مال مویشیوں کیلئے چارہ نایاب،ڈھوکوں میں جانے کے وقت لاک ڈائون مصیبت بنا
حافظ قریشی
کٹھوعہ؍؍ ایک طرف لاک ڈاؤن اور دوسری جانب کروناوائرس آخر جائیں تو جائیں کہاں، موسم گرما شروع ہو تے ہی کٹھوعہ ضلع کے آس پاس بسے گوجر بکروال طبقہ اپنے مال میشوں کے ساتھ پہاڑی علاقوں کا رْخ اختیار کر لیتے ہیں جہاں ان لوگ کو گھاس چارہ اپنے مال میشوں کیلئے بہ آسانی سے فراہم ہو جاتا ہے اور یہ خانہ بدوش لگ بھگ اگست مہینے کے آخر تک پہاڑوں میں ہی رہتے ہیں اور ستمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی یہ لوگ پھر سے میدانی علاقوں میں وآپس آنا شروع ہو جاتے ہیں مگر اس سال جیسے ہی انکا پہاڑی علاقوں میں جانے کا وقت آیا تو کروناوائرس کے باعث میں پورے ملک میں لاک ڈاؤن لاگو ہو گیا جس کے نتیجے میں یہ خانہ بدوش کٹھوعہ ضلع کے ان ہی میدانی علاقے میں محصور ہو کر رہ گئے جن کی تعداد لگ بھگ ، 500سو سے زائد ہے اور صدیوں سے یہ خانہ بدوش لوگ اپنی بھیڑ بکری کو پہاڑوں میں چرا کر اپنا گز بسر کرتے ہیں تووہی کروناوائرس کے کارن ان خانہ بدوش لوگوں کو بھاری پرشیانی کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے ۔’لازوال‘نے جب کٹھوعہ میں ہیرانگر، بسنت پور، لکھن پور، جارائی، باگتھلی، بسے ان خانہ بدوش کے علاقوں کا دورہ کیا تو یہاں ان لوگوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے چلتے مزید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے۔ محمد شریف کا کہنا تھا کہ خانہ بدوش لوگ جب یہاں اکتوبر میں آتے ہیں تو یہاں مال مویشی کیلئے وہ پانچ مہینوں کا چارا جمع کر کے رکھتے ہیں۔ انھوں کہنا تھا کہ چارہ ایک کنال رقبے کا چارا تین، چار ہزار روپے میں خریدتے ہیں اور لاک ڈاؤن میں جسکی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لکھن پور کے رہنے والے سرموں دین نے کہنا تھا کہ خانہ بدوش سردی میں مال میشوں کیلئے پرالی، پرفین کا گھاس، اور گندم کا چارا جمع کر رکھتے اور گھاس کا محض چار، پانچ ماہ کا ہی مال میشوں کا انتظامات کئے گئے ہوتے ہیں اور اب یہ گھاس وغیرہ کا انتظامات بھی آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے اور سب سے ذیادہ مشکلات بھینس، گھوڑا، جیسے مال والوں کو ہو رہی ہے۔ انھوں نے گورنر سے اور ضلع انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ خانہ بدوش کو پہاڑوں کا رْخ کرنے کی اجازت دی جائے ۔