قرطاس و قلم : مقصوداحمدضیائی
اس جہان آب و گل میں قدرت کے کرشمہ ہائے بے شمار ہیں جن سے ایک باشعور انسان درس دانش و بینش اور اکتساب علم و حکمت کر سکتا ہے تاریخ عالم کے ادوار مختلفہ میں مبصرین و مفکرین سیاح علماء و دانشوران کے اسفار جو بہ غرض حصول علم و حکمت اور ازدیاد تجارت و بصیرت ہوئے تھے صفحات تاریخ اور مستقل سفرناموں کی شکل میں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوکر باعث التفات انظار و ابصار ہوئے جو قاری کیلئے گھر بیٹھے
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے
کا منظر پیش کرتے ہیں جاننا چاہیئے کہ ہر مسافر کی سوچ و فکر اور وجدانیات کے زاوئیے مختلف ہوتے ہیں اسی اعتبار سے وہ اپنے مشاہدات اور تاثرات پیش کرتا ہے اس تمہید کے ذیل میں ہم خطہ پیرپنجال کے ایک اہم ترین سیاحتی مقام جبی طوطی کے سفر کا تذکرہ کرنے جا رہے ہیں اس سفرنامہ میں من بیتی سے زیادہ تن بیتی ہوگی قارئین کرام میں مختلف المزاج لوگ ہوتے ہیں اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ ان کے مزاج کی رعایت میں اس کی صراحت کر دی جائے مدت سے جبی طوطی کی سیر کو جی چاہ رہا تھا کاموں کے ہجوم اور دیگر عوارض مانع رہے اور بار بار ارادہ ٹوٹ جاتا رہا مورخہ 17/جولائی 2020ء کی صبح حافظ لیاقت اللہ سلمہ کو رہبر بنا کر ہم نے جبی طوطی کی سیاحت کا قصد کیا نمکین چائے اور تندوری روٹی کے مختصر ناشتے کے بعد بذریعہ موٹر سائیکل روانگی ہوئی اول اول موصوف کی ڈرائیوری قابل فکر معلوم ہوئی جو رفتہ رفتہ قابل رشک بنتی چلی گئی سڑک ہموار ہو یا ناہموار ہر دو طرح کی سڑکوں پر گاڑی چلانے کے تجربہ کے ماہر معلوم ہوئے عام شاہراہ کے بعد جس راستے سے واسطہ پڑا وہ واقعی بڑا ہی پر پیچ تھا قصہ خاص یہ کہ چند روز قبل واٹس ایپ پر ایک تصویر بہت زیادہ وائرل ہو رہی تھی جسے ہم عام ترسیلات کے زمرے میں ڈال کر تقریبا بھول چکے تھے یہ تصویر ایک پہلوان نما شخص کے سر کی معلوم ہوتی تھی جس کا سر گنجا اور بالوں سے خالی تھا اور سر پر رگیں ایسے ابھری ہوئی دکھائی دے رہیں تھیں جیسے کسی تناور درخت کی جڑیں ابھری ہوئی ہوں اس پر یہ الفاظ رقم تھے ” ہرمی سے ہاڑی بڈھا جانے والی روڈ کا منظر ” سڑک کی زبوں حالی کا خاکہ پہلے سے ذہن میں تھا جس کا تذکرہ ہم نے رفیق سفر سے بھی کیا جس پر وہ ہنس کر خاموش ہوگئے ان کے اس عمل سے اس بات کی مزید تصدیق ہوگئی چنانچہ جوں جوں بڑھتے جا رہے ہیں راہ کی ناہمواری بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے جس کی تعبیر کے لیے شاید اس سے زیادہ موزوں الفاظ نہ ہوں گویا کبھی گاڑی ہم پر اور کبھی ہم گاڑی پر سوار ہیں جلیبی دار راستوں سے ہوتے ہوئے جانب منزل رواں دواں رہے غائبانہ پہچان کے ایک شناسا مولوی محمد اسحاق مدنی صاحب جٹ جو جامعتہ الشیخ دیوبند کے نئے فاضل اور ایک خوبرو نوجوان بھی ہیں کے والد محترم کی دوکان کے پہلو میں گاڑی کھڑی کرکے ان سے واپسی پر ملاقات کی بات کرکے پیدل سفر شروع ہوا ان کے بعد پہلا رابطہ حافظ لیاقت اللہ سلمہ کے چچا جان ماسٹر عبدالرشید صاحب ایم اے ، بی ایڈ سے ہوا جن سے مل کر خطہ کے تئیں جو تاثر اپنے ذہن میں قائم ہوا اس کے اظہار کے لیے یہ شعر موزوں معلوم ہوتا ہے
سنگ و خشت و در و دیوار لپٹ کر روئے
اجنبی شہر برسوں کا شناسا نکلا
موصوف منکسرالمزاج متواضع اور مہروبان واقع ہوئے محبت سے ملے ان سے مل کر ایسا لگا کہ جیسے پہلے سے شناسائی ہو عنایات کے ساتھ ساتھ خیرخیریت اور مشغولیت پر مبنی ملی جلی گفتگو بھی رہی آں موصوف سابقہ انتخابات میں ہمارے یہاں الیکشن ڈیوٹی بھی آچکے تھے چند لمحات میں فراغ کے بعد ہمارا اگلا پڑاو رفیق سفر کا ہی گھر تھا جملہ افراد خانہ نے پیار و محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلدی جلدی چائے وغیرہ سے فارغ کرکے منزل کی طرف روانگی کو یقینی بنایا کچھ تاخیر والا معاملہ لگ رہا تھا حافظ لیاقت اللہ صاحب ان کے چھوٹے بھائی اور یہ عاجز تین نفوس پر مشتمل یہ چھوٹی سی مہم توشہ وغیرہ کے انتظام کے ساتھ روانہ ہونے کو ہے رفیق سفر کے والد بزرگوار نے نکلتے وقت عصا بھی ہاتھ میں تھما دیا جو اوپری سی بات معلوم ہوئی بہ ہرحال بڑوں کے زندگی کے تجربات ہوتے ہیں جو بعض اوقات بڑے بڑوں کی عقل کو بھی مات دے جاتے ہیں راستے میں اس نے بہت کام دیا کیچڑ وغیرہ کی وجہ سے پھسلن خوب رہی اس طرح یہ چھوٹا سا کارواں روانہ ہوا راستہ بالکل ایسا گویا کہ سیدھا آسمان کی طرف سیڑھی چڑھنا ہے چند گز چلے ہی تھے اور معلوم ہوا کہ گزر گاہ کے قریب مخلصم حضرت مولانا شکیل احمد صاحب قریشی اشاعتوی مدظلہ کا گھر ہے اچانک مولانا موصوف گھر سے نمودار بھی ہوگئے تنگئ وقت کی وجہ سے کسی بھی قسم کی خاطر تواضع سے ہم نے ہی بصد احترام معذرت کر دی لیکن تعلق ایسا کہ ہر چند اصرار کے ناشتے کا نظم کر ڈالا شکوہ کے ساتھ ناراضی کا اظہار بھی کیا کہ کیوں اطلاع نہ کی اس وجہ سے رفیق سفر جو کہ رشتہ میں موصوف کے بھتیجے تھے سے بھی گلہ کیا میری وجہ سے ان کو کچھ شرمندگی کا سامنا ہوا جس پر معافی کا خواستگار ہوں امید ہے معاف کر دیں گے چونکہ ہمارے عزیز ہیں دراصل اس عاجز کا مزاج تکلفات سے گریز کا رہا ہے اب تک کی زندگی میں بار ہا ایسا دیکھنے میں آیا کہ مہمان کی آمد پر میزابان صاحبان بیجا تکلفات میں پڑ جاتے رہے مجھے طبعی طور پر ان تکلفات میں سخت تکلیف محسوس ہوتی رہی جس سے حتی الامکان بچنے بچانے کی کوشش رہتی ہے کہیں بھی جانا ہو سادگی کے ساتھ ہی آنا جانا مناسب سمجھتا ہوں جو میسر آگیا وہ بخوشی قبول کیا مولانا شکیل صاحب سے ہمارے تعلقات دیرینہ رہے ہیں علم نواز بھی ہیں اور ذی علم بھی ہیں سال گزشتہ جامعہ محمدیہ قاسم العلوم سہڑی خواجہ میں انجمن طلبہ کے سالانہ پروگرام میں عاجز کو بحیثیت ممتحن مدعو کرنے پر مصر ہوئے خط بھیجا ذاتی طور پر تیار رہنے کو بھی فرمایا مگر اجازت نہ مل سکی جس کا مجھے قلق رہے گا خیر یہ اس وقت میرا موضوع نہیں ہے اس قسم کی دالخراش یادوں کا ایک دفتر ہے جو سینے میں محفوظ ہے اورجس میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے ضرور بالضرور کبھی نہ کبھی یہ سفینےپر آئیں گی ان شاء اللہ مولانا موصوف گھر سے کچھ دور تک ہمارے سنگ ننگے پیر ہی چلتے رہے ہمارے اصرار پر کہ شرمندہ نہ کریں جوتا پہن لیں خیر مولانا کی علمی بصیرت تو پہلے سے ہویدا تھی البتہ عملی زندگی کا مظاہرہ آنکھوں کے سامنے تھا مولانا محترم ایک بافیض استاذ ہونے کے علاوہ علاقہ کی منفرد پہچان کی حامل شخصیت بھی ہیں ان سے گہرا تعلق ہونے کی بنا پر یہ چند باتیں زیب قرطاس ہوگئیں امید ہے پسند آئیں گی چنانچہ جبی طوطی کی جانب کمر ہمت باندھی جغرافیہ کچھ ایسا کہ نشیب کا تو تصور ہی نہیں فراز ہی فراز ہے ادھر ادھر دور دور تک سرسبزو شاداب میدانوں کا ایسا دلکش نظارہ کہ رہ رہ کر قدرت کی کاریگری پر زبان شکر کھلتی جا رہی ہے رفتہ رفتہ منزل کی اور بڑھتے گئے جبی کے سفر میں روانگی کے دوران پہلا پڑاو جہاں ڈالا گیا اس جگہ کا نام (سر) ہے یہاں کے وسیع و عریض میدان کو دیکھ کر بے ساختہ یہ شعر زباں پر آ گیا کہ
مقام سر پر دلکش میدان ہے
علاقے کی جو دل اور جان ہے
(سر) دراصل جبی طوطی جانے والوں کے لیے ایک قسم کا عبوری ٹھکانہ بھی سمجھا جاتا ہے یہاں قریب میں ٹھنڈے پانی کا چشمہ بھی ہے اور گھنی چھاوں کے درخت بھی ہیں یہاں سے تھوڑے فاصلے پر رفیق سفر حافظ لیاقت اللہ سلمہ کے نانا جان کا گھر بھی ہے اس جگہ کے نظارہ کی نظیر نہیں پیش کی جاسکتی جبی طوطی کے مقابلہ میں یہ زیادہ دلفریب معلوم ہوئی چناچہ موسمی لحاظ سے اگرچہ ابھی ساون شروع نہ ہوا ہے تاہم یہ ایام ساون کی تمہید معلوم ہوئے آسمان ابر آلود ہے لیکن وقفے وقفے سے تیز دھوپ بھی نمودار ہوتی رہی اہم بات یہ کہ بادلوں کا ایک دل ہمارے سروں پہ مستقل سایہ فگن رہا چنانچہ ان دنوں لوگ ڈھوکوں میں گئے ہوئے ہیں اور ساز و سامان کندھوں پر لاد کر لے جانے کا عمل بھی جاری ہے وقفے وقفے سے سامان اٹھائے نوجوان گزرتے جا رہے ہیں ایک نوجوان سامان اٹھائے جبی طوطی کو رواں دواں ہے ماشاء اللہ تن درست و توانا بالکل سیاہ کپڑوں میں ملبوس کندھے پر لگ بھگ پندرہ کلو آٹا اٹھائے اور ہاتھ میں مضبوط عصا پکڑے ہوئے ہے سامان اٹھا کر ناہموار راستے پر اس کی رفتار پر حیرانگی ہو رہی تھی ہم نے سلام کیا جواب میں سلام کے بجائے مقامی زبان میں خیر خیریت جاری ہوگئی بلکہ سلام کے جواب میں سلام اکا دکا لوگوں نے دیا ہوگا سب کا طریقہ ایک جیسا رہا خیر تالیف قلب کے طور پر احتیاطا ہم نے کہہ دیا کہ ہماری مدد کی ضرورت تو نہیں ہے جوابا اس نے کہا کہ ابھی تو نہیں کچھ آگے چل کر ( نکی جی لانی دے دینا ) یعنی ابھی ضرورت نہیں ہے آگے چل کر مدد کر دینا ہمیں کچھ فکر بھی ہوئی کہ کہیں سچ مچ اٹھانا ہی نہ پڑھ جائے یہ شخص کہیں بے زبانی پر مواخذہ ہی نہ کر ڈالے نام کا بلاشبہ یہ عبد الرشید ہے لیکن لہجہ اس کا بڑا شدید لگا تیوروں سے شدت ہویدا تھی اس لیے کچھ دیر ہم نے بیٹھنے میں عافیت سمجھی اتنی دیر میں وہ مرد کوہستانی کہیں سے کہیں جا پہنچا قریب میں ایک کچا مکان نظر آیا جس کے پاس چھوٹا سا واٹر کولر اور رسی سے بندھا گلاس بھی لٹکتا نظر آیا حافظ لیاقت اللہ صاحب نے پانی کی بوتل یہاں سے بھر لی اور ہم نے تھوڑا تھوڑا پانی پی بھی لیا گلاس کھنگالا تو قریب میں ایک معمر خاتون کھڑی تھی جن کا یہ مکان تھا مقامی زبان میں اس نے کچھ باتیں کیں جن کا مطلب یہ تھا کہ پانی گراو مت میں اکیلی ہوں دور سے پانی لانا پڑتا ہے یہاں پانی کی قلت ہے کہا میرا ایک ہی بیٹا ہے اور ان من سا ہے میں خود ہی سب کام کرتی ہوں بہت دور سے پانی بھر کر لاتی ہوں راہ گیروں میں کچھ آپ لوگوں جیسے نرم و نازک لوگ بھی ہوتے ہیں جن کو مشقت سے کم واسطہ پڑا ہوتا ہے ان کی خاطر ہمیں یہ اہتمام کرنا پڑتا ہے اور یہ ثواب کی نیت سے کیا ہے خیر پانی پی کر اور لے کر تازہ دم ہم یہاں سے روانہ ہوئے اس جگہ کو ( کوپرا ) کہا جاتا ہے کچھ آگے ایک چھوٹی سی ٹین کے چھت والی مسجد بھی نظر آئی یہاں سے نشیب میں (ہاڑی) نام کا گاوں ہے چنانچہ صبح سے گئے لوگ اب لوٹ رہے تھے جس جس سے بھی ہم نے پوچھا کہ جبی سے لوٹ رہے ہو وہ تھکاوٹ کی وجہ سے زبان سے تو کچھ نہ بولتا البتہ سر ہلا کر تصدیق کر دیتا جس سے ہماری ہمت پر زوال آتا دکھتا یہ جگہ اس سفر میں سب سے زیادہ سنگلاخ معلوم ہوئی اسے سر کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوا گویا کہ
دامن کوہ سے چڑھے ہیں اس طرح
کوہ پیما چڑ رہے ہوں جس طرح
بہرحال ! اکا دکا شکاری بھی گزرتے دیکھے ایک اونچی ٹیکری نما جگہ پر ایک شخص ملا جو تکان دور کرنے بیٹھا تھا اس کے ایک ہاتھ میں پھلیاں اور دوسرے میں کوکا کولا دیکھنے میں آیا ہمیں اس پر حیرت ہوئی کہ اس پوزیشن میں تو یہ نقصان دہ چیز ہے لیکن ان کے ظاہری رعب کی وجہ سے انہیں کچھ کہنے کی ہم میں ہمت نہ ہوپائی خیر کچھ آگے چلے تھے کہ وہ بھی آن پہنچا ہمت کرکے بات چیت شروع ہوئی تو ہمارے دریافت کرنے پر بتایا کہ میں نے فیڈ کا توڑا اٹھا رکھا ہے اور یہ ساری مشقت فقط ایک (چوٹے) جسے اردو میں سنڈا کہا جاتا ہے کو غذا فراہم کرنے کی خاطر وہ جھیل رہے تھے ایسے لوگوں کی پر مشقت زندگی پر مجھے علامہ اقبال کا افغان نفسیات پر کہا گیا مشہور مصرعہ یاد آیا
افغان باقی کہسار باقی
یہ الگ بات کہ افغان جیسا مذہبی جذبہ تو رہی بات البتہ ان لوگوں کی مشقت و محنت سے نہ مجال انکار ہے اور نہ ہی مجال فرار اس کوہستانی شخص سے جانوروں کی خوراک اور جنگلی و صحرائی جانوروں بارے بہت سی حیرت انگیز باتیں سننے کو ملیں کون سا جانور کب گھاس نہیں کھایا کرتا اور صرف فیڈ کی ضرورت درکار ہوا کرتی ہے اور نہ ملنے پر یا تو وہ مرجاتا ہے یا پھر پاگل ہوجاتا ہے اس شخص کی زبان سے اردو اور مقامی مکس زبان اور رنگ برنگی گفتگو سے دیر تک محظوظ ہوتے رہے کبھی کبھی ہنسی بھی نکل جاتی جس پر وہ کچھ ڈانواں ڈول ہونے لگتا موقع غنیمت سمجھتے ہوئے ہم نے کوکا کولا کے استعمال بارے بھی بتایا جس پر اس کا کہنا تھا کہ مجھے گردے میں پتھری ہے اس سے کچھ دیر آرام ہوجاتا ہے اس لیے استعمال کرتا ہوں دوائی بارے ہم نے رہبری کی جو ہمارا فریضہ تھا مشورہ قبول کیا اور وہ مقام آگیا جہاں سے اس نے الگ ہونا تھا مکرر سکرر یہ کہہ کر کہ آپ نے سیر کرنا ہے اس لیے اوپر اوپر سے جائیں اور میں سیدھے راستے سے جاتا ہوں پہاڑ کی دوسری طرف میرا اکیلا مکان ہے ضرور آنا چائے وغیرہ ہو جائے گی (پلے ) بستر بھی ملے گا اور (کلیاڑیاں ) جو دودھ کی بنی خاص قسم کی چیز ہوتی ہے وہ بھی ملے گی اس سفر میں راہگیروں اور گنواروں سے مزاحیہ گفتگو کا سلسلہ آمد و رفت میں بدستور رہا جو برائے تفنن تھا تاکہ کسی طرح یہ پر مشقت سفر کٹ جائے اب ہم جبی کے بہت قریب آچکے تھے اور مولانا ریاض میر کے جبی طوطی پر کہے گئے طویل مزاحیہ شعری مجموعہ کے یہ اشعار ذہن میں رقص کرنے لگے جن کو کبھی پڑھنے کے بعد جبی کا ارادہ بنا تھا آج شرمندہ تعبیر ہوا جاتا تھا
جوں جوں جبی طوطی قریب آنے لگی
دل میں خوشیوں کی دھن چھانے لگی
اب ہم جس مقام سے گزر رہے تھے اس کا نام ( گلی) تھا اور پھر اس کے بعد جبی تھا یہاں کی ہوا میں جھڑی بوٹی کی آمیزش اور بو میں اس کا اثر واضح محسوس ہونے لگا جس کا اثر دماغ تک جا پہنچا بدن میں عجیب قسم کا سکون محسوس ہونے لگا بدن سوس موس سا ہوگیا بچپن میں سنا تھا کہ نو واردوں پر اس مقام پر پہنچ کر بے ہوشی طاری ہوجایا کرتی ہے فورا وہ بات ذہن میں تازہ ہوگئی ہمت تو دم توڑ رہی تھی لیکن حفظ ما تقدم کے طور پر پھرتی سے چلنا شروع کیا اور جبی پر جا کر کمند ڈالی یہاں پہنچ کر میر صاحب کی زبان میں
ٹھنڈی ٹھنڈی بھینی بھینی ہوا
دیکھ کر ہم کہہ اٹھے یہ برملا
اے الہی ! تیری کیسی شان ہے
جس کا پھیلا ہر طرف فیضان ہے
وسیع و عریض میادانوں میں جانورں کے ریوڑوں کے ریوڑ کووں کے غولوں کے غول حد نگاہ لالہ زاروں اور مرغزاروں کا خوشنما سماں ہے البتہ آبشار ندارد ہیں مال مویشی کے ساتھ موجود لوگ جسمانی اعتبار سے انتہائی مضبوط تن درست و توانا لال سرخ قسم کے البتہ قریب جا کر ایسا لگا کہ جدید تہذیب چھو کر بھی نہیں گزری بھوک سخت لگی تھی ایک مقام پر کھانا تناول کرنا طے پایا آغاز سفر میں حافظ لیاقت اللہ سلمہ کے گھر والوں نے عمدہ قسم کا کھانا بنا دیا تین گھنٹے کی سیدھی چڑھائی کے بعد آج بھوک کا مزہ ہی الگ تھا روٹی کی قدر و قیمت کا احساس ہو رہا تھا میدان کے کنارے سبزے پر ساتھیوں نے مزے لے لے کر کھانا تناول کیا جو کھانا بچ گیا قریب میں مال مویشی چرانے میں مشغول بچیوں کو آواز لگائی لگا کہ نوواردوں کو دیکھ کر شرما سی گئیں ہیں عجیب بات کہ بجائے کھانا لینے کے گھوڑوں کے ہانکنے میں مصروف ہوگئیں جس سے لگا کہ ان کی مرضی نہیں ہے خیر چند لمحوں میں کچھ اور آٹپکیں انہوں نے قبول کر لیا بیگ میں ایک درجن کیلے بھی پڑے تھے وہ بھی کام میں آئے چراہ گاہوں میں موجود چند لوگوں کو بھی دئیے کھانے سے فراغ پر ہم نے مزید گھومنے کا قصد کیا ایک بڑے عمر کی خاتون نے آواز دیتے ہوئے مقامی زبان میں کہا کہ ( سیل اذر ہیں اذر کے اے ؟ ) یعنی سیر کی جگہ دوسری جانب ہے ادھر کیا ہے ان کے کہنے پر اس جانب کا قصد کیا واقعی حد نظر نشیب و فراز میں سبزہ زار کا ایک طویل سلسلہ پایا سر بفلک تنگ کے درختوں کو دیکھ کر بقول مولانا ریاض میر
بیشتر یاں تنگ کے اشجار ہیں
اشجار کیا سر بفلک مینار ہیں
اس وقت تک تو ابن آدم کے ہاتھوں کروڑ ہا کروڑ روپے خرچ کر کر کے تیار کردہ پارکوں اور لانوں کو دیکھا تھا لیکن اب انہیں دیکھ کر یہ کہنا ہے کہ ان جیسے کروڑوں ان پر قربان جائیں جو قدرت نے یہاں تیار کر رکھے ہیں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سن سن چل رہی ہے جڑی بوٹیوں کی خوشبو نے فضا کو عطر العطر بنا رکھا ہے پورے بدن پر سکون طاری ہے قدرت کی اس کاریگری کا کس زباں سے شکر ادا کیا جائے جی تو چاہتا ہے سوجانے کو لیکن ذرا ہوش رہے یہ آپ کا گھر نہیں ہے جنگل ہے یہ حشرات الارض کا مسکن ہے یہ آرام گاہ بھی اور مقتل گاہ بھی یہ سیرگاہ بھی ہے اور شیر گاہ بھی کووں کے غول کے غول آتے ہیں اور سر سے گزر جاتے ہیں جو شرارتی جانور ہے جس کا اڑنا اور بولنا خطرے کا الارم ہے لہذا یہاں بیداری اور جوانمردی میں ہی عافیت ہے ہم چند لوگ ہیں اور بے زبان مخلوق جانور ہیں اہم بات یہ کہ یہاں سے آسمان کچھ زیادہ دور بھی نہیں لگتا ہے سیر و سیاحت کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ یکا یک کالے کالے بادلوں کی گھٹا چھا گئی دھند کی تیز رو بھاگتی آ رہی ہے ہر طرف اندھیرا چھاتا جا رہا ہے بتانے والوں نے بتایا کہ جب یہاں بارش برستی ہے تو پھر جم کر برستی ہے اس لیے اب کوچ کرنے میں ہی عافیت ہے لہذا واپسی کا قصد کیا واپسی پر حاجی یعقوب نامی ایک صاحب ملے جو اپنے مویشیوں کو چرارہے تھے چند ہی باتوں میں انہوں نے بے حد اصرار شروع کر دیا کہ رات کا قیام ہمارے یہاں کر لیجئے قریب میں ڈھوک کا ہی گھر ہے مگر آباد ہے کھانا ملے گا چائے ملے گی بستر ملے گا صبح سیر کی جئے اور پھر توشہ بھی ملے گا ہر چند اصرار کے ہم نے واپسی کو ترجیح دی کچھ گز مزید اترنے پر حاجی فیروز دین نامی ایک صاحب ملے وہ اولذکر سے بھی مہرباں معلوم ہوئے رات کے قیام پر مصر رہے لیکن ہمیں روک نہ پائے نصف سفر طے کرنے پر بارش کی باندا بوندی بھی جاری ہوگئی تھکاوٹ بھی محسوس ہو رہی تھی کہ قریب ایک مکان میں لوگوں کی بھیڑ نظر آئی ایک نوجوان نے آواز دی کہ (مولبی صاب ) آئیں اور کھانا کھاتے جائیں ہم بھی لو جناب ! یہاں آج سترنج لائی گئی ہے لیتری کھانے پر جمع ہے سادہ سا مکان ہے جہاں ایک طرف جانور بندھے ہیں دوسری طرف انسان رہتے ہیں لیتری والوں کا جمگھٹا بھی قابل دید ہے مال مویشی اور گھاس پھوس کے متعلق بات چیت رہی سب نے ہمارا اکرام کیا ایک نوجوان نے ہاتھ سے عصا لیا بیٹھنے کے لیے (لوئی) پیش کی پانی پلایا اہم بات یہ کہ بے انتہا مشقت و دقت کے ساتھ اشیاء خوردنی کا زمین سے کندھوں پر لاد کر آسماں تک لے جانا اور پھر کسی کو خوشی سے مہمان بنانا یہ وہ خوبی ہے کہ جو کم از کم اس دور ترقی میں بڑے بڑے ترقی یافتہ شہروں کے باشدگان اور مالداروں کیا دین داروں میں بھی کمیاب ہے سخاوت کے گر کوئی ان گنواروں سے سیکھے چنانچہ کھانا ہمارا مقصد نہیں تھا بلک ڈھوک والوں کا رہن سہن دیکھنا مقصد تھا ان کا سلوک اچھا لگا چاول دال اور دودہ دہی سے تواضع کی یہ مقام بھی سیاحت کے لحاظ سے اعلی معلوم ہوا قریب میں ہیلی کاپٹر کے بیٹھنے کا نشان زدہ بہترین مقام نظر آیا یہاں سے نشیب میں سفر ہو رہا تھا میدانوں میں سپاٹے بھرنے کے مترادف تھا ایک دو مقام پر راستہ بھٹکے جس سےصحیح کی قدر بھی معلوم ہوئی بالآخر قریب مغرب ہم لوگ تھکے ماندے اپنے مقام پر لوٹے اب جسم میں اتنی بھی سکت نہیں ہے کہ نماز کے لیے وضو کیا جا سکے لیکن نماز تو بہ ہر صورت پڑھنی ہے بلکہ پڑھنی نہیں پڑھانی بھی ہے
جبی طوطی کا سفر بھولے گا نہ برسوں تلک
جانے پھر دیکھیں گے کب اس کی جھلک
وضو کیا کپڑے بدلے نماز پڑھائی اب نمکین چائے ہے گرم گرم پرانٹھے ہیں اور کچھ دیر بعد بہترین کھانا ہے اور پھر چائے ہے اور پھر نماز عشاء ادا کرتے ہی ہم نیند کی وادی میں چلے گئے صبح نماز فجر چائے ناشتہ کے بعد (ٹیرا) نامی مقام پر کچھ دیر رکنا ہوا یہاں سے پورا گاوں دکھائی دیتا ہے قریب میں ٹھنڈے پانی کا بہترین چشمہ ہے کچھ دیر میں واپسی ہوگئی مولانا اسحاق جٹ صاحب سے ملے ان کی ادبی گفتگو کا مزہ ہی کچھ اور تھا ان کی جانب سے عنایات بھی رہیں ان کے والد گرامی دہلی مدرسہ امینیہ میں رہ چکے تھے اپنے عہد کی کچھ یادیں کچھ باتیں انہوں نے بھی ذوق و شوق سے سنائیں یہاں مخلصم مولانا ابراہیم صاحب مدظلہ کے برادر اصغر حافظ معروف صاحب مل گئے ان کا اصرار بڑھنے لگا کہ ان کے گھر جایا جائے لیکن وقت کے دامن میں اس کی گنجائش کہاں اس لیے بصد احترام معذرت کرنی پڑی اور ایک بار پھر ہم ہاڑی بڈہا کی اسی سڑک پر چل رہے تھے جہاں کبھی گاڑی بندے پر اورکبھی بندہ گاڑی پرسوار ہوتا ہے جامعہ میں جمعہ کی نماز ادا کی اور پھر گھر کی راہ لی
آخری بات : خطہ پیرپنجال کا حسین اور خوب صورت مقام جبی طوطی ایک ایسا علاقہ ہے جو پہاڑوں کی آغوش میں شہر کی آلودگیوں سے کوسوں دور دلکش مرغزارو لالہ زاروں اور دیہاتوں کے بیچوں بیچ قدرت کی صناعی کا عظیم مظہر ہے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جبی طوطی ایک ایسا ہی سیاحتی مقام ہے جیسا کہ وادی کشمیر کے سیاحتی مقامات ہیں لیکن یہ گمنام اس وجہ سے ہے کہ اس تک سٹرک کی سہولت نہیں ہے تن بیتی میں آپ نے لوگوں کے اشیاء خوردنی کو اپنے کندھوں پر زمین سے اٹھا کرآسمان تک لے جانے کے واقعات پڑھے جدید دور میں قدیم طرز زندگی کے نمونے ملاحظہ کیے واضح رہے یہ کوئی سن ۴۷ کا زمانہ نہیں ہے بلکہ ۲۰۲۰ء ہے عوام خطہ پیر پنچال ہے اور ان کے حالات ہیں سٹرک رابطہ ہوتا تو یہ مقام دنیا کے اہم ترین سیاحتی مقامات کی طرح مشہور ہوتا یہ خطہ وادی کشمیر اور ہماچل کی طرح سیاحوں کی توجہات کا مرکز ہوتا بطور خاص خطہ پیرپنجال ملک گیر سیاحوں کی آمد و رفت کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہوتا لیکن آہ روئیں دل کو یا پیٹیں جگر کو سیدھی بات ہے کہ شایان شان لیڈر شب مقدر نہ ہوسکی پون صدی بعد کوئی ایسا ڈپٹی کمشنر اس خطہ پر وارد ہوا جس کے دورے کے بعد سے ان دنوں یہ خطہ سرخیوں میں بھی ہے لوگوں کے دلوں میں سڑک رابطے کی کرن بھی جاگی ہے خدا کرے یہ خواب جلد از جلد شرمندہ تعبیر ہو جبی طوطی کی کہانی مختصر ہوکر بھی طویل ہوگئی یہ راہرو قلم اس شعر کیساتھ رخصت ہوا چاہتا ہے
زندگانی گر رہی تو ایک بار
جبی کے سفر کا رہے گا انتظار