پلہالن: نئی منزلوں کی طرف سرگرداں

0
0

سرینگر کے شمال میں بتیس کلو میٹر کے فاصلے پر بارہمولہ جانے والی سڑک کے دائیں طرف پلہالن واقع ہے۔
38 ہزار نفوس پر مشتمل پلہالن چھ پنچائت حلقوں پر مشتمل ہیں جسے سن2004میں مفتی محمد سعید کے وقت ”ماڈل ولیج“ کا درجہ دیا گیا۔گاؤں والوں کے مطابق ماڈل ولیج کے نام پر گاؤں کے باہر ایک عدد بورڈ لگایا گیا اور کچھ باہری سڑکوں کی مرمت کی گئی اور بس کچھ نہیں! البتہ 2010میں مژھل میں مبینہ طور پر فوج کے ہاتھوں ہلاک ہوئے نوجوانوں پرجب سارا کشمیر بپھر گیاتو پلہالن اس ایجی ٹیشن کا مرکز بن گیا اور یہ علاقہ سرخیوں میں آگیا۔ پلہالن میں 45دنوں تک کرفیو نافذ رہا۔یہ کشمیر میں کسی علاقے میں اْس وقت تک سب سے زیادہ دیر تک نافذکرفیو کا ریکارڈ ہے۔اس دوران روز پتھراؤ ہوتا تھا اور اْس کا جواب سکیورٹی فورسز آنسو گیس۔پیلٹ اور فائرنگ سے دیتی۔حالات بے حد خراب تھے۔

کرفیو ختم ہونے کے بعد جو بھی رپورٹر اس علاقے میں آیا ۔اْس نے وہاں جو کچھ دیکھا وہ بے حد ڈراؤنا تھا کوئی بھی چیز صحیح سلامت نہیں تھی۔گاؤں کے بیشتر نوجوان پیلٹ چھروں کا شکار ہوئے تھے۔بزرگ پریشانی میں مبتلا تھے حالات بد سے بد تر ہورہے تھے لوگوں میں بے انتہا غصہ تھا۔جو کبھی بھی پھٹ سکتا تھا۔
جلد ہی یہ موقع بھی ملا جب 2016میں برہان وانی کی موت کے بعد سارا کشمیر جل اٹھا۔برہان وانی کشمیر کی ملیٹنسی کا پوسٹر بوائے تھا۔ تب سے بھی پانچ سال بیت چکے ہیں۔ان سالوں میں پلہالن میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔آج پلہالن کی تصویر مختلف رنگوں سے مزین ہیں اور تب سے جہلم سے کافی پانی بہہ چکا ہے۔سڑک کے ایک طرف کھیل کا میدان اس بات کا گواہ ہے کہ یہاں تبدیلی کی بہار آچکی ہے۔ سات سالہ ننھا ’حیان پرویز‘روز یہاں اپنے والد جوکہ مقامی اسکول میں اْستاد ہے کے ساتھ کرکٹ کی پریکٹس کے لئے آتے ہیں۔

اور جو بھی حیان کو کھیلتے دیکھتا ہے وہ اْس کے فٹ ورک،شارٹ سلیکشن اور انداز سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے اور جب حیان خود اعتمادی سے کہتا ہے کہ اْسے بڑے ہو کر کرکٹر بننا ہے اور پلہالن کا نام روشن کرنا ہے تو امید کی کرن نظر آتی ہے۔ میدان کی دوسری طرف نوجوانوں کا ایک ٹولہ فٹ بال کھیلنے میں مصروف نظر آتا ہے جبکہ کچھ فاصلے پر کئی بیڈمنٹن کے کورٹ میں شارٹ کھیلنے کی مشق بہم پہونچارہے ہیں۔
اس میدان کی ساتھ والی سڑک کے کنارے لوگ اپنے اپنے کاموں میں مگن ہیں کوئی دھان کے کھیتوں میں کام کر رہا ہے۔تو کوئی سبزیوں کو پانی فراہم کررہا ہے کوئی ریڈی پر کھاد کھیتوں پر پہونچا رہا ہے دکاندار گراہک کے انتظار میں ہے۔ غرض گہماگہمی کا ماحول ہے جو کہ ایک نارمل گاؤں میں نظر آتا ہے ۔لیکن باہر سے نظر آنے والی خوبصورت تصویر کے پیچھے بہت کچھ ہے ستائیس سالہ پوسٹ گریجوٹ اور upscامتحان کی تیاری کررہے اشفاق احمد کہتے ہیں انہوں نے اپنی آنکھوں سے پلہالن کی بدلتی تصویریں دیکھی ہیں۔اْن کے مطابق پلہالن نے پچھلے دس سالوں میں بے انتہا مشکلات کا سامنا کیا۔

لیکن ہمیں مثبت سوچ کے ساتھ علاقے کے لوگوں کی ترقی کے لئے کام کرنا چاہئے۔یہاں پر نوجوانوں کو رہنمائی کی اشد ضرورت ہے اور بہتر زندگی کے حصول کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئے۔اشفاق احمد سلجھے خیالات کے مالک نوجوان ہے وہ نوجوانوں کو منشیات کی لعنت سے بچانا چاہتے ہے اْن کے الفاظ میں ”ہم ایک نسل کو 1990 میں ملیٹنسی کی وجہ سے کھو چکے ہیں اب ہم ایک اور پود کو کھونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
اْن کے مطابق نوجوانوں کو کریئر،سپورٹس،پڑھائی اور کاروبار پر توجہ دینی چاہیے۔ اس کے باوجود کہ پلہالن بارہمولہ کا سب سے بڑا گاؤں ہے۔ اس کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں ہے علاقہ میں سکیورٹی کے شعبے میں کام کرنے والے ایک افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ یہ علاقہ آج بھی ترقی سے کوسوں دور ہے اور مقامی انتظامیہ نے اسے نظر انداز کردیا۔ جس سے یہاں کے لوگ حکومت سے نااْمید ہوگئے اس نااْمیدی کا فائدہ علیدگی پسندوں نے اْٹھایا۔جگ ظاہر ہے کہ 1990 سے پہلے ہی اس علاقے میں جماعت اسلامی کا کافی اثررسوخ رہا ہے ۔سید صلاح الدین اور مقامی کارکن احسن ڈار نے جماعت اسلامی کے افکار اس علاقے میں پھیلایئے اور جب صلاح الدین عسکریت پسند بن کر پاکستانی انتظام والے کشمیر چلے گئے تب اْن کے نائب احسن ڈار نے پلہالن سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھی اس کے نتیجے میں یہاں پر جماعت اسلامی کے خیالات کافی مقبول ہوئے۔

ایک طبقہ میں ابھی بھی اْن کے کاز سے ہمدردی ہے۔ یہ انہی خیالات کا نتیجہ تھا کی نوجواں روز سڑکوں پر نکل کر ’لا اینڈ آرڈر‘ کے حالات بگاڑتے ہیں۔ پلہالن ذراعت کے لحاظ سے بہتر حالت میں ہے ۔دھان کی کھیتی کے ساتھ ساتھ سبزیوں کی کاشت بھی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے باغات سے علاقے کو مالی طور پر کافی فائدہ ملتا ہے پلہالن میں آبادی کا چالیس فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان میں سات سو گریجوٹ بھی شامل ہیں۔لوگوں کو گِلا ہے کہ انتظامیہ اْن کی مدد کے لئے آگے نہیں آرہی ہے اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ۔البتہ سکیورٹی ایجینسیوں اور مختلف حکومتی اداروں نے یہاں کے حالات کو بہتر بنانے کی کوششیں کیں ۔اور اس سلسلے میں ای۔ڈی۔آئی کی خدمات حاصل کی گئی جس نے یہاں کے نوجوان مردو زن کے لئے مختلف تربیتی کورسز کا اہتمام بھی کیا۔ایک چھوٹا موٹا فٹنس کلب بھی قائم کیا۔کھیل کے میدان کی بہتری کے لئے بھی کچھ کام کیا۔سڑکوں کی مرمت کی گئی۔
پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کو مقامی نوجوانوں کو تنگ نہ کرنے کی ہدایت کی گئی لیکن مقامی نوجوانوں کی شکایت ہے کہ انتظامیہ اور اْن سے وابستہ ادارے ابھی بھی پلہالن سے بھید بھاؤ قائم رکھے ہوئے ہیں اور سکیورٹی کے نام پر لوگوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے جب پلہالن کے لوگ بدل گئے ہیں تو سکیورٹی ایجنسیز کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کوگِلا ہے کہ یہاں پر ترقی کے نام پر کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے حکومت کی مختلف اسکیموں کا فائدہ یہاں کے لوگوں تک جان بوجھ کر نہیں پہونچایا جارہا ہے حتی کہ علاقے میں علاج و معالجے کے لئے اسپتال تک نہیں ہے۔ پولیس نے ہمارے نمایئندے کو بتایا کہ علاقے میں اب کوئی عسکریت پسند موجود نہیں ہے لیکن وہ ابھی بھی اس راستے کو استعمال کرتے ہیں۔کیونکہ لوگوں میں ابھی بھی ان کے لئے ہمدردی کا عنصر موجود ہے اْن کے مطابق پلہالن میں نوجوانوں کے آگے بڑھنے کے کافی مواقع موجود ہیں۔کئی سال پہلے پلہالن کے نوجوانوں نے Green and clean palhalan initiativeکے تحت ہزروں درخت لگاکر مثال قائم کی۔ اس گروپ نے علاقے کی سڑکوں،اسکولوں،گورنمنٹ اداروں کی صفائی پر توجہ مرکوز کی۔اْن کے اس جذبے کو وادی کے دوسرے حصوں میں بھی اپنایا گیا اور اْن کے کام کی عوامی حلقوں میں کافی سراہنا ہوئی اور پلہالن کے یہ نوجوان سبھی کے لئے ایک مثال بن گئے۔

آہستہ آہستہ ڈگر پر آنے والے پلہالن کی کہانی کوئی عام کہانی نہیں ہے یہ کہانی ہے لوگوں کے جوش و جذبے کی،بے پناہ جذبات کی، دکھ درد کی اور اس سب کو پیچھے چھوڑ کر ایک نیا پلہالن تعمیر کرنے کی۔جذبے جب صادق ہوں تو خوابوں کو تعبیر ملنے میں دیر نہیں لگتی

 

Asem Mohiuddin
Editor-In-Chief
The Legitimate
Weekly Newspaper of Jammu and Kashmir
www.thelegitimatenews.com
Contact no.+91-9419045666-0194-2473444

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا