بھاجپاکادوہرہ معیار

0
0
  •  آصفہ معاملے پراُٹھے طوفان پر’ڈیمیج کنٹرول ‘کے طورپربھاجپانے اپنے دووزرأ کوکابینہ سے باہرکیا،پارٹی کے قومی جنرل سیکریٹری رام مادھوجموں تشریف لائے،پارٹی لیڈران کواعتمادمیں لینے کیلئے ایک اہم میٹنگ کاانعقاد بھی ہوا،اور وزرأ کے استعفے وزیراعلیٰ کوسونپ دئیے، معلوام ہواہے کہ پارٹی میٹنگ میں یہ تاثردیاگیاکہ اس وقت ملک میں جولہراُٹھ چلی ہے، وزیراعظم کی شبیہ بھی بگڑرہی ہے، جموں کی تصویر خراب ہورہی ہے،بین الااقوامی سطح پرمودی حکومت تنقیدکی زدمیں ہے، ایسے میں ہندوایکتامنچ کی ریلی میں شرکت کرنے والے وزرأ کوکابینہ سے باہرکرکے کسی حد تک صورتحال بہترہوسکتی ہے اورایک مثبت پیغام جاسکتاہے، لیکن دوسری جانب یہ بھی فیصلہ لیاگیاکہ پارٹی کی ایک کمیٹی اپنی سطح پروزرأ کے ہندوایکتامنچ ریلی میں شامل ہونے اوروہاں ان کی تقریرکی تحقیقات کرے گی، اورپندرہ دِنوں کے اندر رپورٹ قومی پارٹی صدرامت شاہا کو پیش کرے گی، یہ بھی امکان ہے کہ اگرپارٹی کی تحقیقاتی کمیٹی نے چوہدری لال سنگھ اورچندرپرکاش گنگاکوکلین چِٹ دی تویقینااُنہیں واپس کابینہ میں لایاجاسکتاہے،پارٹی کامانناہے کہ ایساکرنے سے ہی پارٹی اپنی ترجیحات پرکھرااُترسکتی ہے اورپارٹی کی دوہی اہم ترجیحات ہیں جموں کے ’ہِت‘(مفادات )اورہندوئوں کے ’ہِت‘(مفادات) کوتحفظ فراہم کرنا،بھاجپاقیادت کامانناہے کہ وزرأ کی چھٹی کرناان کیلئے ایک بڑادھچکہ ہے، اہلیانِ جموں خاص طورپراکثریتی طبقہ میں پارٹی کی ساکھ کمزورہوگی،پارٹی نے فیصلہ لیاکہ ہندوئوں اوجموں کے مفادات کیساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجائیگا، بھاجپاکے اس مؤقف سے یہ عیاں ہوگیاکہ ہندوایکتامنچ کی ریلی میں شامل ہونااورلوگوں کواشتعال دلانابھی ہندوئوں کے مفادات کیلئے تھا،یعنی پارٹی کے ریاستی صدرست شرمانے اپنے دوکابینہ وزرأ کی ڈیوٹی لگادی کہ وہ ہندوطبقہ کے احتجاجی مظاہرے میں جائیں اورانہیں یقین دلائیں کہ ملزمین کوبچانے کی ان کی اس مہم میں بھاجپااوربھاجپاسے تعلق رکھنے والے وزرأ ان کیساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں، یہ وہاں چوہدری لال سنگھ اورچندرپرکاش گنگاکی تقریروں سے بھی عیاں ہوتاہے،جموں کے مفادات تواچھی بات ہے لیکن یہ کہناکہ ہندئوں کے مفادات کی تکمیل کیلئے اقلیتوں کونظراندازکیاجائے تویہ افسوسناک ہے کیونکہ اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والابھاجپاکاکوئی وزیر آصفہ کے لواحقین کے پاس نہیں گیا، کوئی بھاجپالیڈران کادکھ دردبانٹنے نہیں گیا،اب بھاجپایہ کہہ رہی ہے کہ اُنہوں نے ’اُن کی کمیونٹی‘یعنی آصفہ کی برادری سے تعلق رکھنے والے ان کے وزیرچوہدری عبدالغنی کوہلی کورسانہ بھیجاتھا!یہ انتہائی افسوسناک اورشرمناک ہے کیونکہ اگرچوہدری عبدالغنی کوہلی کوبھی ان مظلوموں کادردسننے بھاجپاکے فرمان کاانتظار کرناپڑے تویہ محترم کوہلی کیلئے بھی شرمناک ہے،حالانکہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے دوسری جماعتوں کے لیڈران بھی رسانہ گئے، میاں الطاف احمد گئے، چوہدری ذولفقارعلی گئے، لیکن ان کی جماعتوں نے یہ نہیں کہاکہ آصفہ کی برادری سے تعلق رکھنے والے ارکان قانون سازیہ کواُس نے رسانہ بھیجا،بھاجپاآصفہ معاملے میں انسانیت کادامن چھوڑکراگرہندوئوں کے مفاد کے نام پہ انسانیت کوشرمسارکرنے پہ آمادہ ہے تویہ انتہائی شرمناک ہے، ایک مندرمیں ایک دیوی کیساتھ انسانیت کوشرمسارکردینے والی درندگی کرنے والوں کادفاع کرناکسی بھی صورت میں ہندوئوں اورجموں کے مفادات میںنہیں ہوسکتابلکہ درندوں ،قاتلوں کوبلاتاخیرسزائے موت دلانے سے ہی ہندوئوں اورجموں کے مفادات کوتحفظ ملے گا اوریہ داغ دھل سکیں گے۔پارٹی دوہرامعیاراپناکراپنے سیاسی مفادات کوترجیح دے رہی ہے جبکہ ظاہری طورپروہ ہندوئوں اورجموں کے مفادات کی محافظ بنتی پھرتی ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا