شب برأت اور عصرحاضر کے مسلمان

0
0

✍محمدثناءاللّٰه اثري بيرياوي

پندرہویں شعبان کی رات کو عرف عام میں شب برأت کہا جاتاہے ۔ اس رات کے بارہ میں عوام الناس کے درمیان بہت سے نظریات اور بدعتی عقائد رائج ہوچکے ہیں، جن کی تفصیل اور شرعی حیثیت ذیلی سطور میں پیش کی جارہی ہے:

1۔ فیصلوں کی رات :
عوام الناس کی اکثریت کو علماء سوء نے قرآن وحدیث کی باطل تاویلات کے ذریعے اپنے دامن تزویر میں پھنسایا ہواہے، دنیا پرست علماء نے اس رات کے بارہ میں یہ مشہور کر رکھا ہے کہ اس میں تمام انسانوں کی تقدیروں کے فیصلے ہوتے ہیں ۔ وہ بطور دلیل قرآن پاک کی اس آیت کو پیش کرتے ہیں۔

یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈرانے والے ہیں۔(سورہ دخان:3)
حالانکہ یہاں پر باری تعالیٰ نے وضاحت نہیں فرمائی کہ لیلہ مبارکہ کونسی رات ہے؟ دوسرے مقام پر اس کی توضیح کی ہے کہ لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے اور ہر مسلم اس حقیقت سے آشنا ہے کہ لیلۃ القدر ماہ رمضان میں ہوتی ہے نہ کہ شعبان کی پندرہویں رات کو ۔
2۔روحوں کی آمد :
عوام الناس میں یہ سوچ بھی سرایت کرچکی ہے کہ اس رات مردوں کی روحیں اپنے اپنے گھروں میں آتی ہیں حالانکہ باری تعالیٰ نے اس نظریہ کی تردید اپنے اس فرمان میں بخوبی کی ہے کہ

اور ان (مرنے والوں) کے درمیان دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک ایک آڑ حائل ہوگی۔(مؤمنون : 100)
3۔زیارت قبور:
قبروں کی زیارت سے آخرت کی یاد آتی ہے اور انسان مزید نیک کام کرنے پر آمادہ ہوتاہے۔ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت قبور کی اجازت بھی دی ہے اور بذات خود بھی آپ قبروں کی زیارت کے لیے متعدد مرتبہ قبرستان تشریف لے گئے ہیں مگر زیارت قبور کے لیے کسی خاص موقع کی تحدید کرنا بدعت ہے جس سے اجتناب انتہائی ضروری ہے۔

4۔ حلوہ خوری :
شب برأت میں حلوہ خوری کی رسم بد قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہے بلکہ یہ طرز عمل دنیا پرست علماء نے رائج کیا تاکہ وہ اپنے شکم کو مال حرام سے بھر سکیں ، حلوہ خور علماء اپنے اس فعل کو سند جواز فراہم کرنے کے لیے واقعہ احد کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں اس میں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت مبارک شہید ہوئے تھے تو رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلوہ تناول فرمایا تھا مگر مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ دندان مبارک کی شہادت کا واقعہ ماہ شوال 3 ہجری میں واقع ہوا اس کا ماہ شعبان یا شعبان کی پندرہویں تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
نوٹ:
بفرض محال اگر اس مفروضہ کو درست بھی تسلیم کرلیا جائے تو کامل اتباع کا تقاضا تو یہ ہے کہ پہلے اپنے دانت توڑے جائیں پھر حلوہ خوری کا ”شوق ” پورا کیا جائے۔ حاصل یہ کہ شب برأت میں حلوہ خوری عبادت نہیں بلکہ بدعت ہے جس سے کلی گریز ضروری ہے۔
اللہ رب العالمین سےدعا ہے کہ اےاللہ ہم تمام مسلمانوں کوخرافات وبدعات سے محفوظ رکھ اورہم سب کو صراط مستقیم پرچلنےکی توفیق دے….آمین

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا