”عورت اور پردہ “

0
0

نورین اختر راٹھور ڈگری کالج پونچھ

جستجو ہے گناہوں کی وہ شباب سے ڈرتی ہے.
افسوس آج بنت حوا حجاب سے ڈرتی ہے۔
تعریف نے کردیا اسے حقیقت سے دور ۔
خوف خدا سے نہ ماں باپ سے ڈرتی ہے۔

اللہ تعالی نے عورت کو یہ حکم ارشاد فرمایا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہا کریں اور شرعی ضرورت کے بغیر اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے اس عمل کی فضیلت بھی بیان فرمائی ہے چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ کچھ عورتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرد تو اللہ تعالی کی راہ میں جہاد میں شریک ہوکر فضیلت پا رہے ہیں لیکن ہمارا تو کوئی ایسا عمل نہیں جسے بجا لا کر ہم مجاہدین کا درجہ پا سکیں حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا تم میں سے جو گھروں میں ٹھہری رہے وہ مجاہدین کا درجہ پائے گی جو اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ۔
اسی روایت سے ہمارے معاشرے کی ان عورتوں کو سبق حاصل کرنا چاہئے جو بلاضرورت شرعی گھروں سے باہر نکلتی اور گھومتی پھرتی ہیں اور بازاروں کی رونق بنتی ہیں۔ اگر یہ عورتیں گھروں میں رہیں تو ان کو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہدین کی طرح ثواب ملے۔
یاد رہے کہ دین اسلام میں عورت کو گھر میں ٹھہرے رہنے کا جو حکم دیا گیا ہے۔ اسے مقصود یہ ہرگز نہیں کہ اسلام عورتوں کے لئے یہ چاہتا ہے کہ جس طرح پرندے پنجروں میں اور جانور باڑے میں زندگی بسر کرتے ہیں اسی طرح عورت بھی پرندوں اور جانوروں کی طرح زندگی بسر کرے بلکہ یہ حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ اس میں اس کی عزت و عصمت کا تحفظ زیادہ ہے۔ اسےاس انداز میں یوں سمجھیں کہ جس کے پاس قیمتی ترین ہیرا ہو وہ اسے لے کر سرعام بازاروں میں نہیں گومتا بلکہ اسے مضبوط سے مضبوط لاکر میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔تاکے اس کی دولت محفوظ رہے اور کوئی لٹیرا اسے لوٹنے کی کوشش نہ کرے اور اس کا یہ عمل عقل سلیم رکھنے والوں کی نظر میں بہت اچھااور قابل تعریف ہے اور اس کے بجائے وہ شخص اپنا قیمتی ترین ہیرا لےکر سرعام بازاروں میں گھومناشروع کر دے اور لوگوں کی نظر اس ہرے پر آسانی سے پڑھتی رہے عین ممکن ہے کیا اسے دیکھ کر کسی کی بھی نیت خراب ہو جائے اور وہ اسے لوٹنے کی کوشش کرے اور ایسے شخص کو چاہیں لوگ بےوقوف جیسے خطابات سے نوازے۔
خلاصہ یہ ہے کہ قیمتی ہیرے کا زیادہ تحفظ اسے مضبوط لاکر کے اندر رکھنے میں ہے اسی طرح عورت کی عظمت کا زیادہ تحفظ اس کا گھر کے اندر رہنے میں ہے نہ کہ غیر مردوں کے سامنے آنے اور ان کے درمیان گھومنے میں ہے اس سے معلوم ہوا کہ خود کو دانشور کہلانے والے لوگ حقیقت میں دانش و حکمت سے نہایت دور ہیں جو دین اسلام کے اس حکم کے بنیادی مقصد کو پیش پشت ڈال کر اور کافروں کے طرز زندگی سے مرغوب ہو کرغلامانہ ذہنیت سےاعتراضات کرتے ہیں ایسے لوگوں کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی نظر میں اسلام کے احکام کی قدر ختم ہوجائے اور عورت اسلامی احکام کو اپنے حق میں سزا کا تصور کرے اور وہ اپنی عصمت جیسی قیمتی ترین دولت تک لٹیروں کے ہاتھ پہنچنے کی ہر رکاوٹ دور کر دے اللہ تعالی مسلمانوں کو اسلامی احکام کے مقصد سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

باپردہ رہوثانی زہرا کی کنیزو
تم سے تو کسی شمر نے چادر نہیں چھینی۔
میری ماوں اور بہنوں اپ نے پردے کے متعلق اللہ تعالی کا حکم بھی سنا اور سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے پردے کے بارے میں فضیلت بھی۔ پردہ کیا ہی خوبصورت نعمت ہے جو اسلام نے ہمیں عطا کی ہے۔ ہم اسلام کی شہزادیاں ہیں اسی لیے اللہ تعالی نے ہمیں اتنا انمول عظیم تحفہ دیا ہے وہ عورتیں جو پردہ کرتی ہیں اور غیر محرم سے منہ چھپاتی ہیں وہ جاہل نہیں بلکہ جنت کے وارث اور اسلام کی شہزادیاں ہیں۔
میری بہن تیرا برقع تیرے لئے
قیدخانہ نہیں تیرے برقعے کی ایک ایک سلوٹ تیری حیا کا پہرا ہے۔
کیوں آج بنت حوا حجاب سے ڈرتی ہے۔ تو فاطمہ کی بیٹی ہے تو عائشہ کی بیٹی ہے تو مغرب کی بیٹی نہیں ہے۔

اے بنت حوا تجھے کیا ہوگیا ہے ؟
ہماری بہن بیٹیوں کے سروں سے دوپٹے اتر گئے کپڑے مختصر ہوگے عجیب حال ہےحیا پتہ نہیں کہاں چلی گئی ہے۔جو حیا کا پہرا تھااسلام کی بیٹی نے تو اسے اتار پھینکا ۔ جس قوم کی بیٹیاں ناچ گانے کو اپنا شعیار اور شوق بنا لیتی ہیں بے پردہ ہو جاتی ہیں تو ان کی گود سے پھر خالد بن ولید نہیں پیدا ہوسکتے ناچنے والے اور ناچنے والیاں اور بے پردہ ہی پیدا ہوسکتی ہیں۔
اے بنت حوا تجھے کیا ہوگیا ہے؟ میری بات تلخ ضرور ہے لیکن پھر یہی حقیقت ہے۔
آج کی خواتین پردے سے دور ہو رہی ہیں وہ سمجھتی ہیں کہ پردہ ہماری کمزوری ہے۔پردہ ہماری کمزوری نہیں بلکہ طاقت ہے۔انہیں یہ فکر لاحق ہے کہ اگر وہ پردے میں ڈھل جائیں گی تو ان کے مستقبل کا کیا ہوگا ان کے بڑھتے قدم روک دیے جائیں گے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے پردہ عورت کے لیے وہ خوبصورت لباس ہے جس کو وہ ناصرف اپنے جسم پر سجا کر وہ خوبصورت لگتی ہے بلکہ اسلام کی شہزادی نظر آتی ہے۔
کیوں آج بنت حوا حجاب سے ڈرتی ہے؟
کیوں اسے آج پردہ زندگی کا مشکل ترین کام لگتا ہے۔ کیوں آج کی عورت پردے میں خود کو قید سمجھتی ہے۔ اسلام عورت کے لیے تنگ نہیں بلکہ ہم نے خود اسے خود پر تنگ کر لیا ہے۔

جو سنبھال کر رکھتی ہے وہی جانتی ہے۔
آنچل نہیں رب کی رحمت اوڈ رکھی ہے۔

جس طرح لائبریری کے اندر بہت سی کتابیں موجود ہوتی ہیں لیکن کسی کتاب پر غلاف نہیں چڑھایا جاتا قرآن اللہ کی کتاب ہے اور یہ ساری کتابوں پر مرتبہ رکھتی ہے اور عزت و احترام کے لائق ہے۔تو اس کو غلاف میں لپٹا جاتا ہے قرآن پاک پرغلاف ڈالا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ یہ اس پر ظلم ہے بلکہ یہ اس کی عزت اور عظمت
کا بیان ہے۔
اور یہی معاملہ اسلام میں عورت کے پردے کا بھی ہے اللہ تعالی نے عورت کو پردے کا حکم دیا ہے اور پردہ اللہ تعالی کو پسند ہے اور اسلام میں عورت کو پردے کا حکم ملا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ عورت پر ظلم ہے اس کے ساتھ یہ زیادتی ہے۔ بلکہ یہ تو اس کی آبرو کا محافظ ہے اور اس کے ابرو پر پہرا ہے اس کے حسن کا محافظ ہے۔

ہے گل کیلئے رنگت، رنگت کے لیے پردہ۔
سیرت کے لئے سورت، سورت کے لئے پردہ۔
کیا خوب بنایا ہے ستار حقیقی نے۔
پردے کے لیے عورت، عورت کےلیے پردہ۔
پردہ تو عورت کے لیے ایک عظیم نعمت اور تحفہ ہے۔با پردہ عورت اگر گھر سے باہر نکلتی بھی ہے تو دنیا اسے ہوس کی نظر سے نہیں بلکہ عزت اور احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔ پردہ عورت کے لیے پابندی نہیں بلکہ اسلام کا دیا ہو وہ خوبصورت تحفہ ہے جس کو اگر عورت اوڑھ لے تو بہت ہی خوبصورت نظر آتی ہے اور پردہ عورت کے حسن کو اور بھی بڑھا دیتا ہے۔

اے بنت حوا تجھے کیا ہوگیا ہے؟
ہیں تیز ہوائیں تہذیب کی لیکن میں سر سے دوپٹے کو اترنے نہیں دوں گی۔
اے حوا کی بیٹی سوچ تو سہی کہ میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بیٹی کے پردے کا عالم کیا تھا وہ ہمارے لیے وہ نمونہ ہیں وہ کامل اور اکمل نمونہ کہ جن کے پردے جیسا کسی کا پردہ نہیں تھا۔ سیدہ پاک کو تو اس بات کی فکر رہتی تھی کہ ساری زندگی تو میں نے پردے کی حفاظت کی پردے میں گزاری لیکن مرنے کے بعد میرے پردے کی حفاظت کس طرح ہوگی۔
ہمارے یہاں ہماری زندگی میں عمل دین کی کوئی حیثیت نہیں بچی کوئی قدروقیمت نہیں بچی ہم نے دین کو ہٹا کر اس کی جگہ خاندان اور روایات کو رکھ د یا دین کی جگہ رسمورواج کو رکھ دیا ہے ہماری ناک کٹتی ہے اگر رسمورواج ٹوٹ جائیں ناک کٹتی ہے اگر خاندانی روایت پوری نہ ہو۔ مگر ناک کبھی نہیں کٹتی اللہ کے دین پر عمل نہ ہو رہا ہوں۔ لعنت ہو ایسی ناک پر جسے اللہ کے دین کا فکر نہیں جسے احکام قرآن کا فکر نہیں احکام شریعت کا فکر نہیں ہم گویا دور جاہلیت میں چلے گئے کفر سے بھی بدتر ہم اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ با عزت زندگی گزاریں وہ زندگی جسے اللہ اور اس کا رسول خوش ہو تو دین حود بھی سیکھو اور اپنی گھر کی عورت کو بھی سیکھاو۔

ہمارے جو مرد حضرات ہیں ان کا عالم تو یہ ہے کے خود اجتماعات میں جاتے ہیں جلسوں میں جاتے ہیں لیکن عورت اگر اجازت مانگے تو اسے گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دیتے دین حاصل کرنے کے لئے غیرت کے نام پر انہیں شرم تب نہیں آتی جب عورت بازاروں میں گھومتی ہے جب وہ بازاروں کی رونق بنتی ہے ہمارے ہی گھروں کی بیویاں کس طرح سج دھج کر بازارو کی طرف جاتی ہیں کیسے لباس کے ساتھ جاتی ہیں کیسے برہنہ ہو کے جاتی ہیں اور جب شادیاں ہوتی ہے تو اس کا کیا عالم ہوتا ہے۔ مرد حضرات کو چاہئے کہ وہ ہماری ماؤں بہنوں بیٹیوں کو دین کی تعلیم دیں اور انہیں باپردہ رہنے کا حکم دے کیوں کہ ان کا فرض بنتا ہے اور کل حشر میں بھی ان سے یہ سوال کیا جائے گا کہ تم نے اپنے بیوی بیٹیوں اور بہنوں کو پردے کا حکم کیوں نہیں دیا تھا۔

اس کی عزت فرشتے بھی کرتے ہیں۔
اوڑھ لیتی ہے جو بیٹی حیا کی چادر۔
آج ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں یہ کہتی ہیں کہ ہم نے جتنا پردہ کرلیا کافی ہے۔کچھ مخصوص عضا کا پردہ ہو گیا تو کافی ہے چہرے کا ہاتھوں کا ان کا کیا پردہ کرنا سر پہ دوپٹہ اوڑھ لیا یہی پردہ ہے آج کی حواتین کہتی ہیں کہ تم عورت کو پردے میں سمیٹ کے اس کی آزادی کو سلب کرنا چاہتے ہو واجبی سا پردہ کافی ہے لیکن اتنا پردہ کیا کرنا۔
میں اپنی ماں بہنوں سے یہ کہنا چاہتی ہو کہ جب عورت پہلے ہی بے پردہ ہو چکی ہیں ہاں اگر ایسا ہوتا کہ عورت پردے میں لپٹتی چلی جا رہی ہوں اور اس سے پابند کر دیا جائے اسے گھر سے باہر نہ نکلنے دیا جائے اس کی آزادی بند کر دی جائے لیکن ایسا تو نہیں ہے۔عورت کا پردہ پہلے ہی مختصر ہوتا جا رہا ہے۔ آج خواتین کہتی ہیں تھوڑا سا پردہ کر لیا کافی ہے مگر شاید ان کا ذہن یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ تو محرم کے لئے ہے اور مخصوص اعضاء کا پردہ تو اس کے باپ سے بھی ہے۔ بھائی سے بھی ہے بیٹے سے بھی ہے اور چہرے کا پاوں کا اور ہاتھوں کا پردہ عورت کے لئے اس لئے لازم ہے کیونکہ شر تو اسی سے شروع ہوتا ہے فتنے کا آغاز تو چہرے سے ہوتا ہے۔ اے بنت حوا کیا تو جانتی ہے کہ جب سیدہ پاک سے یہ پوچھا گیا کہ صحیح پردہ کیا ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ کوئی مرد اس کو نہ دیکھے اور وہ کسی مرد کو نہ دیکھے اور جہاں فتنہ کا امکان ہو وہاں تو پردہ لازم ہے چہرہ ہاتھ پاؤں تاکہ کوئی فتنہ پیدا ہی نہ ہو ۔
تجھے سجنے کی ضرورت نہیں ائے بنت حوا۔
تجھ پر سجتی ہے حیا زیور کی طرح۔
پردہ کرو کیوں کہ تم اپنے والد کا غرور ہو۔
پردہ کرو کیوں کہ تم اپنی بھائی کی غیرت ہو۔
پردہ کرو کیوں کہ تم کسی شوہر کی عزت ہو۔
پردہ کرو کہ تم اپنے گھر کی زینت ہو۔
پردہ کرو کیوں کہ پردہ حیا کا زیور ہے۔
پردہ کرو کہ پردے میں عورت کی شان ہے۔
پردہ کرو کیوں کے تم کوئی معمولی لڑکی نہیں بلکہ اسلام کی شہزادی ہوں۔
عورت تو سات پردوں میں چھپا ہوا وہ انمول موتی ہے جو پردے میں ہی چمکتا ہوا اچھا لگتا ہے پردہ اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہے۔ اے بنت حوا تیرا پردہ اس کائنات کے حسن کی علامت ہے۔تو سمٹ جائیے گی تو یہ امت پھیل گی۔ ائے بنت حوا تو مغرب کی بیٹی نہیں تم مشرق کی بیٹی ہے۔تو فاطمہ کی تو عائشہ کی بیٹی ہے۔ باپردہ رہ اور اپنے حسن کو بڑھا لئے ۔
میری ماؤں بہنوں سے یہی گزارش ہے کہ وہ پردے میں رہیں۔اور اپنے حیا پر پہرا دے۔
اللہ پاک ہمیں پردے والی زندگی اور پردہ والی موت عطا کرے آمین یا اللہ
والسلام

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا