نریندر سنگھ بشٹ
نینی تال، اتراکھنڈ
ہندستان ایک زرعی ملک ہے۔کھیتی ملک کی ضرورت تو ہے ہی لیکن کسانوں کے لیے ذریعہ معاش بھی ہے۔ کسان اپنا خون پسینہ ایک کرنے کے بعد لوگوں کا پیٹ بھرنے اور ان کی زندگیوں کو خوشگوار بنانے کا اہم کام کرتا ہے لیکن بہت افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں بیچارے کسانوں کی ذاتی زندگی بہت اچھی نہیں ہوتی۔ 2012کی ایک سرکار ی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اس ملک کی22فیصد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔ملک کے چھوٹے اورمتوسط کسان،زرعی اراضی کا مالکانہ حق نہ رکھنے والے مزدورودستکار اپنی مالی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے مہاجنوں اور ساہوکاروں سے اکثر قرض لیتے رہتے ہیں۔ انہیں چھوٹی چھوٹی مالی ضروریات اکثر وبیشتر رہتی ہی ہیں کیونکہ بینک بھی اس طبقے سے لین دین کرنے میں دریا دلی کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں۔ لیکن اچھی اور خوش آئند بات یہ ہے کہ معاشی تنگی سے نمٹنے کے لئے ان لوگوں نے چھوٹے چھوٹے خود کفیل گروپ بناکر اپنا کام شروع کیاہے تاکہ اپنی مالی ضروریات کی تکمیل شاید کر سکیں یہی وجہ ہے کہ خود کفیل گروپ اس طبقے کے لئے اصل ذریعہ بن گئے ہیں۔
ملک کے 6266838 گروپوں میں سے صرف اتراکھنڈ میں 30589گروپ ہیں یہ گروپ مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ آج کے دور میں اس طرح کے گروپوں کی اہمیت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ آج اس ملک کا ہر شخص کسی نہ کسی گروپ سے وابستہ ہے خواہ وہ خود کفیل گروپ ہو ، نیٹ ورکنگ ہو یا پھر سوشل میڈیا کا گروپ ہو۔
سینٹرل ہمالین انوائر منٹ ایسوسی ایشن نینی تال کے ذریعہ 2018میں ڈی ایس ٹی پروجیکٹ الموڑا و نینی تال میںخواتین کی 33خود کفیل گروپوں کو گود لیا گیا جس میں کل 345خواتین ہیں۔ مذکورہ پروجیکٹ کے بعد ان گروپوں کی خواتین نے 475000روپئے کی بچت کی ہے۔ خواتین کے ہی گروپ بہت ہی سرگرم اور نہایت ہی فعال ہیں۔ یہ خود کفیل گروپ اپنی بچت سے لوگوں کو پیداواری کاموں،گھریلو ضرورتوں کے لئے کم شرح پرقرض مہیاکراتے ہیں۔ موضع تولی کی دیپا دیوی نے بتایا کہ اس طرح کے خود کفیل گروپ سے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کی میٹنگوں سے علاقے میں چل رہے سرکاری کاموں پروجیکٹو ں اور متعدد سرکاری اسکیموں کی معلومات بھی ہو جاتی ہے۔گزشتہ دو برسوں سے سماجی تنظیم چیا کے ممبر و نمائندہ لوگوں کو ان گروپوں اور میٹنگوں کے توسط سے اس طرح کی معلومات بھی مہیا کرا رہے ہیں۔
اسی موضع کی ایک گروپ ممبر پاروتی دیوی نے دوران گفتگو بتایا کہ وہ پہلے اپنے بچوں کی خواہشات مار دیتی تھیں کیونکہ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کہ ان کے خواہشات پوری کر سکیں۔جو بھی رقم ہوتی تھی سب گھر کے اہم کاموں میں ہی خرچ ہو جایا کرتی تھی اس لئے بچت کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔لیکن خود کفیل گروپ سے جڑنے کے بعد اب ایسا نہیں ہوتا ہے۔ اب بچت بھی ہوتی ہے اور اپنی ضروریات کے ساتھ ہی بچوں کی خواہشات کی تکمیل بھی۔ان کا کہنا ہے کہ اگر سرکاری اسکیموں کا نفاذ زمینی سطح پر کرانا ہے تو یہ کام خود کفیل گروپوں کے توسط سے ہی کرایا جانا چاہیے کیونکہ کہ اسی میں سب کی بہتری ہے اور اسی کے ذریعہ منظم طریقے سے کام کیا جا سکتا ہے۔
ان منظم گروپوں سے متاثر ہوکر سرکاری سطح پر ان کو بینکوں سے جوڑنے کا منصوبہ بنایا گیا اور بینکوں کے ساتھ دستاویزی کارروائی کو آسان کرکے ان گروپوں کو بینکوں سے جوڑا گیا۔جس کے بعد بینکوں سے ان گروپوں کو قرض دیئے جانے کا بھی انتظام کیا گیا۔آج بینک اس طرح کے گروپوں کو بجٹ کا 4گنا بطور قرض دیتے ہیں۔جس سے ان گروپوں کو کئی طرح کے فائدے ہوتے ہیں۔ بینکوں سے جڑنے کے بعد گروپوں کو جو سب سے اہم فائدہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ گروپ کم سود پر لوگوں کو قرض دے سکتے ہیں اور اگر زیادہ رقم کی ضرورت ہو تو بینک اس طرح کے گروپوں کو چار گنا زیادہ قرض دیتے ہیں،جس سے اس طرح کے گروپوں کو کام کرنے میں کافی آسانی ہوتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ آج خود کفیل گروپوں نے ایسی شکل اختیار کرلی ہے کہ اب اگر کسی سرکار ی و غیر سرکاری تنظیموں کو کوئی کام کرانا ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے اس طرح کے گروپ کی تلاش کرتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ اتراکھنڈ کی خواتین کو مضبوط و مستحکم بنانے میں ان گروپوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔خواتین آج پیسوں کی بچت کے ساتھ ہی ان گروپوں کے ذریعہ اپنا وجود بھی بچانے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ اس طرح کے خود کفیل گروپ اور ان کے تعاون کی ان علاقوں میں سخت ضرورت ہے کیونکہ اسی سے یہاں کی خواتین ترقی کی راہ پاسکتی ہیں۔
دیکھا جائے تو خود کفیل گروپ غریبوں کے لئے اپنا بینک ثابت ہوئے ہیں۔درحقیقت چھوٹے اور متوسط کسانوں کے ساتھ ہی مزدوروں،زمین نہ رکھنے والوں اور دستکاروں کو ایسے بینکوں کی ضرورت ہے جس میں قرض ان کی ضرورت کے مطابق کم سود پر مل جائے اوران کی عزت بھی برقرار رہے۔مطلب قرض بھی ملے اور عزت بھی۔ کہتے ہیں کہ ایک لکڑی کو ہر کوئی توڑ دیتا ہے لیکن جب کئی لکڑیاں ایک ساتھ ہو ں تو ان کو توڑنا مشکل ہوتا ہے۔ بالکل یہی مثال ان گروپوں کے لیے ہے کیونکہ کہ انفرادی طور پر کمزور خواتین جب اجتماعیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گروپ سے جڑ گئیں تو اتنی مضبوط ہوگئیں کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسرں کے لیے بھی سہارا بن گئیں۔ آج ان خود کفیل گروپوں میں خواتین کا اتحاد دیکھ کر یقین ہوجاتا ہے کہ یقینا اتحاد میں ہی طاقت ہے۔
(یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2019کے تحت لکھا گیا ہے)