جموں وکشمیر میں دوہرا معیار نہ اپنایاجائے: الطاف بخاری
لازوال ڈیسک
سرینگر؍؍جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے صدر سید محمد الطاف بخاری نے گذشتہ روز حکومت کی طرف سے درجہ چہارم نوکریوں کے لئے مرتب کردہ نئے بھرتی قواعد کو متعصبانہ نوعیت کا قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اِنہیں واپس لیاجانا چاہئے اور ملک بھر میں بھرتی کے لئے روبہ عمل قواعد کے مطابق اِن میں ضروری تبدیلی لائی جائے۔ یہاں جاری ایک پریس بیان میں بخاری نے اِس حساس معاملہ کو غیر سنجیدگی سے لینے پر انتظامیہ کو نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ یہ نہ صرف لاکھوں بے روزگارنوجوانوں کے مفادات کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ اِس کے جموں وکشمیر کے امن وترقی پر بھی خطرناک نتائج اثرات مرتب ہوں گے۔ اُن کا کہنا ہے ’’4جون 2020کو انتظامیہ کی طرف سے نوٹیفائی کئے گئے نئے بھرتی قواعد میں ایس آر او 202کی شقیں شامل کرنانہ صرف شرمناک بلکہ غیر آئینی ہے‘‘۔الطاف بخاری نے اِس معاملہ میں مرکزی وزیر داخلہ سے ذاتی مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ دو سال کے بجائے پانچ سالہ پروبیشن مدت کرنا اور تنخواہ میں اضافہ یعنی انکریمنٹ سے انکاری ملک بھر کے شہریوں کو حاصل یکساں حقوق کے منافی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ سابقہ عوامی حکومت نے ایس آر او202جموں وکشمیرکے آئین کے مطابق مرتب کیاتھا جوکہ اِس وقت منسوخ ہوگیا ہے۔ انہوں نے سوالیہ انداز میں کہاکہ جب جموں وکشمیر میں راست آئینِ ہند نافذ العمل ہے تو پھر کیوں ایسی صورت میں ایس آر او202 درست ہے۔جب ملک کی دیگر ریاستوں میں آئین کے تحت شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں ،حکومت ِ ہند جموں وکشمیر کے شہریوں کے ساتھ دوہرا معیار اختیار نہیں کرسکتی ۔اِ س اختلاف کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ،جوجتنا جلدی ہو اُتنا ہی بہتر ہے۔ انہوں نے جسٹس (ریٹائرڈ)ایم کے ہانجورہ سربراہی والی لاء کمیشن کی طرف سے پیش کردہ رپورٹ پر بھی جموں وکشمیر حکومت کے موقف پر سوال اُٹھایا ہے جس میں سفارش کی گئی ہے کہ سال 2015کو سرکاری ملازمین کی بھرتی کے لئے نوٹیفائی ایس آراو202کے تحت پروبیشن مدت پانچ سے گھٹا کر دو سال کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی ناگوار بات ہے کہ نوجوانوں کے خلاف ایس آر او 202 کے تحت موجودہ تقسیم جاری رکھی گئی ہے۔ جسٹس (ریٹائرڈ) ہنجوڑہ کی زیرقیادت لا کمیشن نے ان اصولوں کو حکومت ہند کے محکمہ پرسنل اینڈ ٹریننگ کے دفتر میمورنڈم کے مطابق اور ان کے مطابق اور انصاف اور مساوات کے تیار شدہ تصور کے مطابق ہونے کی سفارش کی تھی۔ بخاری نے مشاہدہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت نے ان سفارشات کو کچل دیا ہے۔الطاف بخاری نے کہاکہ یہ تشویش کن امر ہے کہ موجودہ انتظامیہ نے نوجوان مخالف ایس آر او202کو جاری رہا ہے جبکہ جسٹس (ر)ہانجورہ سربراہ والی قانون کمیشن نے محکمہ پرنسپل اینڈ ٹریننگ حکومت ِ ہند کے تحت ’انصاف اور مساوات ‘کے مطابق قواعد کی سفارش کی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت نے اِن سفارشات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ وہ ملازمین جنہوں نے جموں وکشمیر تنظیم نوقانون2019کی تاریخ تک دو سالہ پروبیشن مدت مکمل کر لی تھی ، کو مستقل کیا جائے اور وہ ملازمین جومستقل قریب میں دوسالہ پروبیشن مدت مکمل کر رہے ہیں کی ریگولرآئزیشن پر ہانجورہ لاء کمیشن کی سفارشات کے مطابق غور کیاجائے۔نئے بھرتی قواعد میں پائی جارہی دیگر خامیوں کو اُجاگر کرتے ہوئے الطاب بخاری نے کہاکہ ضلع کیڈر آسامیوں کے لئے اضافی نمبرات کی شق پرمساوی اصول کے خلاف ہے۔انہوں نے سوال کیا ہے کہ کیسے ضلع کے دور دراز اور ناقابل رسائی علاقوں کے امیدوار ضلع کے شہری علاقوں میں رہنے والے امیدواروں جن کی تعلیم وتربیت بہتر ہوئی ہے سے مقابلہ کرسکیں گے۔انہوں نے مطالبہ کیاکہ یہ قاعدہ سراسر غیر منصفانہ ہے جس کو فوری ختم کیاجانا چاہئے۔ امیدواروں سے بھرتی عمل مکمل ہونے پر ڈومیسائل سرٹیفکیٹ فراہم کرنے کے اصرار پربھی انتظامیہ کی نکتہ چینی کی ہے اور کہاکہ نئے بھرتی قواعد میں یہ شق نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ سیاست ذدہ ہے جوکہ جموں وکشمیر میں بے روزگاری کے مسئلہ کے ازالہ میں حکومت کے ارادوں پر سوالیہ نشان ہے۔ تازہ بھرتی قواعد جموں وکشمیر کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے حوصلہ شکن ہیں جن کی نجی سیکٹر میں روزگار کے مواقعوں کی عدم موجودگی سے ساری اُمیدیں سرکاری ملازمتوںپر ہیں۔جموں وکشمیر اپنی پارٹی صدر نے مطالبہ کیا ہے کہ یہ قواعد فوری واپس لئے جائیں اور اِن میں مساوی حقوق اور برابر کام کے لئے برابر تنخواہ کے اصول جس کی ملک کا آئین بھی ضامن ہے، کی پاسداری کرتے ہوئے قواعد میں ترمیم کی جائے۔