تحریر: حافظ میر ابراھیم سلفی
طالب علم
کنزر,بارہمولہ
6005465614
شورش سے بھاگتا ہوں ، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقدیر بھی فدا ہو
لذت سرود کی ہو ، چڑیوں کی چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو
صف باندھے دونوں جانب، بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندی کا صاف پانی ، تصویر لے رہا ہو
آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ
پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو
دنیا کا ہر ایک باشعور فرد اس بات سے واقف ہے کہ اسلام نے ماحولیات کے بچاو کے لئے کس طرح اپنے ماننے والوں کو صراحتاً اور تاکیداً وصیتیں اور نصییتیں کی ہیں.مشرق و مغرب کی طرف دیکھا جاے تو آپ کو کوئی ایسا مذہب نظر نہیں آے گا جو اسلام کی طرح موحولیات کے بچاو کو دین کا حصہ قرار دے. دین اسلام نے اول تا آخر اپنے متبعین کو ظاہراً اور باطناً پاک رہنے کی تاکید و تلقین کی ہے.قرآن کی پہلی آیتیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت عطا کی گئی ,ان میں بھی صفائی اور پاکی کی تعلیم دی گئی.ارشاد باری تعالی ہے کہ
"اے کپڑے میں لپٹنے والے۔
اٹھو پھر (کافروں کو) ڈراؤ۔
اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو.
اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔
اور ناپاکی دور کرو۔”(سورہ مزمل)
امام مسلم نے صحیح مسلم کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کیا ہے کہ”
"الطَّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ "یعنی "صفائی آدھا ایمان ہے”.معلوم ہوا کہ ماحول کو گندگی سے بچانا ,ماحول کو صاف و پاک رکھنا آدھا ایمان ہے”.
عبادات کی قبولیت کے لئے اسلام نے صفائی اور پاکی کو بنیادی شرط قرار دیا.صحیح مسلم کے اندر ہی رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک موجود ہے کہ” لا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ ” (مسلم) ترجمہ:
"اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں کرتا ہے۔”.اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اپنے آپکو مسلم کہنے والا ہمیشہ ماحول کو پاک و صاف رکھنے کی سعی اور کوشش کرتا ہے.فرمان باری تعالی ہے کہ
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوّٰبينَ وَيُحِبُّ المُتَطَهِّرينَ ﴿القرآن)
ترجمہ:
"بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور طہارت اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔”
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ناپاکی اور ناپاک لوگوں کو اسلام کے اندر کوئی جگہ نہیں ,ماحول کو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر تباہ و برباد کرنے والوں سے اسلام براءت کا اعلان کرتا ہے.اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو صفائی کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ” حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ أَنْ يَغْتَسِلَ فِي كُلِّ سَبْعَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا يَغْسِلُ فِيهِ رَأْسَهُ وَجَسَدَهُ "(بخاری ومسلم)
"ہرمسلمان پر اللہ کا حق ہے کہ سات دنوں میں ایک ایسا دن ہوکہ جس میں وہ اپنے سر اور بدن کو غسل دے”.مباشرت ،احتلام ,حیض و نفاس سے پاک ہوکر اسلام نے ایک مسلمان پر غسل کرنے کو واجب اور فرض قرار دیا ہے.امام ترمذی رحمہ اللہ سنن ترمذی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عظیم قول نقل کرتے ہیں کہ ” لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك مع كل صلاة”
"اگر میرا یہ حکم امت پر گراں نہ ہوتا تو میں انھیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے (دانتوں کی صفائی) کاحکم دیتا۔جہاں صفائی اور پاکی کا اتنا اہتمام ہو وہاں ماحول کبھی گندہ نہیں ہوسکتا.
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ماحولیات کے محافظ اور علمبردار تھے .سنن ترمذی کی ایک صحیح روایت کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ "إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ يُحِبُّ الطَّيِّبَ، نَظِيفٌ يُحِبُّ النَّظَافَةَ، كَرِيمٌ يُحِبُّ الْكَرَمَ، جَوَادٌ يُحِبُّ الْجُودَ، فَنَظِّفُوا أُرَاهُ قَالَ أَفْنِيَتَكُمْ وَلا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ ”
"بلاشبہ اللہ کی ذات پاک ہے اور پاکی کو پسند کرتا ہے۔صاف ستھرا ہے اور صفائی کو پسند کرتا ہے۔پس اپنے گھروں کو صاف رکھا کرو اور یہودیوں سے مشابہت نہ کرو.”
دین اسلام نے ماحول کو گندہ کرنے والوں کے لئے قبر کے عذاب کی وعید سنائی ہے اور ماحولیات کے دشمنوں کو ملعون قرار دیا ہے .فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ "اِتَّقُوا اللَّعَّانَيْنِ ، قَالُوا : وَمَا اللَّعَّانَانِ يَا رَسُول اللَّه ؟ قَالَ : الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيق النَّاس أَوْ فِي ظِلّهمْ ”
یعنی "دونوں قابل لعنت چیزوں سے بچو،پیشاب پاخانےسے اور اس شخص سے جو لوگوں کے راستے یا سایے میں پیشاب پاخانہ کرتا ہو”
حدیث کی کتابوں میں بے شمار صحیح احادیث ہیں،جو مختلف پہلوؤں سےصفائی ستھرائی کا حکم دیتی ہیں.ہی وجہ ہے کہ اسلامی فقہ میں سب سے پہلے طہارت کا باب پڑھایا جاتاہے .
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ اسلام اور سچے مسلمان ہمیشہ ماحولیات کے بچاو کی خاطر اپنے آپکو صف اول میں پیش کرتے ہیں.
اللہ تعالی نے اس کائنات کو بے حد خوبصورت بنایا اور ہر نقص سے پاک رکھا ،اسی لئے ہم انسانوں کا کوئی حق نہیں کہ ہم اپنے مفاد کے لئے نظام کائنات کو داو پر لگائیں.
جب دُنیا نے گیسی مادوں کی ایجادات اور اُن کے وسیع پیمانے پہ استعمال کے دور میں قدم رکھا ، صنعتی ترقی کے ذریعے مختلف الانواع ایجادات، گوناگوں تحقیقات ، کیمیائی اور حیاتیاتی دریافتوں کے میدان میں انسان نے بے پناہ ترقی حاصل کی-اِس بے احتساب ترقی کی وجہ سے قدرتی ماحول پر انتہائی بھیانک اثرات مرتب ہوئے ہیں -آج ہر ترقیاتی منصوبہ کسی نہ کسی صورت میں ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے- صنعتی انقلاب کے بعد 1750 ء سے لے کر اب تک زمین کے اوسط درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری فارن ہایئٹ اضافہ ہوا ہے.اور حالیہ صدی کے اختتام تک درجہ حرارت میں 2-1.5 ڈگری فارن ہا یئٹ اضافہ متوقع ہے جو کے ایک نہایت تشویشناک صوررت حال ہے.کائنات تباہی کی طرف گامزن ہیں لیکن ہم غفلت کے شکار ہیں ،وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم ترقی کے ساتھ ساتھ نبوی تعلیمات پر بھی عمل کریں تاکہ انسانیت قدرتی بگاڑ سے محفوظ رہ سکھیں.یہ کائنات,یہ پہاڑ,یہ درخت ,یہ زمین ,یہ پانی و دیگر اشیاء اللہ کی نعمتیں ہیں اور ان کا زوال درحقیقت زوال حیات ہے.
حضرت عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) دعا فرمایا کرتے تھے کہ:
’’ یا اللہ! میں تجھ سے تیری نعمت کے زائل ہوجانے، تیری عافیت کے پلٹ جانے، اچانک مصیبت آجانے اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں”
(صحيح مسلم).دین اسلام تو وہ دین رحمت ہے جو راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بھی صدقہ و نیکی قرار دیتا ہے.ارشاد نبوی ہے کہ ’’ایمان کی ستر یا ساٹھ شاخیں ہیں اور سب سے ادنیٰ شاخ راستے میں سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کردینا ہے”.اس سے معلوم ہوا کہ کوڑے دان( dust bin) استعمال کرنے کی رہنمائی بھی اسلام نے ہی کی ہے.
جنگلات کی کٹائی (deforestation) کے خلاف اسلام نے روز اول سے ہی اپنا علم بلند کرلیا اور جنگل کاری و شجر کاری (reforestation) کو اپنے پیروکاروں پر لازم قرار دیا.ارشاد نبوی ہے کہ
"کوئی درخت چٹیل میدان میں ہو جس کے نیچے آ کر مسافر اور جانور سایہ حاصل کرتے ہوں اور کوئی شخص آ کر بلا سبب بلا ضرورت ناحق کاٹ دے تو اللہ ایسے شخص کو سر کے بل جہنم میں جھونک دے گا”.(سنن ابوداود) دوسری جگہ فرمایا کہ” جو شخص پودا لگاتا ہے اور اس میں سے کوئی انسان یا اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کوئی مخلوق کھاتی ہے تو وہ اس (پودا لگانے والے) کے لئے صدقہ ہو جاتا ہے”.
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ "ٹھہرے ہوئے پانی میں کوئی ہرگز پیشاب نہ کرے کہ پھر وہ اسی میں غسل کرے گا”
سنن ابن ماجہ کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ حضرت سعدکے پاس سے گزرے اور وہ وضو کررہے تھے، تو آپ نے فرمایا: یہ کیسا اسراف ہے؟ حضرت سعد نے کہا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ” ہاں اگرچہ کہ تم بہتی ہوئی نہر سے وضو کرو”.
اتنا ہی نہیں بلکہ سورہ لقمان میں اللہ تعالی نے شور (noise pollution) کو روکتے ہوئے فرمایا کہ "اپنی چال میں میانہ روی پیدا کرو اور اپنی آواز پست رکھو۔بے شک سب سے ناپسندیدہ آواز گدھے کی آواز ہے”.
تو معلوم ہوا کہ دین اسلام پانی کی حفاظت چاہتا ہے تاکہ یہ ماحول آلودگی(Environmental pollution) سے بچ جائے.اتنا ہی نہیں بلکہ دوران جہاد اسلام نے یہ رہبرء کی ہے کہ درختوں کو جلانے سے بچا جائے، رسول اللہ ﷺ غزوات وسرایا میں صحابہ کرام کو روانہ کرتے وقت اس بات کی خصوصی وصیت کرتے تھے کہ وہ دوران جنگ فصلوں اور باغوں کو تباہ نہ کریں اور بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کو بھی قتل نہ کریں اور آپ ہی کے نقش قدم پر بعد امیر المؤمین بھی جنگوں میں ان باتوں کا خصوصی خیال رکھتے تھے اور امیر لشکر کو اس کی ہدایت دیتے تھے ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب کسی لشکر کو روانہ کرتے تو یہ وصیت فرماتے کہ کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹو اور کسی آباد مکان اور جگہ کو ویران نہ کرو ۔ ( سيرت ابن ہشام)
میرے محترم دوستو! 1971 میں ماحولیات کا علم عالمی سیاست کا حصہ بن گیاہے ، 1972 میں اقوام متحدہ نے سویڈن کی راجدھانی’’اسٹاک ہوم‘‘ (Stokholm) میں اس موضوع پر پہلا سمینار منعقد کیا، اور پھر 1997 میں کائنات اور بالخصوص ’’کرۂ ہوا‘‘کے لئے ماحولیات کے خلاف انسانی حرکتوں کے نقصاندہ ہونے کا عالمی سطح پراعتراف کیا گیا.لیکن اسلام نے روزہ اول سے ہی ماحولیاتی نظام کو خوبصورت رکھنے کی تاکید کی اور اعلان کیا کہ "بلاشبہ اللہ تعالی خوبصورت ہے اورخوبصورتی کوپسند فرماتا ہے ”
اگر حیات کائنات(biodiversity) کو محفوظ رکھنا ہے اور ختم(extinct) ہونے سے بچانا ہے تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اسلام کا نظام طہارت کا مطالعہ کریں.
All for one and one for all, keep Biodiversity or our future may fall.