تعلیم ہے ا س دور میں امراض ملت کی دوا

0
0

خواجہ یوسف جمیل
بائلہ منڈی ،پونچھ
انسان کے لئے تعلیم خوراک کی طرح ضروری ہے کیونکہ تعلیم سے انسان حق اور باطل میں فرق محسوس کرسکتا ہے۔مرکزی حکومت کی جانب سے ملک میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے بہتر سے بہتر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں تاکہ ملک کی نوجوان نسل اس تعلیمی روشنی سے اپنی زندگیوں کو منور کر سکے۔لیکن اس کے باوجود بھی بچوں کی کثیر تعداد اسکول تک نہیں پہنچ پائی ہے۔بچوں کی اسکول سے دوری کے پیچھے متعدد وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ بچے اسکول تک رسائی اصل نہیں کرسکتے۔خصوصی طور پر بچیاں اس دور میں بھی ملک کے متعدد علاقاجات میں تعلیم کے زیور سے محروم ہیں۔
اگرچہ جموں کشمیر کے ضلع پونچھ کی بات کی جائے تو یہاں بھی بچوں کی کثیر تعداد اسکول تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔متعدد بچے اسکول تک بالکل نہیں پہنچ پاتے۔لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو تعلیم کو درمیان میں چھوڑ دیتے ہیں ۔اور گھریلو کام کاج میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔کچھ کو متعدد پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے۔انھیں طالبات میں سے ہی پونچھ کے علاقہ سرنکوٹ کی خالدہ نامی ایک طالبہ ہے، جو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق رکھتی تھیں لیکن اسکول آنے جانے لئے سازگار ماحول نہ ہونے کی وجہ سے انہیں عصری تعلیم کو قربان کرنا پڑا لیکن اسکے باوجود انکے دل میں تعلیم حاصل کرنے کی تڑپ برقرار رہی۔
گھر سے دینی تعلیم کے حصول کے لئے انھیں اجازت دی گئی۔وہ کہتی ہیں کہ ” میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہرممکن جدوجہد کرتی رہی۔لیکن مخلوط تعلیمی نظام کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکی۔میرے جیسی کئی لڑکیاں ہیں جو مخلوط تعلیمی نظام کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکیںہیں۔ اگر اس وقت لڑکیوں کی تعلیم کے لئے مخصوص تعلیمی ادارہ ہوتا تو آج میں اعلی تعلیم حاصل کر چکی ہوتی۔میری ادھوری تعلیم نے مجھے بارہا سوچنے پر مجبور کیا کہ میں ناخواندہ ہونے کی وجہ سے اس سماج میں کیسے رہوں گی؟لیکن مجھے اس بات کی فکر بار بار پریشان کرتی تھی کہ میں زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہوں اور زندگی کے ایام کیسے گزار پاو¿ں گی؟لیکن میری شادی کے بعدمیں نے اپنے شوہر کے ساتھ اپنی ادھوری تعلیم کی بات کرنے کی بار کوشش کی لیکن میں یہ سوچ رہی تھی کہ اگر میں نے تعلیم جاری رکھنے کے بارے میں اپنے شوہر سے بات کی تو شاید وہ مجھے اس کی اجازت نہ دیں اور میری یہ کوشش ہونہ ہو ناکام ہوجائے گی۔
اسی کشمکش میں ایک سال کا وقت گزر گیا۔تاہم میں نے جب اپنے شوہر کے مزاج کو پرکھا تو پھر میں نے ان سے اپنی تعلیم جاری رکھنے کی بات کی تو انھوں نے مجھے اس کی اجازت دے دی۔بہرحال میں نے نویں جماعت میں گورنمنٹ گرلز ہائر سکینڈری اسکول شیش محل پونچھ میں داخلہ لیا۔ میرے شوہر ملازم نہیں ہیں ۔ابھی وہ بھی اپنے تعلیمی دور سے گزر رہے ہیں۔لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے مجھے تعلیم حاصل کرنے کے لیے میری حوصلہ افزائی کی۔میں اپنے تمام اساتذہ کی مشکور ہوں کہ جنہوں نے میری مدد کی ۔“
آج خالدہ دسویں کا امتحان دے چکی ہیں۔وہ مزید کہتی ہیں کہ” میں اپنی تعلیم آگے بھی جاری رکھوں گی اور جہاں تک ہوسکے گا اعلی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کروں گی۔مجھے اس بات کا فخر ہے کہ میر ے شو ہر نے میری تعلیم جاری رکھنے میں میری مدد کی۔گورنمنٹ گرلز ہائر سکینڈری اسکول شیش محل کے ایک مدرس عادل حمید کہتے ہیں کہ”اس اسکول میںہر سال ہمارے پاس بہت ساری طالبات آتی ہیں ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہم ان کی تعلیم کے لئے بہتر انتظام کرسکیں ۔موجودہ دور کی ترقی کے مد نظر طلبا کے ساتھ ساتھ طالبات کو بھی ترقی کی راہوں پر گامزن ہونے کی سخت ضرورت ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ طالبات بھی تعلیم حاصل کرنے میں اول صف میں رہتی ہیں ۔لیکن جموں کشمیر کے مختلف علاقاجات کے ساتھ ساتھ اگرضلع پونچھ کی بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کے کئی دیہی علاقوں میں آج بھی لڑکیوں کی تعلیم کے مقابلے میں لڑکوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ۔اس خلا کو پورا کرنے میں مختلف فلاحی تنظیمیں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ۔کیونکہ بعض والدین خودتعلیم کی روشنی سے محروم ہوتے ہیں ۔ان کے نزدیک بیٹیاں صرف اس لئے پیدا ہوتی ہیں کہ وہ پہلے تو اپنے والدین کی خدمت کریں اور جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھیں تو شادی کرکے انھیں شوہر اور اسکے والدین کی خدمت کرنے میں لگادیاجاتا ہے۔
دراصل مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعلیم زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔کسی نے اس کا نقشہ کچھ اسطرہ بیان کیا ہے۔”مرد کی تعلیم فرد کی تعلیم ؛عورت کی تعلیم خاندان کی تعلیم “ عورت کا تعلیم یافتہ ہونا اس لئے ضروری ہے کہ ایک تعلیم یافتہ عورت معاشرے کی بہتر تخلیق میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے ۔تعلیم یافتہ عورت اپنے بچوں کو بہتر تعلیم سے نواز سکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں نا خواندہ عورت اپنے بچوں کی صحیح پرورش کرنے سے قاصر رہتی ہے ۔سماج کے ہر فرد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی بہن بیٹیوں کی تعلیم پر اتنی ہی توجہ دیں جتنی کہ اپنے بچوں کی تعلیم پر دیتے ہیں تاکہ ہمارے معاشرے میں جنسی امتیازکی کوئی جگہ نہ بچے۔

(یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیاایوارڈ2019کے تحت لکھا گیا ہے)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا