![](https://lazawal.com/wp-content/uploads/2020/04/IMG_20191104_093101_6-1-196x300.jpg)
از قلم زاہد مغل
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
استاد ایک ایسا چراغ ہے جو ہزاروں لاکھوں چراغوں کو روشن کرتا ہے اور وہ آگے چل کر اپنے معاشرے کو روشن کرتے ہیں استاد باغ کے ایک ایسے پھول کی مانند ہے جسے دیکھ کر باغ میں ہزاروں پھول کھلتے ہیں ایک استاد ہی کی بدولت انسان اپنی زندگی کے گم راہوں سے نکل کر اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہے
ہمارے معاشرے میں ایک استاد اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے جتنے کے ہمارے ماں باپ ہماری زندگی میں اہمیت رکھتے ہیں جہاں ماں باپ ہمیں میں ہماری انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ہیں وہاں ہیں دوسری جانب استاد ہمیں حیوانیت کے چُنگل سے نکال کر انسانیت کے گُر سے آشنا کرواتا ہے۔ ایک استاد چاہے بادشاہ نہیں ہوتا کتا لیکن وہ بادشاہ پیدا ضرور کرتا ہے استاد ایک معمولی آدمی کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچاتا ہے ، ”سر سید احمد خان“ جنہیں ہم دنیا کی عظیم ترین شخصیت مانتے ہیں کبھی انہوں نے بھی کسی استاد سے حروف تہجی سیکھے ہوں گے اور بھی بہت سی شخصیات جو آج بھی اس دنیا میں موجود ہیں جن کو ہم دیکھنے کے لئے ترستے ہیں ان کو بھی کسی استاد ہیں نے اس مقام تک پہنچایا ہو گا مگر افسوس کی بات ہے کہ ہم اپنے استاد کی قدر نہیں کرتے۔
اسلام نے دنیا کوعلم کی روشنی عطا کی ،استاد کو عظمت اور طالب علم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے ،بنی کریم ﷺنے اپنے مقام و مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ” مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے "۔ اسلام نے استادکو روحانی والدقرار دے کر ایک قابل قدرہستی ،محترم ومعظم شخصیت ، مربی و مزکّی کی حیثیت عطا کی۔استاد کے کردار کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس عالم رنگ و بو اور استادِ اوّل خود رب کائنات ہیں ،چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے ،اور اٰدم ؑ کو اللہ کریم نے سب چیزوں کے اسماء کا علم عطاء کیا۔ ۔انسان کی تخلیق کے ساتھ ساتھ تعلیم کا بھی انتظام فرمایا” رحمٰن ہی نے قراٰن کی تعلیم دی،اس نے انسان کو پیدا کیااس کو گویائی سکھائی”۔ذریعہ تعلیم قلم کو بنایا "پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم سے سکھایااور آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتاتھا”۔ استادِ کائنات نے انسانیت کی راہنمائی اور تعلیم کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا ء کرام کو استاد و مربّی بنا کر بھیجا ،ہر نبی شریعت کامعلّم ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ایک فن کا ماہر اور استاد بھی ہوتا تھاجسے حضرت اٰدم ؑ دنیا میں ذراعت، صنعت وحرفت کے استادِ اوّل تھے ،کلام کو ضبط تحریر میں لانے کا علم سب سے پہلے حضرت ادریس ؑ نے ایجاد کیا،حضرت نوح ؑ نے لکڑی سے چیزیں بنانے کا علم متعارف کروایا،حضرت ابراہیم ؑ نے علم مناظرہ اور حضرت یوسف ؑ نے علم تعبیر الرؤیا کی بنیاد ڈالی۔خاتم الانبیاء ﷺ نے استاد کو انسانوں میں بہترین شخصیت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایاتم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سیکھائے۔استاد کے لیے نبی کریم ﷺکی بشارت حضرت ابو ہریرہؓ نے ان الفاظ میں روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ؛غور سے سنو،دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی رحمت سے دور ہے البتہ اللہ کا ذکر اور وہ چیزیں جو اللہ تعالی سے قریب کریں یعنی نیک اعمال،عالم اور طا لب علم ( یہ سب چیزیں اللہ کی رحمت سے دورنہیں ہیں)۔استاد ہونا ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم سعادت ہے ۔معلّم کو اللہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی ہے ،مخبر صادقﷺنے استاد کی محبوبیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ لوگوں کو بھلائی سیکھانے والے پر اللہ ،ان کے فرشتے ، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں۔
امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اپنے استاد کا اتنا ادب کرتے تھے کہ کبھی استادکے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوئے۔فقہ حنفیہ کی مشہور کتاب ھدایہ کے مصنف، شیخ الاسلام برہان الدینؒ بیان فرماتے ہیں کہ ائمہ بخارا میں سے ایک امام دوران درس بار بار کھڑے ہو جاتے،شاگردوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ میرے استاد کا لڑکا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے جب مسجد کے دروازے کے سامنے آتا ہے میں اپنے استاد کی وجہ سے ادب میں کھڑا ہو جاتا ہوں ۔استاد کی یہ عظمت،مقام و مرتبہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ صفات حسنہ اور اخلاق حمیدہ کا جامع ،صبر واخلاص کا پیکر،علم و تحقیق کے خمیر میں گوندا ہوا ہو گا۔
لیکن اس کے باوجود ہم اپنے استاد کی قدر نہیں کرتے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا راز تعلیم، نظام تعلیم اور استاد کے جذبے اور جنون میں چھپا ہے اور میرے نزدیک استاد اس نظام کا سب سے اہم ستون ہے۔ ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ استاد کا کردار معاشرے کےلیے کتنی اہمیت کا حامل ہے
وہیں دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں استاد کو اس کا جائز مقام نہیں دیا جاتا جہاں استاد کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اس سے کارگردگی کا مطالبہ کیا جاتا ہے ہے جہاں استاد کو اپنے ہی محکمے کے دفتر میں دھکے کھانے پڑتے ہیں جہاں معاشرے کے کتع بتع بھی وکیل بن کر استاد کو ہر وقت کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں جہاں استاد کو اس کے مقدس پیشے کے بجائے اس کی تنخواہ کے سیاق و تناظر میں دیکھا اور جانچا جاتا ہے ایسے معاشرے میں استاد کے کندھوں پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اسے نہ صرف پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوتا ہے بلکہ اپنے کردار کی پختگی اور اپنے پیشے کے ساتھ حد درجہ وابستگی کے ذریعے معترضین کے اعتراضات کا اطمینان بخش جواب دینا ہوتا ہے۔ اس لئے ہم سب کو چاہیے کہ ہم اپنے اساتذہ کی قدر کریں۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنے اساتذہ کرام کی عزت اور قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے
شاعر نے کیا خوب کہا ہے
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں