بائکاٹ گودی میڈیا, سیو نیشن !!!

0
0

 

احساس نایاب ( شیموگہ , کرناٹک )
ایڈیٹر گوشہ خواتین بصیرت آن لائن

جب صحافت کو ملک کا چوتھا ستون قرار دیا گیا تھا اُس وقت ہمارے رہنماؤں نے یہ خواب میں بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ اس چوتھے ستون کو سنبھالے رکھنے والے خود کو صحافی کہنے والے چند ڈلے قسم کے ضمیر فروش, بے ایمان, صحافیوں کے نام پہ بدنما داغ, فرقہ پرستوں کے ہاتھوں کتھ پتلی بن کر ملک کا ہی سودا کردینگے ……
.
جن کی ذمہ داری اقتدار پہ بیٹھے حکمرانوں سے سوال کرنا اُن کی کمیوں, خامیوں, ظلم و زیادتیوں پہ انگلی اٹھانا , مظلوموں کی آواز بن کر اُن پہ ہورہے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے اُن کے حقوق کی مانگ کرنی ہے اگر وہی فتین بن جائیں اور اپنی ذمہ داریوں کو بالائے طاق رکھ کر حکومت کے تلوے چاٹنے لگ جائیں, ظالم حکمرانوں کے پیچھے دم ہلاتے ہوئے لال ٹپکائیں تو اُس ملک کی نئیا بیچ منجدھار تک پہنچنے سے قبل ساحل پہ ہی کھڑی ہچکولے کھانے لگ جائے گی.
ایسے میں اُس ملک کی عوام کا بیڑہ تو غرق ہوگا ہی ساتھ ہی پورے ملک کا بھی ستیاناس ہونا یقینی ہے.

کیونکہ کسی بھی ملک کا وقار اُس کی آن بان شاں , خوشحالی , فلاح و بہبودی صرف اور صرف وہاں کی بھائی چارگی , اتحاد اور وہاں کے انصاف سے ہے ورنہ جنگ و جدل بد امنی اُس ملک کا مقدر بن جائے گی اور ایسے ماحول میں کسی بھی انسان کا جینا دوبھر ہے ……
شاید اسی لئے این ڈی ٹی وی کے سینئر صحافی روش کمار نے اپنے ایک انٹرویو میں عوام سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ اگر ملک کے لئے کچھ کرنا ہو تو کچھ ماہ کے لئے ٹی وی اور موبائل دیکھنا بند کردو یعنی گودی میڈیا کو دیکھنا, سننا بند کردو …….
عوام کے لئے رویش کمار کی یہ تجویز یقیناً قابل قبول تھی کیونکہ گودی میڈیا کی وجہ سے پچھلے 6 سالوں میں ملک کے جو حالات بنے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے تو ہیں نہیں …….
کہ کیسے بی جے پی میڈیا پہ قابض ہوکر ملک کی جمہوریت یہاں کی سالمیت گنگا جمنی تہذیب بالخصوص انسان کی سوچ ,فکر و ذہنی سکون پہ لگاتار حملہ کروا رہی ہے اور افسوس کہ اس خوفناک دور کا آغاز 2014 کے انتخابات سے لے کر آج تک مثلثل جاری ہے ……
بی جے پی کم آر ایس ایس نے الیکٹرانک میڈیا کو مکمل اپنے قبضے میں لے کر چند دلالوں کو اپنا زرخرید غلام بنالیا جنکا استعمال جھوٹا پروپگینڈا پھیلانے, بھاجپا کی تائید کرتے ہوئے مودی کی جئے جئے کار کرنے , موذی کو بھگوان, چھپن انچ والا سوپرمین اور ملک کا مسیحا بناکر پیش کرنے کے لئے کیا جارہا ہے ……….
ساتھ ہی دوسری جانب بھولی بھالی عوام کو گمراہ کرکے بنیادی مدعوں سے بھٹکانے کے لئے گلے میں مودی کے نام کا پٹہ پہنے ہوئے ان دلال اینکرس کو ہندو مسلمان کے نام پہ کارڈ پھینکنے مذہب کے نام پہ عوام کو آپس میں لڑوانے , اسلام کے خلاف نفرت کا زہر گھولنے کی کھُلی چھوٹ دے دی گئ ہے …….
جس کے چلتے گودی میڈیا بھاجپائیوں کی طوائف بن کر صبح شام سنگھی دہشتگردوں کے اشاروں پہ مجرہ کررہی ہے ……..
عوام کے آگے ہردن من گھڑت مصالحے دار جھوٹی و بےبنیادی خبریں پیش کرتی ہے, عام لوگوں خاص کر خود کو بھکت کہنے والے پرانیوں کو ورغلاتی رہی ہے جس کے نتیجہ شمبھو جیسے درندوں کی پیدائش ہوئی اور جنید, افرزول جیسے معصوم قربان ہوئے, ملک بھر میں فسادات اور لنچنگ جیسے واقعات رونما ہوئے …….
اور ان دلال چاٹوکار اینکرس کے زہریلے تبصرون کی قیمت اقلیتوں بالخصوص دلت و مسلمانوں کو ان آدم خور بھکتوں کی درندگی کا شکار ہوکر ادا کرنی پڑی ہے ……
.
ان مفاد پرست دیش دروہی اینکرس نے ملک کی صدیوں پرانی بھائی چارگی کو نفرت کی آگ میں اس قدر جھلسا دیا ہے کہ اب ہندوتوا کے نام پہ کھُلے عام تانڈاؤ مچایا جارہا ہے, مسلمانوں سے جبرا اسلام مخالف نعرے کہلوانے کی کوشش کی جاتی ہے نہ کہنے پہ انہیں ہندو مخالف , دیش دروہی بتاکر ہجومی تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے اور ان سب کے پیچھے بی جے پی, آر ایس ایس کے ساتھ گودی میڈیا بھی شریک ہے برابر کی ذمہ دار ہے

دراصل آج صحافت تجارت بن چکی ہے اور ان چینلس کا مقصد محض اپنی ٹی آر پی , ریٹنگ, ایڈورٹائزمنٹ اور حرام پیسہ کمانے تک محدود ہوچکا ہے اور یہ اپنے مفاد کے لئے عوام کو بانٹنے, ملک کو توڑنے کے سوا کچھ نہیں کررہے انہیں کی چلائی جانے والی رپورٹنگ, ڈبیٹس و پروگرامس ہیں جو اسٹوڈیو میں بیٹھ کر ملک کے کئی علاقوں میں خونی گروہ تیار کرتی ہیں, اور انہیں کی وجہ سے گروہی تشدد میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ……..

مثلاً زی نیوس, آج تک, رپبلک ٹی وی , انڈیا نیشن جیسے کئی ایسے نیوز چینلس ہیں جن کا کام ہی سرکار کی ناکامیوں پہ پردہ ڈالنا موذی کو ہیرو اور مسلمانون کو ویلن بناکر پیش کرنا ہے …….
ان چینلس پہ دکھائی جانے والی خبروں پہ اگر غور کریں تو سمجھ آئے گا کہ کیسے یہ چاٹوکار اینکرس اے سی اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر ایک ہی پل میں پورے ملک میں آگ لگادیتے ہیں ان کی رپورٹنگ سے ایسا محسوس ہوتا ہے مانو ہمارا ملک جنگ کا وسیع میدان ہو اور ہندو مسلمان ایک دوسرے پہ ہتھیار تانے آمنے سامنے فوج بندی کئے ہوں جس میں حق گو سچے دیش بھکت ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستانی دہشتگرد بتاکر انہیں سالوں سال زندانوں میں پھینکوایا جاتا ہے اور اپنی اس کوشش کو کامیاب کرنے کے لئے ڈبیٹس, اسپیشل پروگرام کے نام پہ یہ اینکرس اسلامی لباس پہنے کسی جاہل نام نہاد مولانا, ماتھے پہ تلک سجائے پنڈت یا سر پہ سفید ٹوپی پہنے منتری یا فراح جیسی جاہل قسم کی عورتوں کو بلاکر لائیو ساری دنیا کے آگے ایک دوسرے سے لڑوا کر ملک کا تماشہ بناتے ہیں اور اس بیچ گالی گلوج کی جاتی ہے اتنا ہی نہیں بات ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے اور ان کے ان ڈیبیٹس کا اہم موضوع ہی ہوتا ہے ہندو مسلمان , مولانا, پاکستان کشمیر , طلاق اور طالبان …….
اس ٹی آر پی, ریٹنگ کے چکر میں بھلے ساری دنیا کے آگے ملک کا سر شرم سے کیوں نہ جھک جائے ان دیش دروہی اینکرس کو اپنے مفاد سے مطلب ہے ……..

اگر ان میں ملک کے لئے تھوڑی بھی وفاداری مخلصی ہوتی تو یہ اپنے پروگرامس و ڈبیٹس میں ملک کو برباد کرنے والی ہوائی باتوں کے بجائے زمینی حقائق پہ توجہ دلاتے جس میں ملک کے اہم مثائل کا ذکر ہوتا , عوام کی پریشانیوں کا تذکرہ , بےروزگاری پہ سوال , کسانوں کی پریشانی اور اُن کی خودکشی کے واقعات کو اجاگر کرتے, دن میں سینکڑوں کی تعداد مین ہورہے بلتکار کے معملوں پہ آواز اٹھاتے, عورتوں پہ ہورہے مظالم, بندھوا مزدوری, بچوں و عورتوں پہ ہورہے جنسی تشدد کے واقعات , بھاچپائیوں کی اور سے دئے جانے والے اشتعال انگیز بیانات, ہاسپٹلس میں ایکویپمنٹس نہ ملنے کی وجہ سے ڈاکٹرس و میڈیکل اسٹاف کی ہورہی اموات, ایجوکیشں کے نام پہ مچی لوٹ, اعلٰی عہدوں پہ فائز ہوکر کی جانے والی دھاندلیوں , رشوت خوری , پولس کسٹڈی میں بےگناہ نوجوانون کے ہورہے جھوٹے اینکاؤنٹرس تو کہیں ایماندار پولس آفسروں کے قتل کی وارداتیں,
روز بروز بڑھتی مہنگائی سے غریب مڈل کلاس طبقے کی مجبوریوں جس کی وجہ سے ملک میں بڑھ رہے جرائم پہ بات کرتے ہوئے موجودہ سرکار و انتظامیہ سے سوال کرتے ان حالات کے ذمہ داروں قسوروارون کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے سرکار کی ناکامیوں و لاپرواہیوں کو عوام کے آگے اجاگر کرتے ہوئے سرکار کو یہ احساس دلاتے کہ کیسے غیر جانبدارانہ لاک ڈاؤں کی وجہ سے آج ملک کی معیشت تباہ ہوگئی , نوٹ بندی نے تو ملک کو تباہ کیا ہی تھا رہی سہی کثر اس غیرمنصوبہ بند لاک ڈاؤن نے پوری کردی جس کی وجہ سے ابھی بھی غریب مزدوروں کو اذیتیں تکالیف اٹھانی پڑ رہی ہیں سینکڑوں ٹرین کی پٹریوں پہ, سڑک حادثوں میں, پیدل طئے کررہے طویل سفر کی وجہ سے جان بحق ہوگئے ہیں

کاش میڈیا اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ان تمام مدعوں پہ سرکار و انتظامیہ کو گھیرتی , گروہی تشدد لنچنگ پہ سوال کرتی تو آج اس قدر جرائم میں اضافہ نہ ہوتا ………
لیکن نہیں ان دلالوں کو تو موذی کے اشاروں پہ ناچتے ہوئے عوام کو سڑکوں پہ لاکر خود کا بینک بیلنس بڑھانا ہے …….
ایسے میں ملک کو نہ پاکستان سے خطرہ ہے نہ چین سے نہ ہی نیپال جیسے کسی بھی باہری دشمن سے بلکہ جو بھی خطرہ ہے وہ ان چمچوں منافقوں و چاٹوکاروں سے ہے ……..
یقین جانیں آج کورونا وائرس سے کئی گنا زیادہ خطرناک یہ گودی میڈیا وائرس ہے جو ملک کو اندرونی طور سے کھوکھلا کرچکی ہے اور ان وائرسوں میں سر فہرست ہیں ارنب گوسوامی, سدھیرچودھری, دیپک, انجنا اوم کشیف, روبیکا لیاقت , امیش دیوگن اور ایک چھوٹے گاؤں میں پلا پرنسپل کا نالائق بیٹا چورسیہ جو چورسیہ کم جوکر زیادہ لگتا ہے جس نے اپنے کرئیر کی شروعات کرنے کے لئے شہروں میں دھکے کھانے کے بعد مزید انڈیا نیوس سے دھکے مار کر نکالے جانے پہ نیوس نیشن میں اپنے لئے سہارا تلاش کرلیا اور خود کو زیادہ سے زیادہ پرموٹ کرنے ,ٹی آر پی بڑھانے کے لئے کبھی شاہین باغ تو کبھی تبلیغیوں کا سہارا لیتے ہوئے ان کے نام کی تسبیح پڑھنی شروع کردی
سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ یہ اپنی ان بےتکی حرکتوں کی وجہ سے کئی بار کئی موقعوں پہ لوگوں کی جوتیاں کھا چکا ہے باوجود جوکر والی حرکتوں سے باز نہیں آتا اور اسی کا دیکھا دیکھی خود کو اور ذلیل کرنے کے خاطر امیش دیوگن نامی ملعون نے خواجہ اجمیری رحمتہ اللہ کی شان میں گستاخی کرنے کی حماقت کردی جس کے بعد مسلمانوں میں وقتیہ جوش خون میں اُبال تو ضرور آیا لیکن یہ اُبال ہمیشہ کی طرح پانی کے بلبلوں کے مانند ختم بھی ہوگیا ویسے مسلمانوں کی یہ ادا کوئی نئی نہیں ہے ………. گودی میڈیا کی جتنی شکایت کرتے ہیں اتنا ہی اُن چینلس کو دیکھ کر لائن کمنٹ شئر کرکے اُن کی ریٹنگ بڑھاتے ہوئے انہیں ایمپور کرتے ہیں اللہ جانیں یہ نادانی ہے یا بیوقوفی ؟

بہرحال جس طرح سے ان دلالوں نے ایک مخصوص طبقے کو ٹارگیٹ کرکے ملک مخالف بناکر پیش کیا ہے اُس کا سب سے زیادہ اثر لاک ڈاؤں میں پولس کے ہاتھوں پڑی لاٹھیوں اور ہاسپٹلس میں کی جانے والی بدسلوکی سے صاف نظر آگیا اور اس کا بھی کریڈٹ ہم ان دلالوں کے نام کرینگے …….
جنہونے نظام الدین مرکز و تبلیغیون کے نام پہ ایسے ایسے قسیدے پڑھے کہ کچھ وقت کے لئے کرونا بھی مسلمان بن گیا وہ تو شکر ہے مسلمانوں کے ایمانی جذبہ کا کہ اتنا سب کچھ سہنے سننے کہ باوجود جب پلازمہ عطیہ کرنے کی بات آئی تو سب سے آگے یہی تبلیغی بھائی تھے جنہیں دہشتگرد کہتے میڈیا کا منہ نہیں سوکھ رہا تھا ……..

یہ تو وہ زہریلے ناگ ہیں جنہونے ملک کے لئے اپنی جان دینے والے فوج کے جوانوں کی ایمانداری اُن کی حب الوطنی کو بھی شک کے کٹہرے میں لاکھڑا کردیا تھا ایسے ضمیرفروش صحافیوں سے امید بھی کیا کی جاسکتی ہے ………..

اب تو یوں محسوس ہوتا ہے مانو
میڈیا سپریم کورٹ سے بھی سپریم ہوچکی ہے ؟
وزیراعظم, وزیر اعلی سے بھی اعلی ہے
شاید اسی لئے جب کرناٹک چیف منسٹر نے ایک انٹرویو کے دوران عوام سے خطاب کرتے ہوئے ہدایت جارہی کی تھی کہ کوئی بھی نیوس چینل یا نیتا کورونا سے جوڑ کر تبلیغیوں کا نام نہیں لے گا اگر کسی نے لیا تو اُس پہ سخت سے سخت قانونی کاروائی کی جائے گئ
باوجود ڈلال اینکرس باز نہیں آئے

ایسے میں ہم یہی کہیں گے کہ کوٹھے کی طوائف بھی اپنے پیشہ سے باوفا ہوتی ہے بیشک مجبوری کے تحت اپنا جسم بیچتی ہے لیکن اپنے ضمیر کا سودا ہرگز نہیں کرتی نہ ہی کسی کا گھر تباہ کرتی ہے جبکہ یہاں تو ملک کو ہی تباہ کیا جارہا ہے, ملک کو بارود کے ڈھیر یہ کھڑا کردیا ہے ایسے میں جمہوریت کا جنازہ بڑی ہی دھوم سے اٹھتا ہے
کیونکہ ضمیر فروش بن کے بیٹھے ہیں صحافت کے علمبردار
ایسے میں دنیا تباہ نہ ہو تو اور کیا ہو ؟

اگر ملک کو اس تباہی سے بچانا ہے تو ہمیں اس گودی میڈیا کو دیکھنا بند کرنا ہوگا اور جب تک ہم انجنا, روبیکا, ارنب, سدھیر, دیپک, چورسیہ , دنیش جیسے فتین اینکروں کا سوشیل بائکاٹ نہیں کرتے اُس وقت تک ملک کے حالات بہتر ہونا ناممکن ہے

وہ کہتے ہیں نہ جھوٹ کو بھی بار بار چلا چلا کر کہا جائے تو سننے والوں کو جھوٹ بھی سچ لگنے لگتا ہے
یہاں پہ بھی وہی کیا جارہا ہےجھوٹ کا چرچہ اتنا کیا گیا کہ سچ بیچارہ معصوم بچے کی طرح دُبک کے رہ گیا
ویسے آج جو کچھ ہورہا ہے اس میں ہم مسلمان کم ذمہ دار نہیں ہیں انگریزون کی غلامی سے آزاد ہونے کے باوجود ہماری سوچ کبھی آزاد نہیں ہوسکی
ہم نے کبھی خود کو مضبوط بنانے کی جانب توجہ نہیں دی بلکہ ہمیشہ اوروں میں سہارا تلاش کرتے رہے
چاہے بات تعلیمی میدان کی ہو, میڈیکل سے جُڑی ہو یا سیاست میں حصہ داری اور میڈیا ہاؤزس کی قیام کی ہو ہر میدان ہر شعبہ میں ہم پچھڑے ہیں
73 سالوں میں جتنا ہم نے پایا ہے اُس سے سو گنا زیادہ ہم نے کھویا ہے
جو پیسہ جلسوں مشاعروں و دیگر پروگرامس میں ہم بےجاخرچ کرتے ہیں کاش اُس کا کچھ حصہ بھی اگر ہم تعلیمی میدان , ہاسپٹلس اور میڈیا ہاؤزس بنانے کے لئے استعمال کرتے تو آج ہم یوں سرعام ذلیل و خوار نہیں کئے جاتے
بہرحال ابھی بھی وقت ہے اگر سچی کوشش جدوجہد کرینگے تو ان شاءاللہ ہمارا اپنا میڈیا ہاؤز بھی بن سکتا ہے اور ہم بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتے ہیں بشرط ایماندار صحافت کی تلاش میں آستین میں پل رہے سانپوں, منافق مخبروں کے ہتھے نہ چڑھیں …………

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا