ولر اردو ادبی فورم،کشمیر کے زیراہتمام افسانوی میلہ

0
0

ترتیب و تہذیب: غلام نبی کمار

لازوال ادب کی پیش کش نمبر۔6

افسانہ:’’لازم و ملزوم‘‘از راجہ یوسف پر ناقدین کے تاثرات
ڈاکٹر مشتاق احمد وانی(کشمیر)
راجہ یوسف کا شمار کہنہ مشق قلمکاروں میں ہوتا ہے۔ان کا افسانہ”لازم وملزوم”نظر نواز ہوا۔بہت سے استعاراتی اور تشبیہی جملے پڑھنے کا موقع ملا۔آدم و حوا کی دنیا میں آمد اور اس حوالے سے راجہ یوسف کا فکر و فلسفہ یقینا”غور و تدبر کی طرف لے جاتا ہے۔میں نے اپنے کسی مضمون میں یہ بات لکھی تھی کہ جدید تعلیمی نظام میں اسکولوں میں جب فارسی زبان کی تدریس ختم کردی گئی تو اس سے اردو کو کافی نقصان پہنچا۔اسی طرح جب سنسکرت کی تدریس کا چلن نہیں رہا تو ہندی کو بہت نقصان پہنچا۔ڈاکٹر ریاض توحیدی نے مذکورہ افسانے میں زبان و بیان کی جن خامیوں کی نشاندہی کی ہے ۔وہ ان کے مخلصانہ جذبے کاایک اظہار ہے۔اصل میں زبان کے برتاؤ میں ہم لفظوں کے صحیح انتخاب میں ذہن کو نہیں دوڑاتے۔ہم سب اس معاملے میں کہیں نہ کہیں غلطیاں کرجاتے ہیں۔لازم وملزوم افسانے میں افسانویت بدرجہ اتم موجود ہے۔احساس اور فکر کی گہرائی اس افسانے کی ایک نمایاں خوبی ہے۔

ڈاکٹر ترنم جہاں شبنم(دہلی)
راجہ یوسف کو پچھلے کئی برسوں سے مختلف ادبی فورمز پر پڑھتے آئے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک کہنہ مشق افسانہ نگار ہیں اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو منوانا جانتے ہیں۔ ان کا موجودہ افسانہ ”لازم ملزوم ” ایک علامتی افسانہ ہے جو علامتی ہوتے ہوئے بھی علامتی نہیں لگتا کہ علامتیں اتنی واضح ہیں کہ کہانی پرت در پرت خود کھلتی چلی جاتی ہے۔ زبان میں ایسی سحر انگیزی ہے کہ اس کی چاشنی سے لطف اندوز ہوئے بنا نہیں رہ سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کے ساتھ حوا کو پیدا کر کے دونوں کو ایک دوسرے کے لئے جب لازم و ملزوم کر دیا تھا ۔اسی پس منظر میں عورت و مرد درمیان کی کشش اور آج کے سوشل میڈیا پر پروان چڑھنے والے عشق کو بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ انہوں نے اس افسانے میں پیش کیا ہے۔ اپنے اسلوب، زبان و بیان،مکالمہ، منظر نگاری ہر اعتبار سے یہ راجہ صاحب کا یہ ایک بہترین افسانہ ہے۔

ڈاکٹر عشرت ناہید
راجہ یوسف کے اب تک جتنے افسانے پڑھے ہیں ۔بہت عمدہ ہیں عموماً وہ قاری کو ترسیل کے ابہام میں الجھانا پسند نہیں کرتے بلکہ سیدھے انداز میں پر اثر اسلوب سے ترسیل کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔زیر نظر افسانہ ایک سحر انگیز دنیا کی سیر کرواتا ہے جہاں تخلیق کار قاری کو چاندنی کی کشش محبت سے روشناس کرواتا ہے۔تخلیق کار اس کی محبت میں گرفتار ہوچکا ہے لیکن چاندنی دامن سمیٹنے لگتی ہے اور تخلیق کار کی صلاحیت پر بھی شبہ کرتی ہے وہ محض خیالی دنیا کا باشندہ ہے لیکن آخرکار وہ اسے زیر کرلیتا ہے کیونکہ محبت یک طرفہ نہیں ہے۔خوبصورت انداز میں پیش کی گئی داستان محبت یوں بھی اچھی لگی کہ یہ سوشل میڈیا پر مبنی تعلقات کا احاطہ کرتی ہے۔

ڈاکٹر عائشہ فرحین
عورت اور مرد کے لازم و ملزوم ہونے کے موضوع پراستعاراتی پیرائیہ میں لکھا گیا خوب ہے۔گو کہ ایک بار کے مطالعہ میں عام قاری کا اس کی فہیم تک پہنچنا تھوڑا مشکل ہے۔لیکن افسانے میں چند ایسے جملے ہیں جو موضوع کو سمجھنے میں معاوین ہیں۔یہ افسانہ دور حاضر کے شوشل سائٹس کے ذریعہ شروع ہوء محبت پھر جدائی پھر ملن کی کہانی ہے۔افسانے کا یہ جملہ وہ روشنی کی شہزادی ہمیشہ روشنیوں کے سہارے یہ دیکھتا۔۔کبھی چاندنی کی نورانی کرنوں میں اس کا عکس ابھر آتا تھا(یہاں ”ابھرتا تھا”لکھنا زیادہ بہتر ہے۔)تو کبھی سورج کی روشنی میں اس کے مدھم مدھم نقوش میری آنکھوں کو خیرہ کردیتے تھے۔ جب کبھی و ہ میری طرف اپنی مسکراہٹ کے پھول اچھال دیتی تھی تو وہ شام میرے لئے شام عشرت میں ڈھل جاتی۔”اسی جملہ سے قاری اندازہ لگا سکتا ہے۔شہزادی کا دیدار ہمیشہ روشنیوں کے سہارے ہی ہونا۔واضح اشارہ ہے۔کمپوٹر اسکرین یا موبائیل کے اسکرین کی طرف۔کبھی دن تو کبھی رات۔وقت اور موسم کے تعین کے بنا کبھی بھی روشنی کے ذریعہ دیدار کیا جاسکتا ہے اور یہی اس سائنسی دور کی محبت کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ بنا کسی سماجی روکاوٹ اور وقت کے جب چاہا محبوب کا دیدار کرلیا۔ایک زمانہ وہ بھی تھا جب محبوب کے دیدار کے لیے عاشق گھنٹوں،مہینوں، سالوں محبوب کی گلی یا کبھی چوکھٹ پہ سر دے کر مجنوں بنا پڑا رہتا۔لیکن موجودہ دور میں اب شوشل سائٹس نے اس دیدار کے مسئلے کو بڑا آسان کردیا۔اس افسانہ اس کو خوبصورت لفظوں میں پیش کیا گیا ہے۔ ایک عاشق و معشوق کا شوشل سائٹس کے ذریعہ گفتگو۔جو دونوں کے مابین محبت کو جنم دیتی ہے،اور جہاں محبت ہو رومانیت کا ہونا بھی لازمی ہے۔یہ محبت کی داستان بھی ایک ایسے عاشق کی داستان ہے جو خود لفظوں کا بازی گر ہے۔جسے لفظوں کا جادو سے مخالف صنف کو زیر کرنے کا ہنر بخوبی آتا ہے۔لیکن صنف مخالف کا۔خود کو حوا کی جگہ رکھنا اور آدم کو جنت سے نکالے جانے قصور اپنے سرلینا۔اور اس محبت کو لفظی جال کہہ کر ملن سے مکر جانا۔عاشق کو جہاں مایوس کرتا ہے وہیں اسے یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے کہ کیا وہ واقعی صرف لفظوں کا جادو گر ہے۔یہ احساسات و جذبات صرف اور صرف وقتی ہیں۔یہاں افسانے کا یہ اقتباس بھی قاری کے لئے افسانے کے تفہیم میں زیادہ اہم ہے ۔2”میں جلدی جلدی مسینجر سے لاگ آوٹ ہوگیا۔ پھر گھبراہٹ میں کمپیوٹر ہی شٹ ڈاون کردیا۔ کافی دیر تک انگلیاں بالوں میں پھرتا رہا۔ قوت ارادی یکجا کرنے میں مجھے کافی دیر لگی۔ اس نے میری تخلیقی صلاحیت کا مذاق اڑایا تھا۔ میری قوت بشری کو چلینج کیا تھا۔ میں کافی دیر تک اس بات پر غور کرتا رہا کہ کیا واقعی ایک تخلیق کار خیالی دنیا کا باشندہ ہوتا ہے۔ جس کا ظاہری رچاؤ بساؤ پھیکا ہوتا ہے۔ ہم تو کرداروں کو فاتح بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ خود کیسے کاغذی گھوڑے ثابت ہوسکتے ہیں”۔
اس اقتباس سے ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسے عاشق کے محبت کی کہانی ہے جو خود لفظوں کا باشندہ ہے جس نے کئی ایسے عاشق کرداروں کو خلق کیا ہے۔کئی کرداروں کو زندگی دی ہے ہمیشہ کے لیے جاوداں کردیاہے۔لیکن حقیقت میں اس کا اپنا کردار۔معشوق کی نظر میں صرف ایک چھلاوا ثابت ہورہا ہے۔وہ اس چیلنج پر بے حیران ہے۔ اس خوداحتسابی کے دوران اس پر یہ منکشف ہوا کہ وہ صرف لفظوں کا بازی گر یا کاغذی گھوڑا نہیں ہے۔لیکن اس کے لیے اسے ایک عرصے تک انتظار اور جداء کی بھٹی میں خود کو جلانا پڑا۔وہیں چاندنی کی کیفیت بھی محبوب سے جدائی کے بعد کچھ الگ نہیں تھی۔یہاں بھی وہی تڑپ وہی بے قراری تھی اور دونوں کی اسی کیفیت نے انھیں جہاں محبت کے آفاقی جذبے کا احساس دلایا وہیں ملن ہی اس کا واحد حل ہے یہ بھی سمجھا دیا۔
کہ ازل سے آدم اور حوا سے یہ محبت کا سلسلہ چلا آرہا ہے جو ابد تک ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن کر قائم رہے گا۔۔۔
فاضل افسانہ نگار نے نہایت ہی رواں اسلوب میں دو محبت کرنے والوں کی داستان وہ بھی دور حاضر کی انٹرنیٹ محبت کو۔۔مخلتف تشبہات اواستعاروں کے سہارے شعریت سے بھرپور زبان میں آغاز کیا اور آدم اور حوا کی محبت سے ملا کر بڑے خوبصورت انداز میں اختتام کیا۔

مشتاق مہدی
دو قسم کی کہانیاں صفہ قرطاس پر بکھری پڑی ہیں۔ایک وہ جسے ہم ادب برائے زندگی کے زمرے میں رکھتے ہیں۔اور دوسری وہ جسے ہم ادب برائے ادب میں شمار کرتے ہیں۔اسمیں فنٹاسی۔انسانی تخیلات کی کرشمہ سازی، خاب ناکی اور میجک ریلزم کا عمل ودخل زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔راجہ یوسف کی یہ کہانی دوسرے زمرے میں أتی ہے۔اس میں روایتی افسانے کے خدوخال تلاش کرنا کارِ عبث ہے۔فن کار حساس ہوتا ہے حسن وعشق کا متوالا ہوتا ہے۔اپنے تصوراتوں میں جیتا مرتا ہے۔راجہ یوسف بھی اس افسانے میں اپنی محبت یا کہنا چاہو اپنے جنون کو سمجھنے کی کوشش میں سر گراں نظر أتا ہے۔تم روشنی کی شہزادی ہواور میں روئی جیسے بادلوں کے دیس کا باشندہ۔دونوں کے بیچ کلام میں شعریت بھی ہے۔روٹھنا مننا بھی ہے اور زندگی کی گہرائیوں کا بھرپور احساس کرانے والا نشاں بھی۔

مقبول فیروزی(کشمیر)
راجہ یوسف افسانوی ادب میں کوئی نیا نام نہیں۔یہ الگ بات ہے کہ میں نے ان کو بہت دیر سے جانا اور پہچانا بھی اسمیں نہ انکا قصور نہ میرا قصور بلکہ سارا قصور زمانے کا ہے۔راجہ یوسف نے اس افسانے کو بہت ہی خوبصورتی سے تیار کرکے قارئین کے لئے پیش کیا ہے جسکا ایک ایک لفظ اور ہر ایک جملہ پُر مغز،بامعنی بلکہ کہیں کہیں ذُو معنی بھی ہے۔کہانی کار کی زبان دُرست،مکالمہ چُست اور طرز بیان ساحرانہ نیز پلاٹ ماہرانہ لگتا ہے۔سچ پوچھئے تو کہیں کہیں یہ افسانہ مجھے مترنم جمالیاتی نثری نظم لگی ۔جس سے نے بہت حظ اٹھایا۔کچھ جملوں نے بہت ہی متاثر بھی کیا۔مثلاً ’’روشنی کے دھاگوں سے کڑا ہوا شہزادی کا عکس اب روز مجھ سے باتیں کرنے لگا تھا‘‘ یا یہ’’تم بھی بادلوں سے اُتر آؤگے تو زمینی حادثات میں دفن ہوکر رہ جاؤگے‘‘ اسی طرح یہ جملہ ’’سارے طور سور ہوگئے۔‘‘ وغیرہ ان جملوں میں الگ ہی کہانی مجھے محسوس ہوئی بلکہ یہ جملے میرے لئے یک جملی افسانچے ہیں۔اس افسانے میں راجہ صاحب نے تخلیق کاراور افسانہ نگار کے تئیں لوگوں کی عدم دلچسی ناقدر شناسی اور تخلیق کار کی مایوسی کا بھی دبے الفاظ میں شکوہ بھی کیا ہے جو حق بجانب بھی ہے۔مجموعی طور افسانہ راجہ صاحب کے ہنر،زبان پر عبور،الفاظ پر گرفت اور وسیع مطالعے کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

شگفتہ یاسمین
ایک تخلیق کار خیالی دنیا کا باشندہ ہوتا ہے۔تخلیق کار ایک پل میں ہزاروں کردار تخلیق کرتا اور ہزاروں کہانیاں بنتا ہے۔خیالات کے ابر میں لاکھوں کہانیاں کھڑی اُس کے قلم کو تک رہی ہوتی ہیں کہ کب وہ مجھ پر لکھنا شروع کرے گا۔مگر یہ ایک لکھاری پر ہے کہ وہ کس کہانی کو تخلیقی لباس پہنائے یا پھر کون سی کہانی اُسے اپنی گرفت میں لے کر اُس کے قلم پر حاوی ہوجائے۔آدم اور حوا کی کہانی کو داستان سا روپ دے کر افسانہ نگار نے زندگی کی اصل حقیقت دیکھانے کی کوشش کی ہے۔نام ہو راجہ جی اور بات وہ شہزادیوں کی نہ کرے تو بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے۔تھیم آدم اور حوا کے وجود پر مبنی اور دنیا کی تخلیق پر ہے آدم کا ڈر کے کہیں اس کے کہے میں آکر جنت سے نہ نکالا جاؤں اور پھر ایک دوسرے کی تڑپ اور ملاپ۔کتنی خوبصورتی کے ساتھ کہانی کا روپ دے کر اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔پیار محبت سے حقیقت تک رسائی بڑی خوبی کے ساتھ کی گئی ہے۔دونوں کے وجود سے دنیا آبادہوئی۔راجہ صاحب نے بہت اچھے سے پلاٹ بنا اور آدم اور حوا کو کردار کا روپ دے کر تمام کائنات تک پھیلا دیا بہت اچھا منظر نگاری علامتی طور پر کی گئی۔

ڈاکٹر ریاض توحیدی(کشمیر)
راجہ یوسف کشمیری اور اردو زبان کے ایک سینئر تخلیق کار ہیں۔دوسال قبل ان کی کشمیری زبان میں ایک اہم تمثیلی کتاب’’وتھ‘‘ شائع ہوئی‘جوادبی حلقوں میں بہت پسند کی گئی۔اردو میں بھی کئی برسوں سے افسانے لکھتے رہتے ہیں۔ پیش نظر افسانے کی ابتدا میں شعری اسلوب کا حامل ایک استعاراتی خیال یعنی ”میں روئی جیسے گالوں سے بنے بادلوں کا باشندہ”دیکھ کر معروف فارسی شاعر کلیم کاشنانی کا خوبصور ت شعر یاد آیا:
گر بمستی آرزوئے ابر و باراں می کنم
سنگ می بارد ز ابر ِ پنبہ بر مینائے ما
(اگر کبھی عالم مستی میں ابر وباراں کی آرزو کرتا ہوں تو روئی کے گالوں جیسے بادلوں سے بھی میرے جام پر پتھر برسنے لگتے ہیں۔)
لیکن افسانے کی کہانی پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہانی کے فرضی کردار کا جام پتھروں سے نہیں بلکہ پھولوں سے بھر گیا ہے۔ افسانے کا مرکزی کردارایک تخلیق کار ہے اور کہانی کا تانا بانا رومانی زندگی کی اضطراری کیفیات اور دلکش لمحات سے بُنا گیا ہے‘ جو کہ دورجدید کے برقی وسیلے یعنی سوشل سائٹس کی جدید مکتوب نگاری یعنی چیٹنگ کی فنی عکاسی کرتی ہے۔ افسانے کا پہلا حصہ استعاراتی اور ابہامی نوعیت کا ہے جس میں مرد کردار ابہامی انداز سے اپنی محبوبہ کے حسن وجمال اور عشق کی سحر آمیز کیفیات کا تخلیقی اظہار کرتا دکھائی دیتا ہے۔اس کے بعد کہانی سیدھا سوشل سائیٹ کی تعلق داری کی طرف مڑھ جاتی ہے۔ جس کے دوران کہانی میں ڈرامائی اندازکی کشمکش پیدا ہوجاتی ہے‘ جس میں عاشق اور معشوق کی جدائی کا قصہ در آتا ہے۔اور افسانے کا آخری حصہ پھر افسانوی انداز سے دونوں کو ملا دیتا ہے۔اس حصے میں افسانہ نگارکی گرفت بڑی مضبوط نظر آتی ہے۔کیونکہ نصف افسانے کے بعد افسانوی اسلوب‘ زبان و بیان اورکردار نگاری کی عمدہ تخلیقی منظرکشی سامنے آتی ہے جبکہ افسانے کا پہلا حصہ تھوڑا بہت علامتی اسلوب کے چکر میں الجھاؤ کا شکار نظر آتا ہے۔یہاں پر خود افسانہ نگار بھی شاید سمجھ نہیں پایا ہے کہ خیالات کے جنگل میں وہ کہاں کہاں بھٹک گیا ہے۔۔اور چاندنی و شہزادی کی خیالی گردان تک ہی محدود رہتا ہے۔افسانے کا یہ مکالمہ بڑا اہم ہے کیونکہ اس میں قصہ آدم و حوا اور ایک تخلیق کار کی سوچ کو بڑی عمدگی سے موضوع متن بنایا گیا ہے:
’’میں تیرے فعل کی مرتکب گردانی جاؤں گی۔ تجھے جنت سے نکال باہر کردیا جائے گا۔ پھر مجھے تیرے ساتھ تیری خواہشوں کی تکمیل میں سرگرداں رہناہوگا۔۔۔ نہیں نہیں میں کبھی تیرے قریب بھی نہیں پھٹکوں گی۔ تیرے تصور میں بھی نہیں۔۔۔ تیرے تخیل میں بھی نہیں‘‘
’’میں تخلیق کار ہوں۔ اولاد ا ٓدم ہوکر بھی وہ حرکات نہیں دہراؤں گا جن سے تم بے زار ہو۔ مجھ سے بدظن ہو۔ تجھے تراش خراش کر من موہک بنادؤں گا۔ ایک تخلیق کار کی امر پریمیکا۔ جس کی بس پوجا ہوگی۔‘‘
بہرحال‘ مجموعی طور پرافسانہ اپنی ترسیل قاری تک پہنچانے میں کامیاب ہے۔اب متن کا ساختیاتی تجزیہ:
عنوان۔لازم ملزوم(واؤ عطف کی ضرورت۔لازم و ملزوم)
کبھی چاندنی کی نورانی کرنوں میں اس کا عکس ابھرتا تھا تو کبھی سورج جیسی روشنی میں اس کے مدھم مدھم نقوش میری آنکھوں کو خیرہ کردیتے تھے۔(اس جملے کو تخلیقی رنگ دینے کی ضرورت ہے۔کبھی اس کا عکس ماہتاب کی منور کرنوں میں ابھرتا تھا تو کبھی آفتاب کی چمکیلی روشنی میری آنکھوں کو اس کے جلوے سے خیرہ کردیتی۔)
شام عشرت میں بدل جاتی تھی(تھی زائد ہے۔کیونکہ جملے میں معنوی تسلسل ہے اور تھی پہلے ہی آیا ہے۔)
ایک دن میرے (ایک دن ’’جب‘‘ میرے….کیونکہ آگے جملے میں۔۔۔تو۔۔۔آیا ہے)
میرے نرم بادلوں کے دیس میں چاندنی کی برسات ہوئی(یا تومیرے نرم بادلوں کے دیس میں چاندی کی برسات ہوئی‘ لکھا جائے کیونکہ
چاندنی اتر نا محاورہ ہے یعنی چاندنی کا بلندی سے سرک کر پستی کی طرف آنا۔۔یا سیدھا… چاندنی اتر آئی تاہم اس کے لئے جملے کا اگلہ حصہ تبدیل کرنا پڑے گا کیوں افسانہ نگار کا مقصد چاندنی کا ہی کردار دکھانا ہے۔)
اور وہ اپنے سارے اردگرد کو اپنی نورانی چاندنی سے نہلاتا ہے(اور وہ اپنے گردوپیش کو۔۔۔)
شہزادی کی باتیں مجھے اپنی حدت سے پگھلا رہی تھی۔(شہزادی کی باتوں کی حدت سے میرا منجمد وجود پگھل رہاتھا۔)
بھاپ بن کر ٹپ ٹپ میری بے باک سوچ پر گر رہی تھی(پورا جملہ نحوی طور پرمعنوی ربطہ سے قاصر نظر آتا ہے۔اسے تبدیل کردیں)

غلام نبی کمار(کشمیر)
راجا مہاراجاؤں کا دور گیا لیکن اردو افسانے کے راجا جنھیں ہم راجہ یوسف کے نام سے جانتے ہیں ہمارے درمیان موجود ہیں جو اردو دنیا میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اعتراف میں خوب تعریفیں بٹور رہے ہیں۔
افسانہ ”لازم و ملزوم” راجہ یوسف ہی کے ذہن کی اختراع ہو سکتی ہے۔ ”وہ روشنی کی شہزادی” اور واحد متکلم ”روئی جیسے گالوں سے بنے بادلوں کا باشندہ”۔ رومانیت کا یہ نرم و ملائم اور سادگی سے لبریز جذبہ قاری کو اپنی معنویت میں گم کر دیتا ہے۔ یہاں لایعنی فکر کو خیالات کا حقیقی جامہ پہنایا گیا ہے۔ خیال مہمل بھی ہے اور سچا بھی۔ عشق کی بھٹی میں اس قدر سلگتا رومانی و حسی پیکر کی عمدہ مثال ہے۔ خیالی محبوب کو عشق کی پٹری پر اس طرح دوڑانا جس طرح تخلیق کار چاہتا ہے، اچھے فن کار ہی کی نشانی ہو سکتی ہے۔ افسانے کے آغاز میں واحد متکلم کو روشنی کی شہزادی کا سرور حاصل ہے کیونکہ وہ اس کے ذہن و دل پہ چھائی ہوئی ہے۔ پھر اسے آہستہ آہستہ محبوب کی دل بستگی حاصل ہوتی ہے۔ جس سے عاشق کے وجود میں ہلچل مچنے لگتی ہے۔ چنانچہ یہ ہلچل دونوں کے وجود کو تابانی بخشتا ہے۔ یوں دونوں کے درمیان قربتیں جنم لینے لگتی ہیں۔ اس کے بعد افسانہ نگار ان کے ملاپ کو مزید رنگین بنانے کی سوچتا ہے۔ وہ دونوں کو عشق کے صحرا میں چھوڑ دیتا ہے، جہاں سوچنے کی، ملنے کی اور ہم آہنگ ہونے کی آزادی ہے۔
جب ملن کا وقت آتا ہے تو محبوب/شہزادی کے ذہن میں اپنے وجود کی بقا اور اس کے تحفظ کا سوال جنم لیتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو واحد متکلم سے الگ کر لیتی ہے۔ یوں عشق کی آگ کو مزید سلگانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
واحد متکلم اپنے وجود کی دہائی دیتا ہے، فعل بد سے نجات اور ایسی سوچ سے پناہ مانگتا ہے۔ اب وہ صرف محبوب کا بھرم رکھنا چاہتا ہے، وہ اس کی قربت کا متمنی ہوتا ہے، اس کو ایک مورتی کی طرح پوجنا چاہتا ہے، وہ عشق کے دریا میں غرق ہونا چاہتا ہے، گویا وہ ایسی محبت کی مثال قائم کرنا چاہ رہا ہے جس کی ازلی و ابدی کوئی مثال قائم نہ ہوئی ہو۔
یہاں افسانہ نگار نے کہانی کو نیا موڑ دیا ہے اور شاید جس بات کا قاری نے اندازہ بھی نہ لگایا ہو۔ اپنی پاکی کا احساس کرانے کے بعد بھی واحد متکلم کے وجود پر سوال کھڑے کیے جاتے ہیں۔ اس نے تصورات و خیالات کی جو دنیا آباد کی تھی وہ اسے حقیقت میں بدلنا چاہتا تھا، حیققت کی دنیا میں آنے کے بعد اس کے ہاتھ احساس زیاں ہی لگتی ہے۔ پاکدامن ہو کر بھی اس کی سرزنش ہوئی ہے اور سچے جذبات کے ابال نے بھی اسے کوئی فائدہ نہ پہنچایا، دونوں جانب مایوسی ہی ہاتھ لگی۔
جب ایک تخلیق کار کے وجود کو للکارا جا رہا ہو جو خیالی دنیا میں بھی سرسبز و شاداب زندگی کے امکان پیدا کرنے کی جرأت و صلاحیت رکھتا ہے، اس وقت اس کی حالت زار کی کیفیت کا راجہ یوسف نے خوب منظر کھینچا ہے۔
یہاں سے واحد متکلم کے وجود میں اضطراب اور بے چینی کی کیفیت صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ واحد متکلم اس خیالی اور تصوراتی دنیا سے نکلنے میں کامیاب ہوتا ہے تاہم اس کے دل میں وسوسہ باقی رہتا ہے۔ پھر واحد متکلم کے وجود اور اس کی پاک دامنی پر سوال کھڑا کیا جاتا ہے جس بنا پر اسے عشق اور دلی جذبات سے بے دخل ہونا پڑتا ہے۔ لیکن محبت سچی ہو تو دور رہ کر بھی اس کا احساس دب نہیں سکتا۔
راجہ یوسف نے اس احساس کی اس تصوراتی دنیا میں خوب مثال پیش کی ہے۔ یوں اس احساس کو آخر کار زندگی مل جاتی ہے آج جسے دوامی حیثیت حاصل ہے۔
راجہ یوسف نے لفظوں کی مالا سے ایک خوبصورت کہانی پروئی ہے۔ اسلوب شاندار، روانی کمال کی، زبان کی چاشنی سے معمور، نقطہ آغاز و عروج و انجام میں فن کارانہ مہارت۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر نذیر مشتاق(کشمیر)
راجہ یوسف اب اردو دنیا میں ایک جانا پہچانا نام ہے۔ انہوں نے اپنے لئے ایک مخصوص اور امتیازی پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ اس کے علاہو انہوں نے اپنی مادری زبان میں تاریخ سے متاثر ہو کر ایک بہترین اور لافانی کتاب ویتھ قلمبند کی اور تاریخ میں اپنے آپ کو امر کر لیا۔ علاوہ ازیں وہ ایک انتہائی کامیاب ٹیلی ویژن رائٹر بھی ہیں۔ ان کے بیشتر افسانوں کا مطالعہ کر چکا ہوں ان کا ہر افسانہ اپنی مثال آپ ہے۔زیر نظر افسانہ لازم و ملزوم گو کہ بنی نوع انسان کی ابتدائی کہانی ہے لیکن جس طرح راجہ صاحب نے یہ کہانی پیش کی ہے وہ ہر لحاظ سے مکمل اور لاجواب ہے ۔افسانہ پڑھتے پڑھتے دل و دماغ پر ایک سرور سا چھا گیا ایسے افسانے پڑھنے کو بہت کم ملتے ہیں ۔

ڈاکٹر فریدہ بیگم(گلبرگہ)
افسانہ ”لازم وملزوم” تخلیق کائنات میں آدم و ہوا کے وجود کو ایک دوسرے کے لئے لازم قرار دیا گیا ہے۔جس کے بنا تخلیق کار کی تخلیق ادھوری ہے اور اس کے بغیر رنگ و نور نہیں۔ تخیل کی پرواز جب تخلیق میں ڈھل جاتی ہے تو مختلف رنگ بکھیر تی ہے۔بالکل غالب کے اس شعر کے مصداق:
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
افسانہ نگار نے اپنے تخیل سے جمالیاتی۔علامتی،تخریدی،تمثیلی۔سبھی رنگ کی مٹی سے ایسا تخلیق خمیر تیار کیا ہے کہ یہ افسانوی تحریر ایسا جادو جگاتی ہے کہ قاری پر سحر انگیزی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔اس کا ابتدا جمالیاتی حسن لئے ہوئے تصوراتی پیکر بناتا ہے اس کا عروج انسانی وجود کی کوائف کو ڈرامائی رنگ میں پیش کرتا ہے جو ہجرو قراق کو اجاگر کرتا ہے اور تخلیق کی قدر اس گہرائی و گیرائی کو عیاں کرتا ہے۔کلائمکس میں بڑی عمدگی سے انسانی وجود کو لازم و ملزوم قرار دیا جاتا اس میں اسلوب، زبان و بیان۔کردار خوب ہے تخیل کی پرواز مبہم لطیف ہے۔

شاداب میر(کشمیر)
میسنجر پر عاشق و معشوق کی علامتی و الگ تھلگ دنیا کی تعمیر اور محبت کی انتہا کا حسین و جمیل الفاظ میں اظہار اور قوت بشری کو ذ ہن میں رکھتے ہوئے نفی میں جواب لیکن پھر احساس وفا نے آرام سے رہنے نہ دیا اور یوں ہوا سنگم دو حسین روحوں کا دو محبت کرنے والوں کا۔یہ کہانی ہے روشنی کی شہزادی اور روئی جیسے گالوں سے بنے بادلوں کے باشندے کی۔غور طلب دونوں فانی۔عاشق اپنے آپ کو نہایت ہی کم تر اور ہوا کی دوش پر اپنے وجود کا انحصار سمجھتا اور محبوب چاند کی نورانی کرنوں جیسا چہرہ رکھے والا۔پر روز اول سے دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ایک بادل تو دوسرا چاند، محبت کمال عروج پر۔عاشق کے لیے اس کی آمد شام عشرت ہے۔اور حسن کی حد یہ ہے کہ وہ سارے اردگرد کو اپنی نورانی سے نہلاتا ہے لوگ دیدار کے منتظر رہتے ہیں۔دونوں داستانے وفا جتانے کے لیے ادبی لب و لہجے میں مخاطب ہوتے ہیں۔”تم کب کب مجھے یاد کرتے ہو”
جواب
”یہ پوچھو کب نہیں کرتا ہوں ”
”تیری یاد نہ آتے تو من کی ساری روشنیاں گل ہو جائیں گی”
پھر ایک صبر آزما سوال
”اپنے دل میں کس کس کو بسا رکھا ہے؟”
واہ واہ واہ جواب کی تو داد دیجئے
”روشنی(نور،بہار،خوبصورت، ادبی، حسین، دلکش،دل فریب، جمیل،)میں کہاں الگ الگ خانوں میں الگ الگ خدا ٹک پاتے ہیں فقط ایک صورت، ایک مورت”
یہ روحانی محبت، یہ تخلیقی کاری گری کا جادو۔کسی کے نہ ہوتے ہوئے بھی کسی کا حسین احساس
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
پر قوت بشری کو چیلنج کیا گیا تو ہوائی رابطہ منقطع ہوا۔پر عاشق کے دل میں وہ بس چکا تھا اب تو سوائے صبر کوئی چارہ نہ تھا۔
بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا
دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو
دشت عاشق رسا نہیں ہوتا
چارہ دل سواے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا
آخر محبت عشق کی شدت سے پگھل گیا اور یوں ایک نئی کہانی نے جنم لیا۔ایک تخلیق کار کی امر پریمیکا جس سے دور رہ کر بھی اس کا وجود سامنے آتا ہے تخیل اور تصور میں۔اور ایک عاشق تخیل کی دنیا میں اس کی پوجا کرتا رہتا ہے۔
کیوں سنے عرض مضطر اے مومن
صنم آخر خدا نہیں ہوتا

اشہر اشرف(کشمیر)
راجہ یوسف صاحب کا نام ریاست کے معروف اُدبا میں لیا جاتا ہے۔ موصوف اپنی ادبی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں اور صاحبِ کتاب بھی ہیں۔ ساتھ میں ایک ہر دلعزیز شخصیت کے مالک ہیں۔زیرِ نظر افسانہ ایک رومانوی رنگ لئے ہوئے کہانی ہے جو مختلف واقعات کو اپنی آغوش میں سمُوئے ایک منضبط پلاٹ میں پیش کی گئی ہے۔الفاظ میں چاشنی، جملوں میں شیرینی اور عبارت میں روانی لئے ایک بہترین اسلوب میں واحدِ متکلم کی زبانی تخلیق کار مرکزی کردار اول (میں) کے سیگے کا سہارا لیکر اور کبھی واحدِ غائب (وہ) مرکزی کردار ثانی (محبوبہ۔۔ چاندنی) کی طرف مخاطب ہوکر ایک سحر زدہ پُر کیف ماحول میں چاندنی کی طرح روشنی بکھیر تی ہوئی رواں دواں افسانے کا لبادہ اوڑھے داستانِ عشق ہے جو قاری کو آخر تک محظوظ کرتے ہوئے اپنے سحر میں قید کر کے رکھتی ہے۔ افسانہ تخلیق کار کی ذہنی اُپجّ اور ترنگ ہے جس سے وہ خونِ جگر سے تراش تے ہوئے منموہنی سے صورت میں ڈال کر اگر قابل پرستش نہیں تو لائقِ مطالعہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ غائر مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کہانی” سوشل میڈیا پر آئے روز عشق و ماشوقے کے چر چوں، اور ایک صاحبِ فن و تخلیق شخصیت کے حامل شخصیت کی کاری گری و فن” جیسے موضوعات کے پس منظر میں تخلیق کی گئی۔ یہاں تخلیق کار اس جدید نوعیت کی یاریاں (محبت و عشق) کی نفی اور مذمت کرتے ہیںاور ساتھ ہی ایک تخلیق کار کی خوبیوں کو سراہا جاتاہے۔ لیکن چاندنی کی زبانی جب اس واقع پر غور کرتے ہیں تو تخلیق کار کو ایک بے کار اور خوبصورتی کا مرعوب اور ظاہری طرح دار و ٹھاٹھ باٹھ کا مرید قرار دیا گیا ہے جس کی رد تخلیق کار خود کرتے ہیں جو اوپر زکر ہوا ہے۔پلاٹ اتنا سادہ و آسان ہے کہ سمجھنے میں کوئی دشواری پیشِ راہ نہیں ہے اور نا ہی واقعات کے بندھن میں کہیں کسی طرح کا جھول ہے، جس سے افسانے میں وحدت تاثر اختتام تک قائم رہتا ہے جو کہ ایک کامیاب افسانے کی جان یا ریڑھ کی ہڈی کہلاتا ہے۔مختصر یہ کہ افسانہ اپنی تمام تر فنی خوبیوں،۔ اسلوب۔۔پلاٹ۔۔ کردار۔۔ منظر نگاری۔ مکالمہ نگاری اور۔۔ ربط و تسلسل لئے ایک مکمل افسانہ ہے جو قاری کو دیر تک اپنے اثر میں رکھتا ہے۔ الفاظ کی نشست و برخاست،جملوں کی بناوٹ اور علامت فاعل و فعل کی دُرو بست جو متن اور اسلوب کو خوش کن بنانے میں اہم ہوتے ہیں۔ یہاں ذرا سا دھیان دینے کی ضرورت ہے۔غیر موزون: /جب کبھی وہ میری طرف اپنی مسکراہٹ کے پھول اچھال دیتی تھی/
*موزون: جب کبھی وہ میری طرف مسکراہٹ کے پھول بکھیر دیتی (تھی) اضافی ہے۔ کیوںکہ۔۔ پہلے جب کبھی لکھنے میں آیا۔ (جب کبھی:time add verbial)
پھول اچھالے نہیں جاتے۔
/میں نے دونوں ہاتھوں سے دامن پھیلا کر ساری چاندنی دامن/ میں بھر لی۔
*موزون: میں نے دونوں ہاتھوں سے دامن پھیلا کر ساری چاندنی سمیٹ لیں۔
/روشنیوں/ روشنی اسمِ واحد ہے۔ اس لئے ”روشنی” لکھنا مناسب ہوگا۔
/شہزادی کا عکس منقش تھا/
*موزون: شہزادی کا عکس عیاں تھا۔
/تب مجھ پر یہ راز منکشف ہوا کہ چاند کی اپنی کوئی رمق نہیں ہوتی۔ یہ تو روشنی شہزادی کا حسن ہے جس کا عکس چاند کی بے نور آنکھوں میں نور بھرتا دیتا ہے اور اپنے سارے ارد ھرد کو اپنی نورانی چاندنی سے نہلاتا ہے۔/
موزوں: تب جاکر مجھ پہ یہ راز آشکار ہوا کہ چاند بے نور ہے۔ یہ تو روشنی کی شہزادی کا حسن ہے جس کا عکس چاند کی بے نور آنکھوں کو منور کر تاہے اور وہ گردِ نواح کو چاندنی سے نہلاتا ہے۔ اضافی حروف اسلوب کا حسن زائل کرتے ہیں۔
/ایک مست شام کو کو چاندنی مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ رہی تھی کہ میرے سارے بر فیلے وجود میں سورج جیسی گرمی بھر گئی۔ /
*موزون: ایک سرمئی شام، چاندنی مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ رہی تھی گویا کہ میرے برفیلے وجود میں ایک تپش سی پیدا ہو رہی تھی۔
/شہزادی کی باتیں۔۔/
موزون: شہزادی کی خوشبو گول رہی باتیں حدت سے میرے وجود کو پگھلارہی تھیں۔
/ اس کی محبت جیسے مدھر مٹھاس۔۔۔۔۔بھاب بن کر۔۔۔۔۔۔تھی/
موزون: ابرِ لطف بن کر ٹپ ٹپ میری بے باک سوچ پر برس رہی تھی۔
/ میرے ذہن و دل کو بس میں کر کے میرے سارے وجود کو سیراب کر رہی تھی/
موزون: میرے زہن و قلب/ دل و دماغ کو بس میں کر کیسارے وجود کو سیراب کر رہی تھی۔
(سارے) اضافی ہے۔ وجود۔۔ میں سب کچھ۔۔ آتا ہے۔
/خاردار /۔۔ خارزار۔۔۔ مناسب ہے۔
/مسینجر سے لاگ آوٹ ہوا/ میں نے لاگ آوٹ کیا۔ بہتر رہیگا۔ علامت فعل کو دیکھ کر
مزید افسانہ حقیقی معنی میں ایک بہترین تخلیق ہے۔

بلال کھانڈے
افسانے میں چھوٹے چھوٹے جملے,الفاظ کا انتخاب,دلچسپ زبان کا برتا? قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔موضوعاتی اعتبار سے میں اس سے رومانی طرز کی کہانی سمجھتا ہوں۔پہلے atttachmentپھرdetachement اور آخر میں پھر attachmentسے مرکزی کردارکے جمالیاتی و رومانی مزاج کا پتہ دیتی ہے۔رومانیت کی اس رنگین فضا میں انشائیہ رنگ بھی غالب نظر آتا ہے۔تاہم رومانی مزاج،ایک ذہنی زاویہ,ایک انداز تجربہ ہے۔اس لیے اس کا سروکار فنی تخلیق کے تصور سے زیادہ ہوتا ہے۔نہ کہ خالص اس کے اسلوب بیان سے۔

تنویر احمد تماپوری(سعودی عرب)
راجہ صاحب کے قلم کا جادو اس افسانے میں بھی سر چڑھ کر بولتا ہوا نظر آیا۔ وہ ہمیشہ الفاظ و القاب کے سہاریاحساسات اور جذبات کی ایک ایسی دنیا بساتے ہیں کے بندہ تحریر شروع کردے تو ختم کئے بغیر سانس بھی نا لے۔ حسب سابق یہاں بھی وہ اسی جادو کو دہرانے سے نہیں چوکے۔ وہ انسان کی داخلی اتھل پتھل کو ایک کامیاب مصور کی طرح کینوس پر اتارنے میں ماہر ہیں۔عورت و مرد کے ایک عام سے موضوع کو اپنے مخصوص طرز تحریر سے خاص بناتے ہوئے قاری تک پہنچنے میں کامیاب ہیں۔ بؑعض جگہ الفاظ اور جملے ہیرے موتی کی طرح جگ مگ کررہے ہیں۔ مثلاً سمندر کو جلتی ریت سے پاٹ دینا۔ کاغذی گھوڑے، اداسیوں کے سمندر پر عارضی خوشی کا برش، کرداروں کو فاتح بنانے کا ہنر وغیرہ وغیرہ۔ ایک ادھ جگہ املا کی غلطی یا اضافی لفظ کو نظر انداز کیا جائے تو یہ ایک کامیاب افسانہ ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا