*ایک عہد ساز شخصیت*

0
0
آہ ! بزم ہستی سے روٹھ کر خلد آشیاں ہوگئی
ضیائے قلم : مقصوداحمدضیائی
اس جہان آب و گل اور عالم بو و گل میں قدرت ایزدی کے کرشمہ ہائے بے شمار ہیں یہ جہان مالک کون و مکاں و خالق این و آں کی قوت لا محدود کی عظیم جلوہ گاہ ہے جہاں خالق کائنات کی تخلیق کردہ مخلوق روز و شب اپنی حیات مستعار گزارتی رہتی ہے اور پھر ہر ذی روح شئ اپنی زندگی کی متعینہ مدت پوری کرکے خس و خاشاک میں تبدیل ہو جاتی ہے اس دنیائے جہاں میں جس طرف بھی نگاہ اٹھائیے ہر چیز خالق کائنات کی کاری گری کی عظیم شاہکار دکھائی دیتی ہے لیکن یہ باغ و بہار وقت گزرتے گزرتے دیکھتے ہی دیکھتے خزاں رسیدہ ہوجاتا ہے خالق کائنات کی تخلیق کردہ مخلوقات میں سے اشرف المخلوقات کائنات انسانی کیساتھ بھی موت و حیات کا رشتہ جڑا ہوا ہے تاہم حضرت انسان کا اختصاص یہ ہے کہ انسانوں میں سے بعض ہستیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جو بعد از مرگ بھی اپنے کار ہائے نمایاں کی وجہ سے بعد والوں میں زندہ و تابندہ رہتی ہیں انہیں نصیبہ وروں کے کہکشانی سلسلہ کی ایک اہم شخصیت حضرت علامہ مولانا ڈاکٹر خالد محمود (پی ایچ ڈی ) لندن پیدائش 1926ء بھی تھے جو 20؍رمضان المبارک 1441ھ بمطابق : 14؍ مئی 2020ء ، بروز جُمعرات : ماہ صیام کے مقدس و متبرک ایام میں تا ابد آسودہ خاک ہوگئے اس ہستی تاباں کے بارے میں یہ بتانا ذرا مشکل ہے کہ ان کا نام سب سے پہلے کب سنا تھا جب اس جانب خیال جاتا ہے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نامور ہستی ہمیشہ سے ہی معروف رہی ہے مجھے ان کا تعارف ان  کی معروف تصنیف (مطالعہ بریلویت) کے ذریعے ہوا تھا جو ان کی دیگر تصانیف کے حصول کا سبب بنی آپ ستر کی دہائی میں انگلینڈ چلے گئے تھے اور زندگی کا اکثر حصہ انگلینڈ میں ہی گزارا انہوں نے مختلف محاذوں پر کام کیا اور ہر محاذ کی صف اول کی قیادت میں رہے مناظر ہونے کی وجہ سے وہ مشہور و معروف تھے مطالعہ بریلویت علامہ کی مشہور و معروف  کتاب ہے جو دس جلدوں پر مشتمل ہے علامہ مرحوم ملت بیضا کی شمع تھے ان کے وصال سے ایک روشن چراغ گل ہوگیا ہے علامہ کے وجود سے دنیائے علم میں جو رونق تھی وہ سونی پڑگئی ان علماء کی بساط کم و بیش خالی ہوگئی جو حرکت و عمل دعوت و عزیمت اور فکر و خیال کی ایک اپنی منفرد تاریخ رکھتے تھے علامہ ڈاکٹر خالد محمود مرحوم صدی پر محیط عرصہ اس دنیائے آب و گل میں رہے مگر قدرت نے ان سے اپنے دین کی بڑی خدمات لیں مرحوم حوصلہ مندی عالی ہمتی جوش اور شوق فراواں دل کے پیکر تھے حضرت علامہ مولانا ڈاکٹر خالد محمود صاحب کی داستاں حیات کچھ اس طرح پڑھنے اور سننے میں آتی ہے حضرت کے آبا و اجداد امرتسر ہندوستان کے رہنے والے تھے آپ کی پیدائش 1925ء میں قصور شہر میں ہوئی ابتدائی تعلیم دارالعلوم حنفیہ قصور کی ہے جہاں آپ کے والد گرامی ملازمت کرتے تھے اس کے بعد امرتسر جا کر تعلیم جاری رکھی حضرت العلام کے ایک تعارف نگار حضرت  مولانا افضال خان اشرفی ماہنامہ الصیانہ لاہور اکتوبر نومبر 2019ء کی اشاعت میں لکھتے ہیں کہ علامہ  نے دورہ حدیث شریف 1943.44ء میں ازہر ہند دارالعلوم دیوبند سے شیخ العرب والعجم مولانا سید حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ کی خدمت میں رہ کر کیا بعد از فراغت شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی کے ہمراہ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل تشریف لے گئے جہاں پر شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی مولانا بدر عالم میرٹھی علامہ شمس الحق افغانی اور علامہ سید محمد یوسف بنوری سے بھی اکتساب علم کیا قیام پاکستان کے بعد جامعہ اشرفیہ میں بھی دورہ حدیث کے اسباق میں شرکت فرماتے رہے اس کے بعد آپ نے ایم اے بھی کیا اور عصری علوم بھی ساتھ ساتھ پڑھے بعد فراغت مختلف کالجوں میں پروفیسر بھی رہے علامہ خالد محمود پروفیسر کے عہدے پر رہتے ہوئے ختم نبوت کورس بھی کرواتے تھے آپ نے اس وقت ختم نبوت پر کام شروع کیا کہ جب چند شخصیات ہی اس کام میں لگی تھیں علامہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے حکم پر آپ نے 1953ء میں عقیدت الامت فی معنی ختم نبوت جیسی مایہ ناز کتاب تصنیف کی حضرت مولانا شیخ محمد زکریا صاحب و حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب علیہم الرحمہ اپنی مجالس میں علامہ کی کتب کے نکات سے سامعین کو بھی محظوظ فرماتے آپ قدیم و جدید فکر و فلسفہ کے بھی شناور تھے ان کی دینی خدمات سے مشرق و مغرب کے مسلمان مستفید ہوئے مرحوم کے اہل و عیال مانچسٹر میں مقیم ہیں آپ کا شمار جامعہ اشرفیہ کے مشہور و معروف فضلاء میں ہوتا تھا قیام پاکستان کے زمانہ میں آپ شیخ الجامعہ کے اصرار پر اپنی مادر علمی میں دورہ حدیث کے طلبہ کو موطا امام مالک کا درس دینے میں صرف کرتے علامہ کا درس علوم و معارف کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہوا کرتا جس سے آپ کے درس میں بیٹھنے  والا ہر طالب علم صرف اہل سنت والجماعت کے عقائد پر پختگی حاصل نہیں کرتا تھا بلکہ تمام تر باطل فرقوں کا رد بھی  قرآن و سنت کے عقلی و نقلی دلائل  کے روشنی میں کرنے کا ڈھنگ اور سلیقہ حاصل کرتا حضرت علامہ مولانا ڈاکٹر خالد محمود صاحب مرحوم کی بلند و بالا علمی شخصیت اپنے مقام علم و عمل اور اپنے ہمہ جہت مطالعہ کے لحاظ سے دنیا بھر کے اصحاب علم و فضل کے درمیان ایک بے حد ممتاز ترین اور نمایاں ہستی کی مالک تھی آپ تنظیم اہل سنت سے بھی وابستہ تھے بنیادی اہلیت بطور مناظر کی تھی بایں وجہ رئیس المناظرین کے لقب سے ملقب تھے مرحوم انتہائی سیال حافظہ کے مالک اور نکتہ سنج بھی تھے 1970ء میں جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے لاہور حلقہ نمبر چار سے انتخاب کے لیے بھی کھڑے کیے گئے علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب کی تنقید کا ہدف جماعت اسلامی اور اس کا لٹریچر بھی رہا آپ لاہور سول سیکٹریرٹ کی مسجد شریف میں خطیب بھی تھے اور انگلینڈ مانچسٹر میں ایک اسلامی سینٹر کے ڈائریکٹر بھی تھے وہ سپریم کورٹ کے الشریعہ ایپیلٹ کے جج بھی رہے علامہ کی بے پناہ علمی صلاحیت کا اہل علم کا ایک بڑا حلقہ معترف رہا ہے علامہ کو دیکھنے اور پرکھنے والوں کو اس بات کا بھی بخوبی اعتراف تھا کہ ان کی دینی و علمی جدو جہد کسی مصلحت کا قطعا معاملہ نہ تھا بل کہ یہ جذبہ خدمت ان کے خون میں جاری و ساری تھا جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھ میں قدرت نے لوہے کو موم کر دیا تھا (والنا لہ الحدید) بعینہ ان کے لیے یہ کام قدرت نے سہل کر دئیے تھے آپ دل درد مند اور زبان ہوش مند کے عظیم پیکر تھے علامہ ڈاکٹر خالد محمود نے ساری زندگی دین اسلام کی خدمت میں گزاری رد باطلہ میں بالخصوص انہوں نے ایسے کار ہائے نمایاں انجام دیئے امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے کہ عصر میں فتنہ اٹھے علامہ خالد محمود صاحب کو اس فتنے کے دلائل اور نظریات بتا دئیے جائیں تو علامہ صاحب اپنے دلائل کے روشنی میں سورج غروب ہونے سے پہلے اس کا قلع قمع کرسکتے ہیں خاص بات یہ کہ علامہ کا تعارف ان کے اساتذہ کرام نے کرایا چنانچہ حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی آپ کے تعارف میں فرماتے تھے کہ قادیانیت کی رد میں ڈاکٹر خالد محمود مرزا کی کتابوں کی ایسے عبارتیں پڑھتے ہیں جیسے یہ مرزا کی کتابوں کے حافظ ہوں حضرت مولانا رسول خان ہزاروی جو علامہ انورشاہ کشمیری کے ہمعصر تھے وہ آپ کے علم کا اعتراف کرتے تھے اور آپ کی باتیں مجمع عام میں بیان کیا کرتے تھے حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند ایک جگہ لکھتے ہیں کہ  جس کتاب پر علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب کا نام آجائے اس کتاب کی حقانیت کے لے اتنا ہی کافی ہے شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری علامہ خالد محمود صاحب کو موجودہ وقت کے سب سے بڑے عالم دین گر دانتے ہیں حضرت علامہ مولانا ڈاکٹر خالد محمود صاحب تنظیم اہل سنت سے بھی وابستہ تھے بنیادی اہلیت بطور مناظر کی تھی بایں وجہ رئیس المناظرین کے لقب سے ملقب تھے مرحوم انتہائی سیال حافظہ کے مالک اور نکتہ سنج بھی تھے 1970ء میں جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے لاہور حلقہ نمبر چار سے انتخاب کے لیے بھی کھڑے کیے گئے علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب کی تنقید کا ہدف جماعت اسلامی اور اس کا لٹریچر بھی رہا آپ لاہور سول سیکٹریرٹ کی مسجد میں خطیب بھی تھے انگلینڈ مانچسٹر میں ایک اسلامی سینٹر کے ڈائریکٹر بھی تھے وہ سپریم کورٹ کے الشریعہ ایپیلٹ کے جج بھی رہے علامہ صاحب کا عرصہ حیات اس دنیائے آب و گل میں لگ بھگ صدی پر محیط ہے آپ سے قدرت نے بڑی خدمات لیں جو ان کے جذبہ اسلامی ، سوز دروں ، جہد مسلسل اور عمل پیہم کی منہ بولتی تصویر ہے
رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ  فن  کی  ہے  خون  جگر  سے  نمود !
ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد یہ ایسا کارنامہ ہیں جو انمٹ نقوش کا کام دیں گے
تلک آثارنا تدل علینا : فانظروا بعدنا الی الآثار حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود علیہ الرحمہ کا بذریعہ سوشل میڈیا یہ پیغام سننے کو ملا وہ فرماتے تھے کہ رد قادیانیت کے سلسلے میں ہمیں سب سے زیادہ سپورٹ حاصل ہوئی ہے کشمیر کی طرف سے محدثین میں امام العصر علامہ انورشاہ کشمیری علیہ الرحمہ تھے کہ جو صدرالمدرسین تھے دارالعلوم دیوبند کے لیکن چونکہ وہ تھے کشمیری اس لیے اس کا کریڈٹ ان کو جاتا ہے مناظر جو قادیانیوں کے مقابلے میں تھے وہ حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری علیہ الرحمہ تھے جو اصلا کشمیر ہی کے تھے شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال جنہوں نے اپنی جگہ مفکرانہ سدا بلند کی وہ بھی کشمیر کے تھے فرمایا کہ اگر ہم کشمیر کے لوگوں کو ساتھ لے کر نہ چلیں اور ان کے لیے ہر بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار نہ ہوں تو حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تاریخ  کی اس خدمت کو جو ختم نبوت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے پہچانا ہی نہیں صداقت کو جانا ہی نہیں اور جو نہ جانے وہ کیا جانے کہ پروانے کی سدا کیا ہوتی ہے حضرت علامہ مولانا ڈاکٹر خالد محمود صاحب کا عرصہ حیات اس دنیائے آب و گل میں صدی پر محیط رہا آپ سے قدرت نے بڑی خدمات لیں جن میں سے کچھ کا تذکرہ اس مضمون میں کرنے کی سعی کی گئی ہے مختصر یہ کہ علامہ ڈاکٹر خالدمحمود مرحوم ایک جید عالم دین محدث فقیہ اور مناظر تھے ملت اسلامیہ جو ان سے بے پناہ محبت کرتی تھی اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ ختم نبوت کے اہم سپہ سالاروں میں سے تھے اس دور قحط الرجال میں ایسے لوگ ناپید ہیں جو اہل باطل کا مدلل اور خوش اسلوبی کے ساتھ جواب دینے کا سلیقہ رکھتے ہوں لیکن ڈاکٹر صاحب کا شمار ان ہی لوگوں میں ہوتا ہے مرحوم صاحب تصانیف کثیرہ تھے انہوں نے قرآنیات ، حدیثیات ، فقہ ،تصوف اور عقائد جم کر کام کیا ان کا سب سے بڑا کارنامہ  فتنہٕ قادیانیت کے خلاف ہر محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کرنا تھا قرآن پاک کے تعارف پر ان کی کتاب ” آثار التنزیل” حدیث کے تعارف پر "آثار الحدیث’ ،فقہ کے تعارف پر” آثار التشریح”، تصوف کے تعارف پر  "آثار الاحسان” اور عقیدے کے تعارف پر ” فی معنی ختم نبوت اور مطالعہ قادیانیت” ہے آپ کی دیگر کتابیں اور پمفلٹ جو ہمیں دریافت ہوسکیں کے نام ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں مقدمہ آثار الاستفسار ، عقیدہ خیر الامم فی مقامات عیسی ابن مریم  ، عقیدہ الاعلام فی الفرق بین الکفر والاسلام ، مرزا غلام احمد قادیانی اپنی سیاست اور کردار کے آئینے میں ، تجلیات آفتاب ، شاہ اسماعیل شہید،  حجیت حدیث ، اسلام ایک نظر میں اور پمفلٹ کی صورت میں شجرہ علمی امام ابو حنیفہ ، شجرہ مودت ، شجرہ محدثین دہلی ، شجرہ علمائے دیوبند اور دین میں لائے گئے نئے اعمال جیسے اہم علمی پوسٹر قابل ذکر ہیں آپ ایک اچھے صاحب قلم تھے آپ کی کتابیں آب و تاب کے ساتھ شائع ہوئیں اور مقبول عام ہوئیں جو اب ان کی ایک یاد گار ہیں قومی و علمی دونوں قلم رو سے حضرت العلام کے اچھے رسم و راہ تھے
*آخری بات :* شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی مولانا شمس الحق صاحب افغانی مولانا ادریس صاحب کاندھلوی امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ صاحب بخاری امام اہل سنت مولانا عبد الشکور لکھنوی فاروقی مولانا محمد علی جالندھری مولانا لال حسین اختر مولانا حیات رحمہم اللہ کے پروردہ امام الاولیاء مولانا احمد علی لاہوری شاہ عبد القادر رائے پوری حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی مولانا خیر محمد صاحب جالندھری مفتی محمد حسن صاحب مولانا مسیح اللہ خاں صاحب رحمہم اللہ مولانا سید نور الحسن شاہ بخاری مولانا محمد سالم قاسمی مولانا عبد الستار تونسوی قاضی مظہر حسین صاحب مولانا محمد نافع مولانا سرفراز خان صفدر مفتی محمود صاحب مولانا غلام غوث ہزاروی علیہم الرحمہ جیسے اکابر امت اور مردان عزیمت کے سلسلہ کی اہم ترین کڑی ہمدرد قوم و ملت علامہ ڈاکٹر خالد محمود تو واصل بحق ہو گئے ہیں اب آں مرحوم کے چھوڑے ہوئے کاموں کو پورا کرنے اور ان کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری اس ملت پر ہے ان کے چاہنے والوں پر ہے
خلوص  و  ہمت  اہل  چمن  پہ  ہے  موقوف
کہ شاخ خشک میں پھر سے برگ و بار آئے
      ایں دعا از ما واز جملہ جہاں آمین باد
➖➖➖➖➖➖➖

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا