’’کرونا‘‘کی قاتلانہ نگاہیں اور لا ک ڈاؤن میں استقبال رمضان

0
0
اثر خامہ :
 *(مفتی) محمد میثاق ربانی قاسمیؔ*
         ’’کرونا‘‘قہر خداوندی ہے ،طاقت وقوت ،سیادت وقیادت اور دنیا کے ظاہر ی اسباب پر بیشتر امور میں یقین کرنے والوں کے لئے دعوت فکر وعمل دیتا ہے ،ہر فرد بشر کو خود احتسابی پر ابھارتاہے ،نظر نہ آنے والی اس وائرس کی قاتلانہ نگاہوں نے آج ہر خاص وعام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، ساری دنیا درد و تکلیف ،آہ و بکا اور بے بسی و لاچاری کی تکلیف سے دو چار ہے، امریکہ جیسے سپر پاور ملک کے خود سر حکمراں بھی سرنگوں نظر آتے ہیں ،جنہیں اپنے سائنس وٹکنالوجی کی ترقی پربے حد فخر تھا ،اس وبا نے ان کے بھی ہوش اڑا دیے ہیں ، جن کو اپنی معیشت ،وسائل اور صلاحیت و لیاقت پر ناز تھا، ا ن کو بھی اس وبا نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھ لیا کہ زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں ہی اس وبا نے اپنے بال و  پر نکالے ہیں ،ہزاروں لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل بنا لیا ہے، اور کتنےایسے ہیں جوتاہنوزاس کی چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔.
           علم و.سائنس ،ٹکنالوجی اور مستحکم وسائل کی ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے ہمارا یہ عقیدہ مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے کہ خدا کی قدرت کے سامنے دنیا کی ہر طاقت ہیچ ہے ،اس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی ہل نہیں سکتا ،وہ چاہے تو ذرہ کو آفتاب اور اعلی کواسفل کردے ،اسے پوری دنیا کو وبا میں مبتلا کرنے کے لئے کسی کے سہارے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی ،جب دنیا کی ہر شی ختم ہوجائے گی تب بھی تنہا اسی کی ذات باقی رہے گی ،اسی کے قبضے میں ہر خیر و شر ہے، وہ اپنے تمام بندوں پر بے حد مہربان ہے ،ہر طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اسی رب نے ہماری رہنمائی کی ہے، مصیبت کی گھڑیوں میں ہمیں اپنے اسی پالنہار کو یاد کرتے ہوئے اسی کے دربار میں اپنی فریاد پیش کرنی چاہیے؛ کیو ں کہ اس وائرس نے انسانی بے بسی کی ایسی داستانیں رقم کی ہےکہ لکھتے لکھتے قلم رک جائیں، کاغذ ختم ہوجائیں، تذکرہ کرتے زبانیں تھک جائیں مگر درد کم نہ ہو، یہ محض وبا نہیں قیامت کے منظر کو آنکھوں سے اوجھل کر دینے والوں کے لئے عبرت کا نشان ہے، خود کو خدا سمجھ کر بیٹھنے والوں کے لیے کڑا امتحان ہے، اور یہ حیات بے ثبات کی سبق آموزایسی کہانی ہے، جس میں سمجھنے کے لئے بہت سی نشانیاں موجود ہیں ،قدرت کی حقانیت اتنا کھل کر سامنے آگئی ہے جو انسانی بے بسی کے کئی ثبوت پیدا کر رہی ہے، کائنات کی رنگینیوں میں ہمہ وقت کھوئے ہوئے نہ رہنے کا درس دیتی ہے، صلہ رحمی، ہمدردی، عفودرگزر، عدل و انصاف کے جذبے کو ہمیشہ بیدار رکھنے کے لئے جھنجھوڑ رہی ہے ،اور اس وبانے انسانوں کو سوچنے پر مجبور کردیا ہےکہ رب کی پکڑ یقیناً بڑی سخت ہوتی ہے ،جب وہ غصہ ہوتا ہے تو کوئی تدبیر کام نہیں آتی، سرمایہ داروں کازعم ٹوٹ جاتا ہے ،جاگیرداری کا بھرم قائم نہیں رہتا، حکو مت کی کرسی بھی کمزور پڑ جاتی ہے ،ٹکنالوجی کے وسائل  بےحیثیت ہوجاتے ہیں،لکھ پتی ،کروڑپتی، ارب پتی اور دھن و دولت کا مالک بھی خود کو کوڑی کوڑی کا محتاج باور کرنے لگتا ہے ۔
 *غریب شہر تو فاقے سے مر گیا آخر*
 *امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کرلی۔*
              اس وائرس کو  ختم یا کم کرنے کے لئے تالا بندی کی مدت میں تین مئی تک توسیع کردی گئی ہے اور اسی  بیچ رمضان کی آمد آمد ہے، دو تین دن کےوقفے سےماہ مقدس تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ سایہ فگن ہونے والا ہے ،اس ماہ کا استقبال عرش پر بھی ہوتا ہے، جنت مزید سجائی جاتی ہے، عرش کے نیچے سے باد رحمت چلائی جاتی ہے ،حوروغلماں کی طرف سے رب کے حضور خوش نصیب ایسے بندوں کی چاہت ہوتی ہے، جن سے ہر ایک کی آنکھوں کوسرور عطا ہو، یہ سب انتظامات آسمان پر ہوتے ہیں ،زمین پر بھی اس مہمان کا پرزور استقبال اور اس کی آمد کی تمنائیں ہوتی ہیں،وجہ تخلیق کائنات سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم دو مہینے پہلے ہی سے ماہ رمضان کی مبارک ساعتوں کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے، جب شعبان کی آخری رات آتی اپنے جا ں نثار صحابہ کرام ؓ کے جھرمٹ میں ماہ مقدس کی اہمیت وافادیت خصوصیت وامتیازی حیثیت کا تذکرہ فرماتے ،کثرت استغفار اور شوق عبادت کی تلقین فرماتے۔
          ماہ مبارک قریب ہے اس کی آمد کے استقبال میں سب سے اہم اور ضروری چیز توبہ و استغفار ہے ،ان گناہوں سے بھی جو بندے اور رب کے درمیان ہیں ،اور ان گناہوں سے بھی  جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے تاکہ ماہ مبارک شروع ہوتے ہی شرح صدر اورپوری اطاعت و فرما ں برداری کے ساتھ اعمال رمضان میں اطمینان قلبی کے ساتھ مشغول ہو سکیں ،اور اس کی رحمتوں کی بارش ہماری زندگیوں کو کو صحیح طور پر سیراب کرسکے۔
            جب یہ ماہ شروع ہو جائے تو اس کے روشن دنوں میں ہم میں سے ہر ایک اپنے خالق و مالک کی اطاعت اور رضا جوئی کی خاطر اپنے جسم کی جائز خواہشات و ضروری مطالبات ترک کرکے اس بات کا ثبوت دے کہ اس کا مطلوب و مقصود رب کی اطاعت ہی ہے، اس کے دلوں کی سیری اوررگوں کی تری اسی کی خوشنودی میں پنہاں ہے،ورنہ بھوکے اور پیاسے رہنے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
          اور جب اس ماہ مقدس کی رات کی تاریکی چھا جائے تو فرائض و واجبات کے علاوہ رب کے حضور قیام اس کے کلام اور اس کے ذکر کی لذت و برکت سے خوب مالامال ہونے کی کوشش کرے، تاکہ اس ماہ کی ہر گھڑی میں اترنے والے خزانے کا حصہ دار ہو سکے، رب نےاپنے بیش بہا خزانے سے اس ماہ میں کیے جانے والے نفلی اعمال کو فرض کا درجہ اور ایک فرض کو ستر گنا زیادہ وزنی اور بلند کر دیا ہے، جنت کے سارے دروازےکھول دیا ہے، جہنم کے سارے دروازے بند کر دیا ہے، روزہ کو بدی کے سارے راستوں کی رکاوٹ بنا دیاہے، شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ کر برائی پھیلانے کے مواقع کم سے کم کردیا ہے، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی خالق دو جہاں نے ہر مخلص روزے دار، راتوں میں قیام کرنے والوں اور شب قدر کو عبادت و احتساب کے ساتھ گزارنے والوں کے اگلے پچھلے گناہ بخش دینے کا اعلان کیا ہے، اتنی کرم نوازیوں میں ہمیں بھی اپنے عہد بندگی کوبہ شرط استواری نبھانے اور خود آگہی وخود احتسابی کے ساتھ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے یہی عین بندگی ہے۔
          یہ عجیب اتفاق ہے کہ امسال نیکیوں کا موسم بہار اس وقت شروع ہورہا ہے جب کہ ہندوستان سمیت پوری دنیا قفل بندی کے دور سے گزررہی ہے ،اس میں بہ ظاہر شر کا پہلو ہے ،لیکن ہر شر میں ایک خیر چھپا ہوتا ہے ،برکتوں،رحمتوں والے اس مہینہ میں ہمیں مسجد کے روح پرور مناظر سے محرومی ہاتھ لگے گی ،لیکن تنہائی او رگوشہ نشینی کا جو موقع فراہم ہوا ہے اسے غنیمت جانتے ہوئے ہم اپنے رب سے لولگاکر روٹھے خدا کو منائیں گے ،ذکر واذکار ،توبہ واستغفار اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر ایک صالح زندگی کی تشکیل کا عزم کریں گے ، باتوفیق بن کر اس لاک ڈاؤن کو باعث رحمت بنائیں گے ،اپنے گھروں میں فرائض وتراویح اور روزوں کے علاوہ بہ کثرت نوافل کی ادائیگی کا اہتمام کریں گے ،اس کتاب الٰہی کی خوب تلاوت کریں گے، جو سراسر ہدایت اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی،حق وباطل کا فرق کھول کھول کر رکھ دینے والی ہے ،جس کے نزول کی نعمت پر اظہارتشکر کے لئے رمضان کے روزوں کی مشروعیت ہوئی ہے،جو مکمل فطری دستور حیات مہیا کرتی ہے ، جس میں عدل وانصاف کی تعلیم ہے ،جگہ جگہ مفلوک الحال اور مظلوم افراد پرسایہ رحمت دراز کرنے کاحکم ہے ، عورتوں کے حقوق کی پاسداری کے ساتھ ساتھ انہیں اونچا مقام عطا کرنے کی ضمانت موجود ہے ،بے بسوں ،یتیموں بے سہارا لوگوں کی طرف دست تعاون دراز کرنے والوں کے لئے جنت کی بشارت ہے،نارواسختی ودرشتی، فحاشی وبےہودہ گوئی ،فخر وغرور ،زناکاری وبدکاری ،خا ندانی وقبیلہ جاتی بے جا تعلی، غیبت وچغل خوری ،چوری وڈاکہ زنی، تعصب وہٹ دھرمی اور آپسی اختلافات جیسی بے شمار مذمو م صفات پر وعید یں او ردھمکیاں موجود ہیں،غرض اس قرآن مجید میں معاشرہ کےتمام طبقات، امن وخوف ،آزادی وقید ،اور آسان ومشکل تمام حالات کےلئے واضح رہنمایاں ہیں ۔
        لاک ڈاؤن کے ایام میں آئے اس ماہ مقدس کے شب وروز سےاستفادہ کرتےہوئےقرآن اور اس کےپیغام سے رشتہ مضبوط کریں،جس سے ہمارے اندر اصلاح کےجذبات پروان چڑھیں گے ،اخوت وبھائی چارگی کے اوصاف کو جلاملے گا ،الفت ومحبت کا پیغام عام کرنے کی توفیق میسر ہوگی ،اونچے اخلاق ،عمدہ اوصاف اور پاکیزہ زندگی کی صفات ہمارے اندر منتقل ہوں گی ، جن سے رب کی ناراضگی ختم ہوگی ،اور پھر قرآن سے اتنا دلی لگاؤ ہوجائے گا کہ اس کی تلاوت  کے بغیرہم سکون نہیں پاسکیں گے اور  ہر طرح کے آفات وبلیات سے ہم محفوظ رہیں گے ۔(ان شاء اللہ)
 (سکھسینا ارریہ بہار)
7013068520

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا