ڈاکٹر اشتیاق احمد شاہ
17 رمضان المبارک 2 ھجری کو کو عالم اسلام بالخصوص اور عالم انسانیت بالعموم ایک واقعہ کو دہرآئے گا جس کو ہم غزوہ بدر کے نام سے جانتے ہیں میں نے اس واقعے پر جتنے بھی وعظ سنے ہیں ان میں مسلمانوں کی شجاعت بہادری کو نمایاں طور پر بیان کیا جاتا رہا جن کی صدائے بازگشت آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے یقینا ایمان والوں کے لیے یہ ایمان افروز واقعہ ہے کیونکہ اس میں ظہوراسلام کے بعد پہلی مرتبہ حق اور باطل نبرد آزما ہوے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ مسلمان غزوہ بدر میں بڑی جانفشانی ،شجاعت اور بہادری کے ساتھ ساتھ میدان میں دشمن سے مقابلہ کے لئے اترے اور اللہ کی مدد بھی شامل حال رہی جس کی وجہ سے باطل کو پسپا ہونا پڑا اور اللہ نے رشد و ہدایت کے پیکر کو سرخرو فرمایا ۔
انسانی فطرت کا تقاضہ ہے کہ وہ ہر رونما ہونے والے واقعہ کو منفی اور مثبت دونوں پہلو سے قبول کرتا ہے اس پرآشوب دور میں جہاں اسلام مخالف قوتیں ہمہ وقت مذہب اسلام کو ظلم، جبر ، اور جنگ و جدال کی مبینہ شکل میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہی ذی شعور حضرات ان قوتوں کے دفاع کے لئے آئے دن قلم کے زور سے اسلام کی حقیقت کو بیان کرنے میں جٹے ہوئے ہیں ذہن اکثر سوال کرتا ہے کہ غزوہ بدر میں رونما ہونے والے واقعہ میں مسلمانوں کی کیا حیثیت رہی کیا مسلمانوں نے مشرکین پر جنگ مسلط کی؟ یا پھر مشرکین مکہ نے ایک منصوبہ کے تحت مسلمانوں پر چڑھائی کی ؟ اس تاریخی معرکہ کو مورخین، محدثین، سیرت نگاروں، اور علماء نے واضح طور پر بیان فرمایا ہے کہ وہ کیا اسباب و عوامل تھے جن کی بنیاد پر غزوہ بدر رونما ہوا ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیوں مسلمانوں کو لشکر جرار کے سامنے آنا پڑا۔
ظہور اسلام سے لے کر ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم تک جو مسلمانوں کے ساتھ ہواوہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کیا عالم انسانیت اس حقیقت سے نا آشنا ہے؟ کہ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن معیط نے آپ کی گردن کے گرد چادر ڈال کر اس قدر زور سے باندھا کے آپ صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم کا دم گھٹنے لگا اچانک یار غار رضی اللہ تعالی عنہ کو خبر ہوئی تو آپ تشریف لائے اور غضبناک ہو کر مشرکین مکہ سےمشرکین مکہ سے مخاطب ہوکر کہا کہ "کیا تم ان سے اس لئےدشمنی رکھتے ہو کہ وہ صرف یہ فرماتے ہیں کہ میرا رب اللہ ہے”
کیا عالم انسانیت اس واقعہ سے بھی بے خبرہے؟ کہ جب حضرت حارث بن ابی ہالہ کو خبر ہوئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوشرپسندوں کے ہجوم نے گھیر لیا ہے توحضرت حارث رضی اللہ تعالی عنہ دوڑے ہوئے تشریف لائے اور ہجوم پر غضبناک ہوے شرپسندوں نے ان پر حملہ کر دیا اور ہجوم نے حضرت حارث بن ابی ہالہ رضی اللہ تعالی عنہ کو وہی شہید کردیا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دور جدید میں جسے موب لنچنگ کا نام دیا گیا ہے در اصل یہ تو آقاؤں کی سنت کو نبھایا جا رہا ہے۔
کیا عالم انسانیت اس واقعہ کو بھی درکنار کر رہی ہے کہ حضور صلی اللہ وسلم جس راہ چلتے وہاں کانٹے بچھا دئیے جاتے مظالم کی تو انتہا تھی ابوجہل نے ایک بار اپنی قوم سے کہا فلاں جگہ ایک اونٹ ذبح ہوا ہے اس کی اوجھڑی پڑی ہوئی ہے اس کواٹھا کرلاؤ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈال دو،اپنے جاہل آقا کا حکم سنتے ہی عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور وہ اوجھڑی لائی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب حالت سجدہ میں تھے ان کی پشت مبارک پر رکھ دی۔
ان سب ظلم وزیادتیوں کو سہنے کے بعد بھی آقا علیہ الصلاۃ والسلام نےان سے جنگ کا اعلان نہیں کیا یہاں تک کہ کسی کو گھورا تک نہیں اور صبر کرتے رہے اور ان ظالموں کے لیے دعائیں فرماتے رہے اور کسی مباحثہ میں جواب دیا بھی تو صرف اتنا فرمایا”میں آپ کے لیے ایک پیغام لایا ہوں جو آپ تک پہنچا دیا اگر تم اسے قبول کرتے ہو تو یہ تمہارے دارین کی خوش نصیبی ہوگی اور اگر تم اسے مسترد کرو گے تو میں پھر بھی اللہ کے حکم سے صبر کروں گا جب تک وہ میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ نہ فرما دے”
ظلم کے یہ چند واقعات بطور نمونہ پیش کئے ہیں جب ظلم کی انتہا ہوگئی اورمشرکین قریش کے مظالم مسلمانوں پر بڑھتے چلے گئے اور مشرکین قریش نے ان پر سرزمین مقدس تنگ کردی تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم سے ہجرت کا اذن عام فرمایا یہ ہجرت صرف اور صرف انسانی جانوں کی حفاظت اور رشد وہدایت کی تبلیغ کے لیے تھی مؤرخین لکھتے ہیں ہجرت کے بعد بھی مشرکین قریش نے اپنے جابرانہ اور ظالمانہ عزائم جاری رکھےیہاں تک کے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی راہ میں بھی رکاوٹیں ڈالیں۔ ان مظالم کی تصدیق کے لیے حضرت صہیب رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ واقعہ بھی ہے کہ جب وہ ہجرت کرنے لگے توان کا تمام مال اسباب چھین لیا گیا مورخین لکھتے ہیں کہ ہزاروں روپے کا مال ان سے چھین لیا اور بالکل خالی ہاتھ مدینہ کی طرف جانے دیا اسی طرح حضرت ہشام رضی اللہ تعالی عنہ کا پتہ چلا کہ انہوں نے ہجرت کا ارادہ کیا ہے تو مشرکین نے ان کو پکڑ کر قید کردیا الغرض مسلمانوں کو اذیت پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔
ادھر مسلمان اپنے آقاﷺ کے ساتھ یثرب یعنی مدینہ تشریف لے گئے اور وہاں جاکر سرکار ﷺکے ساتھ سکونت پذیر ہوئے اور انصار کے ساتھ صلح و بھائی چارگی اور مساوات کے ساتھ رہنے لگے اور دعوت و تبلیغ کو سر انجام دینے لگے ادھر کفار قریش اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے وہاں بھی انھیں امیرالمنافقین سازشوں کے لئے مل گیا حتی کہ مدینہ کے یہودیوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کی سازشیں رچائی جانے لگی ان یہودی قبائل میں قینقاع،بنو نضیر، اور بنو قریظہ سہر فہرست تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فہم و فراست نے ان سازشوں کو بھانپ لیا آخرکار یہودیوں کے ما بین امن معاہدہ تحریری شکل میں وجود میں آیا یاد رہے کے یہ اسلام کی تاریخ میں سب سے پہلی سیاسی دستاویز تھی جس کے بنیادی مقاصد مندرجہ ذیل ہیں
١۔ ہر آبادی سکون اور امن سے زندگی گزاریں گی
٢ ۔ہر فرد اور ہر گروہ اپنے عقائد اور رسوم میں آزاد ہوگا
3۔ فتنہ و فساد کی ہر راہ کو بند کیا جائے گا
٤ ۔بیرونی دشمنوں اور یورشوں کو روکا جائے گا
سرکار ﷺ نے وہاں بھی امن اور مساوات کا درس دیا مگر قریش کاکوئی بھی لمحہ ضائع نہ کرتے اور مسلمانوں کے خلاف تشدد کی کوئی نہ کوئی کاروائی عمل میں لاتے رہتے۔
مشرکین قریش کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار تھے جب ان کی ہر سازش ناکام ہوگئی تب ابوجہل نے دار الندوہ میں تمام اکابرینِ کفار سے کہا تھا کہ دوسروں کے بل بوتے پر زندہ رہنا احمقوں کا کام ہے کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے زور بازو پر بھروسا کرتے ہیں اس نے کہا ” میری بات غور سے سنو ہمارا جو قافلہ اب شام کو جانے والا ہے ہمیں چاہیے کہ اپنا سرمایہ اس کے حوالے کردے اور اس سفر تجارت میں جو منافع ہو وہ پورے کا پورا مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاری میں لگایا جائے اس طرح مصارف جنگ کا مسئلہ حل ہوجائے گا اور ہم پوری تیاری کے ساتھ مسلمانوں پر کاری ضرب لگا سکیں گے نیز عبداللہ بن ابی کو بھی ایسا سبق سکھائیں گے جس سے اس کی نسلیں یاد رکھیں” ابوجہل کی اس جاہلانہ تدبیر کی سب نے تائید کی چنانچہ قافلہ ان مقاصد پر تجارت کے لیے روانہ ہوا۔
مندرجہ بالا تفصیل سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ جب جبروستم کا یہ سلسلہ دو، چار سال تک جاری نہیں رہا بلکہ پورے 13 سال ان ظلم و زیادتیوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ کو برداشت کرنا پڑا کفار ظلم کرتے رہے نبی صلی اللہ وسلم اور ان کے اولوالعزم رفقاء صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے رہے کفار جور و جفا کرتے رہے اور مسلمان پیکران تسلیم و رضا صبر استقامت کا پہاڑ بن کر برداشت کرتے رہے۔
اس ظلم و جبر و عونت کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دن آگیا جب حق و باطل نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں کفار کا غرور وتکبرسر چڑھ کر بول رہا تھا تھا ان کو اپنے لشکر جرار اسلحہ پر ناز تھا اسی تکبر میں وہ مسلمانوں اور اسلام کو نیست و نابود کرنے مکہ معظمہ سے سے گوگل کی جانکاری کے مطابق 324 کلومیٹر کی مسافت طے کر کے بدر میں پہنچے ۔
ادھر حق کے پاسداروں کی بےسروسامانی کا یہ عالم تھا نہ ان کے پاس فوج تھی نہ اسلحہ اپنے گھروں سے بھی کوسوں دور تھے اگر بھروسہ تھا تو صرف (وَمَآ أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ ٱلْفُرْقَانِ يَوْمَ ٱلْتَقَى ٱلْجَمْعَانِ کا اس بے سر و سامانی کی وجہ سے وہ بظاہر جنگ کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے لیکن ناموس رسالت و دین محمدی ﷺکی بقا کی خاطر وہ صرف دفاع کے لئے میدان میں اترے تھے ان کے پاس اگر کوئی چیز باطل کے منہ پر طمانچہ مارنے کے لئے تھی تو وہ صرف قوت ایمانی تھی۔
١٣ سال ظلم و جبر کو برداشت کیا یا جنگ وجدال نہ ہواس خیال سے گھرجائیداد تک چھوڑ دیے مگر ظالم وقاتل باز نہ آئے آئے اور کم و بیش 325 کلومیٹر کا سفر طے کر کے تعاقب میں پہنچ گئے ۔
ادھرآقا علیہ سلام نے صحا بہ اکرام رضوان اللہ تعالی عنہم کی ایک مجلس مشاورت منعقد فرمائی تمام صحابہ نے دفاع کے لیے رضامندی ظاہر فرمائی اور حضور ﷺنے انصار کی بھی رائے جاننے کی کوشش کی کیونکہ جو معاہدہ ہوا تھا اس کے تحت اہل مدینہ کو مدینہ میں رہ کر دفاع کرنا تھا مگر اب نوعیت اس کے برعکس تھی کیونکہ صحابہ کی اکثریت نے یہ مشورے دیے تھے کہ اگر ہم مدینہ میں رہ کر کفار مکہ کا دفاع کرینگے تو یقینا یہاں بزرگ،عورتیں اور بچے اس کی زد میں آئے گے لہذا اس سے سرکار نے یہ بھی جانہ کے انصار اپنے معاہدہ پر ہیں یا ان کی رائے مختلف ہے انصار نے جوابا عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ہم آپ پر ایمان لائے ہیں اب ہماری جان و مال سب آپ پر قربان ہیں لہذا یارسول اللہ اب آپ ہی فیصلہ فرمایئں کہ دفاع کی نوعیت کیا ہوگی۔ چنانچہ اہل مدینہ باہم مشورہ کر کے دفاع کے لئے مدینہ شریف سے نکلے مگر راستہ سے نبیﷺ نے کم عمر بچوں کو واپس مدینہ طیبہ روانہ فرمایا اس طرح جانثاروں کی یہ نورانی جماعت صرف حرارت ایمانی لے کر دفاع کےلئے روانہ ہوئی۔مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں ہیں کہ بدر مدینہ سے تقریبا 80 میل مغرب مائل بجنوب اس شاہراہ پر واقع ہے جو شام کی طرف جاتی ہے”۔
نبیﷺمیدان بدر میں جب پہنچے تو وہ جمعہ کی رات تھی حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ ہم میں”مقداد کے بغیر کوئی بھی گھڑسوار نہ تھا ہم نے دیکھا کہ سب لوگ سوئے ہوئے ہیں بجز رسول اللہ کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر ایک درخت کے نیچے نماز پڑھتے رہے یہاں تک کے صبح ہوگئی”۔
یہ دلسوز واقعہ بیان کرنے کے لیے غیر معمولی مضمون کافی نہیں ہے اختصار کے ساتھ یہ بھی واضح کردوں کے دفاع کے لیے بھی مسلمانوں کے پاس صرف ایک گھوڑا ،70 یا 80 کے قریب اونٹ اور چند ٹوٹی ہوئی کمان کے شکستہ تیر اور پرانی تلواریں تھی۔جبکہ عدا ءکے پاس سو برق رفتار گھوڑے 600 اعلی نسل کے اونٹوں کا بیڑا خورد و نوش کے ذخائر کے انبار اٹھانے والے باربرداری کے جانور بھی تھے ان حالات میں ان قو تو ں سے سوال کرتا ہوں جو آئے دن دین اسلام کوبدنام کرنے کی ہرممکن سازش کرتے ہیں کیا بدر میں مسلمانوں نے دفاع نہیں کیا؟ یقیناً وہ دفاع ہی تھا اسلام ہمیشہ ظلم وجبر کے خلاف دفاع کرتا رہا ہے اور انشاءاللہ کرتا رہے گا…