صحت یاب افراد کے پلازما سے علاج پر تحقیق جاری: امریکی معالج ڈاکٹر ریڈفیلڈ
کے این ایس
واشنگٹن؍؍امریکہ کے سینٹرز فور ڈیزز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے سربراہ ڈاکٹر رابرٹ ریڈفیلڈ نے کہا ہے کہ سب لوگ ماسک پہنیں تو چند ہفتوں میں کرونا وائرس کی وبا تھم جائے گی۔انہوں نے کہا کہ وائرس صورت بدل رہا ہے، لیکن ایک بار ویکسین بن گئی تو اسے نہیں بدلنا پڑے گا، البتہ بار بار لگوانی پڑ سکتی ہے۔امریکا کے معروف معالج ڈاکٹر ریڈفیلڈ نے کہا کہ وبا امریکہ کو پانچ سے سات ہزار ارب ڈالر کا نقصان پہنچائے گی، جبکہ امریکہ میں صحت کے شعبے کے لیے اتنی رقوم مختص نہیں کی جاتیں جتنی ضرورت ہے۔ صحت عامہ کے شعبے پر توجہ دی جانی چاہیے اور اس میں زیادہ سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔سی ڈی سی کے ڈائریکٹر نے وائس آف امریکہ کی خصوصی نمائندہ گریٹا وین سسٹیرن کو ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ ریمڈیسوئیر کام کی دوا ہے لیکن جب کوئی شخص وائرس میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اسے بیماری سے زیادہ خطرہ اپنے ہی مدافعتی نظام سے لاحق ہوتا ہے جو شدت سے کام شروع کردے تو اعضا خراب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ان کا کہناتھا کہ مدافعتی نظام میں شدت سے جسم میں سوزش پیدا ہوتی ہے۔ ریمڈیسوئیر اس مرحلے پر کام نہیں آتی بلکہ اس وقت اسٹیروئیڈ یعنی ڈیگزامیتھاسون فائدہ پہنچاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ صحت یاب افراد کے پلازما سے علاج پر تحقیق جاری ہے جس میں کامیابی ملی تو بہت سے لوگوں کو بچانے میں مدد ملے گی۔ ہائیڈروائوکسی کلوروکوئن پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے مفید نہیں۔ڈاکٹر ریڈفیلڈ نے بتایا کہ جب انھوں نے ایچ آئی وی کے مریضوں کا علاج شروع کیا تو اس وقت مریض اوسطاً 10 ماہ زندہ رہتے تھے۔ لیکن اب پوری عمر جی لیتے ہیں۔ سائنس نے ترقی کی ہے اور بیماریوں کا علاج فراہم کررہی ہے۔ کرونا وائرس کی ویکسین بنانے میں بھی کامیابی مل جائے گی۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس سے پہلے کمزور اور خطرے کے شکار لوگوں کو کیسے بچایا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں امید تھی کہ موسم گرما میں وبا کا زور کم ہوجائے گا، جو نہیں ہوا۔ اور اب موسم خزاں میں مسائل بڑھیں گے جب فلو وائرس بھی پھیلے گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس وقت تک ویکسین دستیاب ہوجائے تاکہ پہلے کمزور افراد اور فرنٹ لائن کے طبی عملے کو فراہم کی جاسکے۔ اس کے بعد امریکی عوام اور پوری دنیا میں لوگوں کو ویکسین فراہم کی جائے گی۔ڈاکٹر ریڈفیلڈ کا کہنا تھا کہ عام طور پر ویکسین کی تیاری میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور تین بار کی آزمائش اور پھر وسیع پیمانے پر پیداوار میں طویل عرصہ صرف ہوتا ہے۔ وہ وقت گھٹا کر تیزی سے ویکسین بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔انھوں نے کہا کہ فی الحال ہم یہ نہیں جانتے کہ ویکسین سے تحفظ کتنے عرصے کے لیے ملے گا۔ وائرس صورت بدل رہا ہے۔ لیکن ویکسین بن جائے تو اسے نہیں بدلنا پڑے گا۔ صرف یہ جاننا ہوگا کہ کتنے عرصے میں اسے دوبارہ لگوانا پڑے گا۔ڈاکٹر ریڈفیلڈ نے کہا کہ بچے کرونا وائرس سے کم متاثر ہو رہے ہیں اور اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کے دس لاکھ بچوں میں سے ایک اس سے ہلاک ہو رہا ہے۔ ان میں سے بھی کچھ کو پہلے سے طبی مسائل تھے۔ لیکن یہ بچے بڑوں کو وائرس لگا سکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ وہ تعلیمی اداروں کو کھولنے کے حق میں ہیں۔ لیکن یہ کام احتیاطی تدابیر اختیار کرکے کرنا چاہیے اور ان بچوں اور اساتذہ کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے جنھیں زیادہ خطرہ لاحق ہوگا۔ اسکول نہ جانے سے بھی صحت کو خطرات ہوسکتے ہیں مثلا 71لاکھ بچوں کا اسکول جانے سے ذہنی علاج میسر آتا ہے۔ بچوں کے اسکول نہ جانے سے حفظاں صحت کے مسائل ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں خطرہ بمقابلہ خطرہ جیسی صورتحال درپیش ہے۔ڈاکٹر ریڈفیلڈ نے کہا کہ وبا کے دوران سب سے بڑی ڈھال چہرے کا ماسک ہے۔ اگر پوری قوم اگلے چھ آٹھ ہفتوں تک ماسک پہنے تو وبا تھم جائے گی۔انہوں نے کہا کہ70 فیصد بیماری اس لیے پھیلتی ہے کہ لوگ ماسک نہیں پہنتے۔ باراز کو بھی بند کیا جانا چاہیے، کیونکہ وہاں زیادہ وقت گزارنے والے سماجی فاصلے کا خیال نہیں رکھتے اور ماسک نہیں پہنتے۔