محمد ریاض ملک اڑائیوی منڈی پونچھ جموں وکشمیر
9858641906
صدیاں گزر گئی لیکن اب تک ایسی عیدین نہیں دیکھی ہونگی ۔جن میں جمع ہونے کا خوف ہو ۔پہلے تو عید میں اجتماعات میں ان گنت لوگ شریک ہوتے تھے۔ لیکن اب گنے چنے چند ہی لوگ وہ بھی مسجد عید گاہ یادرسگاہ کی کمیٹی کے ہی لوگ انتظامیہ کی طے شدہ حد تک پورے ہوجاتے ہیں ۔ باقی لوگ کہیں محلہ دیہات یاپھر مشکل سے گاوں کی مساجد میں فرض ادائیگی کرلیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہےکہ اللہ اور کرونا کے خوف سے کم انتظامیہ کے خوف کے مارے اکثریت نمازوں کو بھی چھوڑ بیٹھی ہے۔اب یہ ایک معمول بنایاتھاکہ کچھ لوگ سال بھر میں عید پر ہی عید گاہ یا مسجد میں اپنامسلمان ہونے کا ثبوت پیش کرنے پہونچ جاتے تھے۔ کچھ ہفتے میں جمعہ کی نماز پر ہی اپنا نام بنوالیتے تھے۔اور کچھ فجر کی نماز کو مخصوص جبکہ کچھ فرصت کی نماز کے شوقین ہوتے ہیں ۔جب موقع ملا نماز کی نیت باندھ کر کھڑے ہوگئے۔اور وقت نہ ملا تو کوئی پرواہ نہیں۔اور بعض تو ہم میں سے نام سے ہی پہچان رکھتے ہیں۔اور موت کے بعد میت کی تابوت میں لیٹ کر مرحوم مسلمان تھا۔ بس اتنا نمونہ چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ حالات ہیں ہم مکمل و کامل مذہب کے ماننے والوں کی لیکن ایسا ہی نہیں کہ سب کے سب ایک جیسے ہیں ۔ایسا بھی ہر گز نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر کوئی بھی خالق کائینات پر کامل یقین والا نہ ہوتا تو یہ دنیا کا نظام دھرم بھرم ہونے میں پل نہ لگتا۔ابھی کچھ ایسے افراد روے زمیں پر موجود ہیں جنہوں نے اپنا رابطہ خالق کائینات سے جوڑاہے۔ ہر وقت ذکر الہی اور فکر الہی میں مشغول ہیں۔ عید نام ہی خوشی کا ہے۔جس دن تمام مسلمان ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد کے ساتھ ساتھ غریبوں میں بھی خوشیاں بانٹتے ہیں ۔ عید خوشی کا نام ہے اور قربانی جذبہ ایثار ہے۔ جس کا ثبوت ہر مسلمان عید الاضحی کے دن پیش کرتاہے۔اور لاکھوں خوش نصیب افراد اس دن مقدس شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں جاکر فریضہ حج ادا کرتے ہیں ۔بیت اللہ کا طواف اور زیارت روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فیضیاب ہوتے ہیں ۔فریضہ حج بھی مکمل قربانی پر ہوتاہے۔ عبداللہ نامی شخص جن کی عمر پچاس سال سے تجاوز کرچکی ہے۔اور اب ضعیف العمری میں ہے۔کمزوری بھی اس قدر کہ دوسروں کے سہارا کا ہر گھڑی محتاج ہوچکا ہے۔اس نے بتایاکہ عید بلاشبہ ایک متبرک تہوار ہے۔جس دن ہمیں دائیرہ اسلام رہ کر خوشیاں منانے اور قربانی کرنے کا حکم بھی ہے۔ قربانی ہم اپنی طرف سے اپنے مرحومین کی طرف سے بھی دے سکتے ہیں ۔ ایسا اسلام کی تاریخ میں سالہا سال سے رائج العمل ہے۔جہاں عید کی خوشیاں امیر مناتے ہیں وہی غریبوں کی عید کا بھی خیال رکھنا ہوتاہے۔ امیر قربانی کرکے جذبہ ایثار کا جہاں ثبوت دیتے ہیں ۔وہی قربانی کا گوشت بھی غریبوں قرابتداروں پڑوسیوں و جملہ مستحقین میں تقسیم کرکے ایثار و ہمدردی کا ثبوت دیاجاتاہے۔تاکہ اس دن غریب کے گھر کا سالن بھی گوشت کا بنے اور ایک دن تو دال سبزی کے بجاے گوشت سے اپنے اہل واعیال کا دل خوش ہوجاے۔ سال 2019 /20 میں جہاں زندگی کی ساری خوشیاں پھیکی ہیں ۔زندگی کی بہاروں میں خزاں کے باد منڈلا رہے ہیں ۔وہی اس سال عید الاضحی کی خوشیاں بھی کچھ پھیکی اور کچھ قدغنوں کی نظر ہونے کے در پہ ہیں ۔یہ سب کچھ ایک طرف تو دوسری جانب مسلم قوم کو اہل اقتدار ہر طرح سے زیر کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں ۔سخت مصائیب کے باوجود بھی تمام مکتبہ فکر کے علماء کرام کے حکم کے مطابق سب کچھ سادگی اور انفرادیت سے عید الاضحی منانے پر اپنی رضامندی ظاہر کی ہے۔تاکہ دنیا بھر کے ساتھ ساتھ ہمارے وطن عزیز میں جو کرونا وائرس نام کی وباء دن بدن مزید بہانک رخ اختیار کرتی جارہی ہے ۔اس مہلک بیماری سے نجات پائی جاسکے۔جس وباء کے چلتے ہوے ابھی قریب ڈیڑ سال میں کوئی ویکسین بھی تیار نہیں ہوپائی ہے۔عالمی ادارہ صحت WHOودیگر ماہرین نفسیات وماہرین امراض نے صرف اس وباء سے بچاو کے لئے احتیات کو ہی مفید قرار دیاہے۔پہلے اقتدار اور اب اس بیماری کی آڑ میں ہماری شرافت کو کمزوری سے تعبیر کرکے ہر طرح سے پریشان کیا جارہاہے۔اور اہل حوس مسلمانوں کے جذبات کو لگاتار آتش فشاں بنانے کی انتھک کوشش کررہے ہیں ۔جو ملک کے لئے کسی بھی صورت فائیدہ مند نہیں ہے۔ کرونا وائرس کے پیش نظر این آر سی ایم پی آر وغیرہ کو منظوری دے کر گھر کے مکینوں سے غیروں کا سا سلوک کیا ہے۔ جموں وکشمیر میں ڈومیسائیل قانون نافذ کرکے جنت بینظیر کو آتش کدہ بنانے کی بنیاد ڈالدی ہے۔جموں کشمیر کے عوام کو ہمیشہ کے لئے غلامی کی زنجیر میں جکڑ دیاہے۔گاے رکشا کے نام پر کتنے گھر لٹے مسلمان نام کی وجہ سے کتنے سر کٹے مسجدوں کی بے حرمتیاں ہوئیں ۔ اسلامی احکام میں مداخلت کرکے طلاق ثلاثہ پر غوغہ مچا کر بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ۔غرض سنکڑوں حربے استعمال کرکے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا گیا۔ ہمارے ملک عزیز کے قانون نے جو اپنی مذہبی آزادی تعلیم کے حقوق آذادی کے ساتھ بات کرنے کے حقوق آذاد زرایع ابلاغ کو جو حقوق دئے تھے ۔وہ صلب ہوتے نظر ارہے ہیں ۔سب کچھ برداشت کیا۔اب حد یہاں تک پہونچ چکی ہےکہ ہمارے پیارے جمہوری وطن عزیز ہندوستان میں نمازوں عیدین کے اجتماع اور قربانی پر بھی پابندیوں کی زہر آلودہ بیانات دئے جارہے ہیں ۔کہیں بیٹوں کی قربانی تو کہیں آن لائین جانوروں کی خریداری کی کا مسئلہ بناکر پیش کیا جارہاہے۔ اب سوال یہ ہےکہ اب مذہبی آزادی کہاہے؟ کیا نمازوں پر پابندی جمعہ اور عید پر پابندیاں ہمیں کس بات کا اشارہ کرتی ہیں؟ یہ سب کچھ اب اکثریت کے زیر اثر ہوتانظر آرہاہے۔ایسے میں ہمیں کسی پر کامل بھروسہ کرکے شرک کی سعی کرنے سے گریز کرناہوگا ۔ اب کی عید کو بھی سادگی اور انفرادیت سے ہی منانے کا اہتمام کیجئے ۔عہددران آفیسران نمائیندگان یا پھر صاحب سروت عید کے روز اپنے غریب مسلمانوں کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کر لیجئے ۔ زیادہ نہ بھی تو ذرا کچھ دیر تم بھی سادگی میں گزار کر اللہ رب کریم کی فضاء کی جستجو کیجے۔ عید گاہ جامع مسجد جانے کی تو اس قدر آجاتا بھی نہیں پر پھر عید تو ہوگی ۔جس طرح بھی ہو ۔ہم نے سب کچھ سرکار اور حکومتوں کی رضا کی خاطر سرتسلیم خم کر لیاہے۔ آئے مالک دوجہاں کی رضا کے لئے بھی ہم کچھ وقت نکال کر اپنی عید کے ساتھ ساتھ غریبوں کی عید پر خوشیوں کا سبب بن جائیں ۔دونوں عالم میں سرخروئی نصیب ہوگی ۔اللہ رب کریم ہم سب کو عید کی حقیقی خوشیاں نصیب فرمائے ۔جملہ مسلمانوں کی قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے۔امین