درماندہ لداخیوں کی واپسی کا معاملہ

0
0
 کرگل کے منتخب عوامی نمائندوں کی اجتماعی طور پر مستعفی ہونے کی دھمکی
یواین آئی
کرگل؍؍لداخ یونین ٹریٹری کے ضلع کرگل میں تمام منتخب عوامی نمائندوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر ملک کے مختلف حصوں اور ایران میں پھنسے لداخیوں کی واپسی کے لئے ایک ہفتے کے اندر پالیسی ترتیب نہیں دی گئی تو وہ احتماعی طور پر استعفیٰ دے دیں گے اور کرگل میں لوگ سڑکوں پر آجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ راجستھان کے قرنطینہ مراکز میں رکھے گئے زائرین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہورہا ہے اور ہم تمام درماندہ مسافروں کے لئے از خود قرنطینہ مراکز قائم کرنے کے لئے تیار ہیں۔لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کرگل کے چیئرمین و چیف ایگزیکٹو کونسلر فیرو احمد خان نے اتوار کے روز یہاں کونسل، پنچایت اور میونسپل اداروں کے منتخب عوامی نمائندوں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ‘ہم نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں ہم نے کہا ہے کہ اگر ایک ہفتے کے اندر ہمارے مطالبات پورے نہیں کئے جاتے ہیں تو کونسل سے لیکر پنچایت تک سبھی اراکین استعفیٰ دے دیں گے۔ ہم نے اپنے لوگوں کی حالت دیکھ کر یہ فیصلہ لیا ہے۔ اگر مطالبات پورے نہیں ہوئے تو کرگل کے لوگ چھپ بیٹھنے والے نہیں ہیں’۔انہوں نے کہا: ‘راجستھان اور ملک کے دوسرے حصوں میں قائم قرنطینہ مراکز میں جو ہماری بوڑھی عورتیں ہیں وہ اردو اور ہندی بول نہیں سکتی ہیں۔ ان کو فوجی اداروں میں رکھا گیا ہے۔ ان کو کورونا متاثرہ ہونے کے نام پر اٹھاکر لے رہے ہیں۔ ہماری مائیں اور بہنیں وہاں پر ہیں۔ یہ تو کوئی انسانیت نہیں ہے’۔فیروز خان نے لداخ انتظامیہ پر زائرین اور دیگر درماندہ مسافروں کی واپسی کے تئیں غیر سنجیدہ ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا: ‘ہمارے زوار ابھی بھی ایران میں درماندہ ہیں۔ جن کو وہاں سے واپس لایا گیا ان کو راجستھان میں جیسلمیر، جودھپور اور دوسری جگہوں پر قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔ ان میں سے کہیوں کو انڈیا لائے ہوئے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے۔ جن لداخیوں کو قرنطینہ مراکز میں رکھا گیا ہے ان کے ساتھ وہاں کیا سلوک ہورہا ہے اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ راجستھان اور ایران میں پھنسے لداخیوں کو واپس لانے کے لئے حکومت کے پاس کوئی پالیسی نہیں ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کیا لداخ انتظامیہ ان کے رابطے میں ہے۔ ہمیں لگتا ہے بالکل نہیں’۔انہوں نے کہا: ‘کیا ہماری انتظامیہ جیسلمیر، جودھپور اور غازی آباد میں قرنطینہ میں رکھے گئے لوگوں کے رابطے میں ہے؟ اگر رابطہ ہوتا تو ان کا وہاں اچھا خیال رکھا جاتا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کورونا وائرس ٹیسٹ مثبت آنے کے نام پر ہماری مائوں اور بہنوں کو وہاں سے کہیں لے جایا جارہا ہے۔ کہاں لے جایا جارہا ہے کسی کو کوئی خبر نہیں۔ یہ ہمارے لئے تشویشناک بات ہے۔ ہمارے مذہبی لیڈران نے بھی اس پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ہم نے یو ٹی انتظامیہ کو مکتوبات بھیجے لیکن ہمیں کسی بھی مکتوب کا جواب نہیں مل رہا ہے۔ ہم نے انتظامیہ کو لکھ کر دیا ہے کہ ہم قرنطینہ مراکز کے قیام کے لئے جگہ دینے کے لئے تیار ہیں’۔فیروز خان نے کہا کہ ایک تو ہمارے زائرین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہورہا دوسرا ان کی واپسی کے لئے انتظامیہ کے پاس کوئی پالیسی نہیں ہے۔ ہمارے طلبا اور مقامی باشندے جو اندرون یا بیرون یو ٹی پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کی واپسی کے لئے بھی انتظامیہ کے پاس کوئی پالیسی نہیں ہے۔ ہم نے بھی اپنے لوگوں کی واپسی کا ایک منصوبہ تیار کیا ہے۔انہوں نے کہا: ‘رگزن سیمفل نے کل ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر کسی لداخ نے زوجیلا کراس کی تو ہم اس کے خلاف ایف آئی آر درج کریں گے اور جیل میں ڈالیں گے۔ کیا کوئی پاکستانی آرہا ہے کہ آپ جیل میں ڈل دیں گے؟ کیا کوئی یو پی یا بہار سے آرہا ہے؟ اپنے لوگ اپنے گھر نہیں آئیں گے تو کہاں جائیں گے؟’۔ ان کا مزید کہنا تھا: ‘کل ضلع مجسٹریٹ کرگل ایک انٹریو میں کہہ رہے تھے کہ باہر سے دس ہزار لوگ آئیں گے میں ان کو کہاں رکھوں گا۔ میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ جو آرہے ہیں وہ اپنے گھر آرہے ہیں۔ ان کو کہاں رکھنا ہے یہ ہمارا کام ہے۔ ہم ان کو قرنطینہ میں رکھنے کے لئے جگہ کا انتظام کرنے کے لئے تیار ہیں’۔فیروز خان نے لداخ کے رکن پارلیمان جے ٹی نمگیال سے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا: ‘آپ لوگ کہتے تھے کہ یونین ٹریٹری کا یہ فائدہ ہے کہ آپ براہ راست مرکز کے ساتھ جڑ گئے ہیں۔ میں ہمارے رکن پارلیمان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ راجستھان اور دوسری جگہوں پر قرنطینہ میں رکھے گئے لداخیوں کے لئے لیزان آفیسرس تعینات کروائیں۔ ہماری جو بوڑھی عورتیں ہیں وہ اردو اور ہندی بول نہیں سکتی ہیں۔ ان کو فوجی اداروں میں رکھا گیا ہے۔ اٹھاکر لے رہے ہیں۔ ہماری مائیں اور بہنیں وہاں پر ہیں۔ یہ تو کوئی انسانیت نہیں ہے’۔انہوں نے کہا: ‘آج راجستھان میں درجہ حرارت 41 ڈگری ہے اور ہمارے لوگ گرمی برداشت نہیں کرپاتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ قرنطینہ میں رکھے گئے لداخیوں میں سے کسی کو کچھ ہوتا ہے تو اس کی ذمہ دار یو ٹی انتظامیہ اور حکومت ہند ہوگی۔ ہم گذارش کرتے ہیں کہ ماہ رمضان سے پہلے آپ انہیں وہاں سے واپس لائیں۔ آپ ہمیں صرف ایک پالیسی بناکر دے دیجئے باقی انتظامات کرنا ہمارا کام ہے’۔فیروز خان نے الزام لگایا کہ لداخ انتظامیہ کوئی بھی فیصلہ لیتے وقت منتخب عوامی اداروں کو اعتماد میں نہیں لیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لداخ شاہراہ پر مال بردار گاڑیوں کی آمدورفت محدود کرنے کا فیصلہ صحیح نہیں ہے۔انہوں نے کہا: ‘اشیائے ضروریہ سے لدی گاڑیوں کو بغیر کسی روک ٹوک کے چھوڑا جانا چاہیے۔ روڑ تو بالکل کھلا ہے۔ کیا انتظامیہ یہاں اشیائے ضروریہ کی بحرانی صورتحال پیدا کرنا چاہتی ہے۔ ماہ صیام سے پہلے ضرورت زندگی کی ہر ایک چیز یہاں پہنچنی چاہیے۔ اگر لوگ سڑکوں پر آگئے تو اس کے ذمہ دار ہم نہیں ہوں گے’۔فیروز خان نے لداخ کے تین مریضوں جن کو خصوصی علاج ومعالجہ کے لئے لداخ سے باہر منتقل کرنا تھا، کے بارے میں کہا: ‘ہمارے ضلع ہسپتال کرگل میں تین ایسے مریض ہیں جن کے بارے میں ڈاکٹروں نے لکھ کر دیا ہے کہ انہیں سری نگر، پی جی آئی چندی گڑھ یا دلی منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن چھ اپریل سے انہیں یہاں پر رکھا گیا ہے اور ان کو منتقل نہیں کیا جارہا ہے۔ کیا انتظامیہ ان کے مرنے کا انتظار کررہی ہے؟’۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا