تعلیم نسواں کے علمبردارڈاکٹر عبد الباری کے انتقال سے ملت کا عظیم نقصان: قاری محمد طیب قاسمی

0
0

آنند نگر مہراج گنج (عبید الرحمن الحسینی) مشرقی اترپردیش کی مشہور شخصیت وتعلیم نسواں کے علمبردار ڈاکٹر عبد الباری کے انتقال پر دارالعلوم فیض محمدی ہتھیاگڈھ ،لکشمی پور ، مہراج گنج میں سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال رکھتے ہوئے ایک تعزیتی نشست ادارہ کے سربراہ اعلیٰ مولانا قاری محمد طیب قاسمی کے صدارت میں منعقد ہوئی۔
تعزیتی نشست سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم فیض محمدی کے سر براہ اعلیٰ مولانا قاری محمد طیب قاسمی نے کہا: ڈاکٹر عبد الباری کا انتقال پوری ملت اسلامیہ کیلئے عموماً وتعلیمی حلقوں کے لئے خصوصاً ایک دل دوز سانحہ ہے، ویسے تو مرحوم نے زندگی کے ہرشعبہ میں کارہائے نمایاں خدمات انجام دیا مگر آپ کی توجہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ ملت کو یہ احساس دلانے میں بھی ہمیشہ رہی کہ تعلیم سے منہ موڑنے کے نتائج بہت ہی بھیانک ہوسکتے ہیں۔ اسی فکر کی وجہ سے آپ نے پوری زندگی اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ تعلیم نسواں کو عام کرنے کی پرزور وکالت کی اور اپنی فکر کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دینی مزاج سے ہم آہنگ کئی عدد عصری ادارے بھی قائم کئے،اور جب بھی موقع ملا آپ نے تعلیم نسواں کے تئیں ملت کو بیدار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پورا خطہ واقف ہے کہ آپ نے اپنے رفقاء کار کے شانہ بہ شانہ ہو کر علوم نافعہ کی ترویج واشاعت کی ایسی تحریک چلائی کہ جس سے نہ صرف یہ کہ ملت اسلامیہ کا سر اونچا ہوا بل کہ اپنی مفکرانہ لیاقت کے ذریعہ ملک بھر میںڈومریاگنج کی شہرت وعظمت کا باعث بھی بنے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے زہد وتقوی، تواضع وخاکساری، مجاہدانہ زندگی ، سرگرمی عمل ، اخلاص واحتساب کی دولت بے بہا نے آپ کو خلق خدا کا محبوب بنادیا تھا۔
دارالعلوم فیض محمدی کے ناظم اعلیٰ مولانا سعد رشید ندوی نے اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: ڈاکٹر عبدالباری کے انتقال سے علم کا ایک روشن چراغ بجھ گیا، جو کئی دہائیوں سے پروانچل میں اپنی روشنی بکھیر کر جہالت کی تاریکی کو ختم کرنے کیلئے کوشاں تھا۔اللہ ملک وملت کو اس کا بدل عطا فرمائے۔ آمین۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ آپ تعلیمی کارناموں وملی خدمات کے حوالے سے اپنے عظیم پرکھوں کے سچے امین اور قوم وملت کے مخلص خادم تھے۔ عمر بھر تعلیم نسواں کو فروغ دینا ہی آپ کا خاص موضوع تھا ، یہی وجہ رہی کہ ہزار مخالفتوں کے باوصف ١٩٥٤ میں ڈومریا گنج میں کلیۃ الطیبات کی بنیاد رکھ کرنہ صرف مسلم بچیوں پر احسان کیا بل کہ اس خطہ کو بھی شہرت اور ایک نئی پہچان دلائی۔
مولانا ندوی نے کہامزید کہا کہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ خداوند عالم کی طرف سے تعلیمی میدان میں گہری بصیرت اور انتظامی امور میں مہارت کے علاوہ محاسن وکمالات میں جس قدر بلندی آپ کو نصیب ہوئی تھی ، وہ قابل رشک ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ آپ پوری فکر مندی اورخوبصورتی کے ساتھ نظام تعلیم کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے ایک مخلص خادم کی حیثیت کا م کرتے رہے اور گراں قدر خدمات کا سلسلہ تادم واپسیں جاری رہا۔
دارالعلوم فیض محمدی کے مہتمم مولانا محی الدین قاسمی ندوی نے اپنے بیان میں کہا کہ: ڈاکٹر عبد الباری کے انتقال سے پوری ملت اسلامیہ غم میں مبتلا ہے ، بے چینی اور تکلیف کا شکارہے ، مایوسی قلب میں گھر گئی ہے ،علمی وغیر علمی حلقوں میں سوگ وماتم چھایا ہوا ہے، اب تو صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں، کیوں کہ یہی دستور حیات ہے ۔ اب ہم خدا سے دعاء گو ہیں کہ ان کا جانشیں امت مسلمہ کو میسر فرمائے، چوں کہ ایسی جامع صفات کی حامل شخصیات کسی خطہ کو بڑی مشکل سے نصیب ہوتی ہیں ، یقینا مرحوم کی شخصیت بے پناہ علم وفضل کے ساتھ خاندانی نجابت وشرافت کا پیکر تھی۔ وہ ایک مہمان نواز شخصیت کے مالک تھے، ملت اسلامیہ کے لئے درد مند دل رکھتے تھے، اللہ ان کے حسنات کو شرف قبولیت بخشے
تعزیتی نشست میں مفتی احسان الحق قاسمی نائب مدیر ماہ نامہ احیاء اسلام ، ڈاکٹرمولانا محمد اشفاق قاسمی، مولانا وجہ القمر قاسمی،، مولانا شکراللہ قاسمی، مولانا محمد یحیٰ ندوی، مولانا محمد صابر نعمانی،حافظ ذبیح ا للہ ، ماسٹر محمد عمر ، ماسٹر جاوید احمد، ماسٹر جمیل احمد ، ماسٹر فیض احمد ، ماسٹر شمیم احمد ، ماسٹر صادق علی، ماسٹر عصب الدین وغیرہ موجودتھے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا