سپریم کورٹ کا فیصلہ 12جون تک محفوظ
یواین آئی
نئی دہلی؍؍سپریم کورٹ نے ملازمین کو لاک ڈاؤن کی مدت کی مکمل تنخواہ ادا کرنے کے مرکز کے حکم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر آج اپنا فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے کہا ہے کہ 12 جون کو حکم آنے تک متعلقہ ایمپلائروں کے خلاف کوئی سخت تعزیراتی کارروائی نہیں کی جائے گی۔جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ایم آر شاہ پر مشتمل ڈویژن بنچ نے تمام متعلقہ فریقوں کے تفصیلی دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ رکھ لیا ۔ عدالت عظمی نے یہ بھی واضح کیا کہ 12جون کو اس معاملے میں فیصلے سنائے جانے تک وزارت داخلہ کے 29 مارچ کے حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر آجروں کے خلاف کوئی تعزیراتی کارروائی نہیں ہوگی۔عدالت عظمیٰ نے تمام فریقوں کو تین دنوں کے اندرتحریری طور پر اپنے دلائل پیش کرنے کا بھی حکم دیا۔قبل ازیں سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے بنچ کے سامنے دلیل دی کہ جب لاک ڈاؤن شروع ہوا تو ملازمین کو اپنے ملازمت کی جگہ سے اپنے آبائی شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے سے روکنے کے ارادے سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا، لیکن آخر کار یہ معاملہ ملازمین اور کمپنی کے بیچ کا ہے اور حکومت اس میں مداخلت نہیں کرے گی۔مسٹر وینوگوپال نے کہا کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کے تحت، قومی ایگزیکٹو کمیٹی کوئی بھی نوٹیفکیشن جاری کرسکتی ہے ، کیونکہ متعلقہ قانون میں آفات سے نمٹنے کے لئے کسی بھی طرح کی ہدایت جاری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے ۔تاہم، عدالت عظمی نے اس بارے میں یہ سوالات اٹھائے کہ جب تالا بندی کی وجہ سے صنعتکاروں کو اپنے کاروبار بند رکھنا پڑا تو انہیں لاک ڈاؤن کی مدت کے لئے پوری تنخواہ دینے کی ہدایت جاری کرنا کس طرح جائز قرار دیا گیا؟جسٹس کول نے کہا کہ انہیں وزارت داخلہ کے 29 مارچ کے حکم پر کچھ اعتراض ہے ۔ اس مدت کے لئے کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اس پر تبادلہ خیال کیا جانا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے صنعتی تنازعات ایکٹ کی بجائے صرف ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کا سہارا لیا اور آجروں کو پوری تنخواہ ادا کرنے پر زور دیا۔جسٹس کول نے کہا کہ ہرصنعت کے ساتھ مناسب طورپر بات چیت ہوسکتی ہے ، کیونکہ پوری تنخواہ دینا ممکن نہیں ہے ۔ اس معاملے میں حکومت ثالثی کا کردار ادا کرسکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ، "ایک خدشہ یہ ہے کہ مزدوروں کو تنخواہ دیئے بغیر نہیں چھوڑا جانا چاہئے ، لیکن صنعتکاروں کے پاس بھی تنخواہ دینے کا پیسہ نہیں ہوسکتا ہے "۔ بعد میں اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ اس معاملے کی سماعت دو ماہ کے لئے ملتوی کردی جائے اور تب تک کوئی سخت تعزیراتی کارروائی نہ کرنے کے عبوری حکم برقرار رکھا جائے لیکن درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ مسئلہ صرف مرکزی وزارت داخلہ کا نہیں ہے ۔ بلکہ وزارت محنت کی ایڈوائزری بھی ایک مسئلہ ہے جسے وزارت داخلہ کے حکم کی روشنی میں دیکھا جانا چاہئے ۔ایک دیگر درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ کے وی وشواناتھن نے دلیل دی کہ اگر حکومت پوری تنخواہ ادا کرنے پر مجبور کرتی ہے تو کمپنیاں ادائیگی تو کردیں گی، لیکن ہمیشہ کے لئے بند ہوجائیں گی۔ اس سے صنعتوں پر ہمیشہ کے لئے تالے لگ جائیں گے اور آئندہ بھی مزدور ملازمتوں سے محروم ہوجائیں گے ۔ملازمین کی طرف سے پیش ہونے والی سینئر ایڈوکیٹ اندرا جیے سنگھ نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کے سیکشن 2 (ڈی) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "اس ایکٹ کے تحت حکومت کی جانب سے ‘لاک ڈاؤن’ نام سے ایک نئی اصطلاح ایجاد کی گئی ہے اور لاک ڈاؤن کا اعلان کرنے والا اہلکار اس سے متاثرہ افراد کے مفادات کے تحفظ کا ذمہ دار ہے ۔محترمہ جیے سنگھ نے کہا کہ "ہم غریبوں میں غریب ترین شخص کی بات کر رہے ہیں۔ ہم ان لوگوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جن کے سر پر چھت نہیں ہے اور نہ کھانے کے لئے اناج ہے ۔ کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وہ ٹھیکیداروں کو ادائیگی نہیں کرنا چاہتی ہیں ، لیکن ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ انہوں نے اپنے عارضی مزدوروں کو کتنی ادائیگی کی ہے ؟کچھ دیگر وکلا کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ 12 جون تک محفوظ رکھ لیا اور تب تک کے لئے اس سلسلے میں عبوری حکم کو بڑھا دیا۔