کی یہ چاہت اور آرزو ہی ان کے حق میں حرمین الشریفین کی حاضری کا بدل بن جائے ، کہ لذت ہجر کا مقام لذت وصال سے بھی سوا ہے ، لیکن جیسے زیارت حرمین الشریفین کی سعادت , , سعادت عظمی ہے ، اسی طرح اسی قدر اس کی رعایت اور پاس و لحاظ بھی ضروری ہے ، جو نعمت جس قدر بڑی ہوتی ہے ، اس کی ناقدری اور مرتبہ شناسی اسی قدر نقصان دہ بھی ہوتی ہے ، اس لیے خوش نصیبان ازل کو رب کریم حاضری مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کی سعادت بخشیں ، ضروری ہے ، کہ وہ ان آداب کی رعایت رکھیں ، جو اس سفر سعادت اور سفرشوق و محبت کے لیے مطلوب ہیں اور یہی ان کا اصل توشہ ہے وبالاختصار حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رح فرماتے ہیں کہ حج مرکز اسلام میں امت اسلامیہ کی سالانہ پیشی اور حاضری ہے تاکہ اس کا عمومی جائزہ لیا جائے اور اس کے متعلق اطمینان حاصل کیا جائے کہ وہ مسلک ابراہیمی و محمدی پر چل رہی ہے یا نہیں آہ ! آج اس مقدس فریضہ کی ادائیگی ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب کہ کرونا وائرس نامی مہلک مرض نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے بایں وجہ پوری دنیا پریشان حال ہے بی بی سی لندن کے مطابق حکومت سعودی عرب نے اس سال بیرون ملک سے آنے والے حاجیوں کی مکہ مکرمہ آمد پر مکمل طور پر پابندی عائد کی ہے اس سال صرف سعودی عرب میں پہلے سے موجود غیر ملکی حاجیوں کو حج کا فریضہ ادا کرنے کی اجازت دی گئی ہے ہر سال بیس لاکھ سے زیادہ افراد حج کے موقع پر سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں جمع ہوا کرتے تھے جس کے بعد وہ مدینہ منورہ بھی جاتے تھے اس سال سعودی حکام نے کورونا وائرس کی وباء کے پیش نظر صرف دس ہزار افراد کو حج ادا کرنے کی اجازت دی ہے سعودی حکام اس قدر محتاط ہیں کہ انھوں نے عازمین حج کے لیے حج سے پہلے اور حج کے بعد چودہ دن قرنطینہ میں گزارنے کی شرط بھی عائد کر دی ہے طواف کعبہ کے دوران لائن کی پابندی بھی کرنے پڑے گی تمام عازمین حج کے لیے مناسک حج کی ادائیگی کے دوران منہ پر ماسک پہننے کو بھی لازمی قرار دے دیا گیا ہے حج میں طواف کے دوران تمام حاجیوں کو ایک دوسرے سے کم از کم دو میٹر کے فاصلے پر رہنا ہو گا جس کے لیے صحن کعبہ میں لائن اور نشانات لگا دیئے گئے ہیں نماز کے دوران بھی باہم فاصلوں کو برقرار رکھنا ہو گا حاجیوں کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ صحن کعبہ میں طواف کرتے ہوئے اپنی اپنی قطاروں میں ہی رہیں نماز کے دوران بھی انہیں باہمی فاصلوں کو برقرار رکھنا ہوگا یہ پہلا موقع ہے جب حاجیوں کی تعداد کو اس قدر محدود کر دیا گیا ہو دعا ہے حق تعالی اس مقدس فریضے کے صدقے میں اس مہلک مرض کو دفع کرے اور کائنات انسانی کو اس سے مکمل نجات عطا فرمائے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا