درد چپھا کر جینا بھی اِک فن ہوتا ہے

0
0
 ۔درد چپھا کر جینا بھی اِک فن ہوتا ہے
آنکھ کے آنسوں پینا بھی اِک فن ہوتا ہے ۔
دشمن نے جو زخم  دیۓ ہیں سینےمیں۔
ان زخموں کو سینا بھی اک فن ہوتا ہے ۔
میری قلم سے لکھے یہ چار لفظ کافی نہیں ہیں ان لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کےلئے ۔یہاں ضرورت ہے  ان لوگوں پر بات کرنے کی جو سرحدوں  پر ہر آۓ دن کسی نہ کسی اپنے کو کھوتے ہیں ۔۔وہ غریب عوام جِن کی کسی کو بھی کوئی پرواہ نہیں  ہے ۔نہ تو اِنتظامیہ کو نہ سرکار کو۔
بس یہاں تک ہی  ہوتا ہے کہ ۔گولی کا نشانہ بننے کے بعد لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہو کر ۔کچھ لوگ انکی سیلفی بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں ۔
مگر کوئی بھی ان غریب لوگوں کی آواز کسی تک پہنچانے کی نہ تو جرت رکھتا ہے اور نہ ہی ہمت
سوال یہ ہے کہ آخر اس غریب عوام  کا قصور کیا ہے ۔۔۔کہ آر اور پار کی گولیاں کھا کر انہیں زندگی گزارنا پڑھ رہی ہے
یا ان کا قصور یہ ہے کہ  یہ ہندوستانی ہیں ۔یا انکا قصور یہ ہے کہ یہ غریب  عوام ہے
زندگی کی ہر خوشی ۔ہر چیز سے یہ لوگ پہلے ہی کافی محروم ہیں ۔اور اس پر یہ ستم کہ جو ایک   زندگی اللہ تعالی نے  بخشی وہ
بھی ان گولیوں کی گڑگڑاھٹ  میں  کہیں خاموش ہو کر رہ  گئی
یہ مسئلہ غور و فکر کرنے کا ہے ۔۔یہ مسئلہ انتظامیہ کہ سامنے لانے کا ہے
کیونکہ یہاں سوال انسانی جانوں کا ہے۔ہر دوسرے دن یا کسی کی ماں کا خون بہتا ہے  ۔یا کسی کے لخت جّگر کا
بھارت سرکار کو اس بات پر بھی سوچنا چاہیے  ہم جو لوگ شہروں میں رہتے ہیں ۔یا جو لوگ دیہی  علاقوں میں رہتے ہیں  ہم لوگوں کو زندگی کی ہر چیز میسر ہے مگر  یہ غریب عوام آخر جاۓ تو جاۓ کہاں نہ تو یہ لوگ اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے کی ہمت ہی رکھتے ہیں
تو کیا پھر انہیں یوں ہی مرنے کیلۓ چھوڑ دیا جائے  یا ان کو بچانے کیلئے غور وخوض کیا جائے ۔
سرحد پر صرف فوجی جوان  ہی نہیں شہید ہوتے فوج سے کہیں زیادہ کہیں زیادہ اس لوگوں کا خون ہوا ہے جو سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں ۔
لیکن آج تک میں نے کہیں بھی انکا ذکر ہوتے نہیں سناآخر کیوں
کیا ہمارے ہندوستان کے بارڈروں کے ساتھ جڑے ہوئے گاؤں کیا ہندوستان کا حصہ نہیں ہیں ۔۔اگر ہیں تو پھر یہ سوتیلا  سلوک کیوں جہاں اس غریب عوام کی تعلیم وتربیت کےلئے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت تھی ۔ان سرحدوں پر کچھ ایسا کرنے کی ضرورت بھی تھی جن سے سرحدوں پر رہ رہے لوگوں کی زندگی میں کچھ تو آرام و آسائش میسر ہو۔۔مگر وہ سب تو دور رہا ۔۔اور ہر روز بارڈروں پر خون کے چھینٹے اڑاۓ جائے رہے ہیں ۔۔نہ تو ان لوگوں تک کوئی سیاسی  پارٹی کے سربراہ  کبھی جاتے ہیں اور نہ ہی سماجی کارکن حالانکہ ہمارے اخباری نمائندے پھر بھی اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر ۔موت کے ساۓ میں جا کر ان مظلوم لوگوں کی آواز دنیا تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں اور ہمیں بارڈر پر رہنے والے لوگوں کی مشکلات سے روبرو کرواتے ہیں سلام پیش کرتی ہوں میں ایسے۔اخباری نمائندوں کو مگر پھر بھی سیاسی
پارٹیوں کو کوئ فرق نہیں پڑتا ہے
میں ساتھ ساتھ اس بات کو بھی واضح کرتی چلوں گی کہ۔ہمارے پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھنے والے صحافییوں کا رول آج کے اس حالات میں ۔پولیس اور فوج سے کم نہیں ہے ۔۔۔اور  یہ صحافی پیشے سے تعلق رکھتے والے لوگ ہی ۔گاؤں گاؤں شہر شہر تک ان حالات کو ھم سب کے روبرو کرواتے ہیں ۔مگر افسوس کہ ان کی طرف بھی گورنمنٹ کا کوئی بھی دھیان نہیں ہے
جموں کا سانبہ ۔اکھنور ۔اور بھی ایسے کئ گاؤں ہیں جہاں بہت زیادہ گولہ باری ہوتی رہتی ہے ۔یہ علاقے بھی گورنمنٹ کے رحم و کرم کے انتظار میں رہتے ہیں ۔مگر افسوس کہ ان کی طرف بھی گورنمنٹ کا کوئی بھی خاص دھیان نہیں جاتا۔بس وہ ہی ہر بار کی طرح ایک یا دو ایم-ایل۔اے۔۔صاحب جا کر دو چار باتیں کرتے  اور پھر دوسرے دن  دشمن کی ایک اورگولی انتظار کر رہی ہوتی ہے کسی اور سینے کا ۔۔اور پھر وہی
 ہوتا ہے
نہ جانے کتنی پیڑیاں غرقاب ہو گئی اور سب کے سب دیکھتے رہ گئے ۔۔
جہاں پونچھ کے سرحدی علاقوں میں بہت سے تعلیمی ادارے ہیں بھی مگر پھر بھی وہاں پر اساتذہ اکرام جانے سے مجبور ہیں اور وجہ ہے کسی بھی وقت گولہ باری کا شروع ہو جانا
۔اور ایسے دہشت کے ماحول میں بھلا کون اسکولوں میں جانا چاہیے گا۔۔۔۔۔اور نہ کب وہ صبح آۓ گی جب ہماری دیش کی ہری بھری سرحدوں سے اس خوف و دہشت کے ساۓ ہٹنے شروع ہو جائیں گے ۔۔۔۔دو ملکوں کےبیچ یہ صدیوں  سے چلی آ رہی  زمینی جنگ ختم ہو جائے گی ۔۔مگر ایسے آثار نظر نہیں آتے ہیں  کیونکہ ظالم حکمران کبھی بھی ایسا نہیں ہونے دیں  گے۔ہندو مسلم سکھ عیسائی آپس میں ہیں بھائی  بھائی کے نارے والا دیش آج صرف ہندو اور مسلمان کے نام سے جانا جانے لگا ہے۔۔۔اور افسوس کا المیہ یہ ہے کہ اس لڑائی میں قربانی صرف  اور صرف  غریب عوام نے دی ہے ۔۔سرحدون  پر رہنے والے معصوم بچوں کی ذہنی کیفیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے اگر چہ ہم خود کو ان کی جگہ  پر رکھ کر  سوچیں تو !
کہ ہندوستان جیسے آزاد ملک میں  آج بھی کتنے لوگ ایسے ہیں جو گھٹ گھٹ کر زندگی کو جیتے ہیں سرکار کا فرض بنتا ہےکہ سرحد  کے ان علاقوں کا دورہ کرتے رہیں جہاں کی عوام ہر روز ہمارے پڑوسی ملک کی ظالمانہ  حرکتوں سے پریشان حال ہے کم سے کم ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے۔یا تو انکی زمین و مکانوں کو بند کر کے ۔۔انہیں کسی ایسی جگہ پر بسایا جائے جہاں انکی زندگی درہم برہم نہ ہو  ۔یہ ہری  بھری سرحدیں ۔۔جو سانس لینے کو بھی مجبور ہیں ان میں بھی کوئلیں اپنے گیت سناتی پھریں۔۔۔۔۔اور چڑیاں چہچہاتی پھریں ۔۔۔بکریاں چرانے والا بھی بانسری بجاتا ہوا  گولیوں کے ڈر سے آزاد ہو۔۔اسکولوں میں چھوٹے چھوٹے بچے اپنا بیگ کاندوں سے لگاۓ اسکولوں میں۔۔۔۔اور ان کی آنکھوں میں ہوں اپنے حسین  مستقبل کے خواب۔۔۔۔۔اور ایک  غریب کسان اپنی حل کاندوں پر اٹھاۓ اپنے کھیتوں میں نکل پڑے۔۔۔۔۔۔۔دو چار صحافی مل کر اس مسئلے  کا حل نہیں نکال سکتے ہیں ۔۔۔میں یہ بھی اچھے سے جانتی ہوں کہ یہ سب تب تک کبھی بھی حل نہیں ہو سکتا ۔۔جب تک سیاسی  و سماجی پارٹیاں اور پڑھا لکھا نوجوان اور با شعور طبقہ کسی ایک پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا حل نہیں نکالیں گے۔پورے ملک کی بات ہم نہیں کرتے مگر ہاں کم سے کم  یہ بارڈروں پر رہنے والے غریب عوام کا کچھ تو بھلا ہو سکے۔۔۔آؤ سب مل کر دعا مانگتے ہیں کے میرے ملک کی سرحدیں یوں غریبوں کے لہو سے لال نہ ہوں۔۔یہاں بھی گولیوں کی گرج سی آزادی ملے۔۔۔اور انسانوں کے ساتھ  ساتھ  یہ پرندے بھی کھلی ہوا میں سانس لیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹکرا  کے تیرے در سے آئیں نہ یہ صدایئں ۔
مالک قبول کرنا بیتاب  کی دعائیں
بقلم سید خالدہ پروین ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا