یواین آئی
سرینگرعالمی وبا کورونا وائرس کے متاثرین اور مہلوکین کی تعداد میں اضافے کے ساتھ وادی کشمیر میں جہاں انتظامیہ کی طرف سے نافذ لاک ڈاون ہر گذرتے دن کے ساتھ سنگین سے سنگین تر ہورہا ہے وہیں لوگوں میں پھیل رہے تشویش و خوف کی لہر انہیں گھروں سے باہر قدم رکھنے نہیں دے رہی ہے۔وادی میں پیر کو مسلسل بارہویں روز بھی مکمل لاک ڈاو¿ن جاری رہتے ہوئے ہر سو خوف وخاموشی کا ماحول طاری رہا۔ لاک ڈاو¿ن کو ممکن بنانے کے لئے سڑکوں اور گلی کوچوں میں لگائی گئی پابندیاں سخت ترین کرفیو کا منظر پیش کررہی ہیں تاہم لوگ بھی وائرس سے محفوظ رہنے کے لئے خود بھی گھروں تک ہی محدود ہیں اور دوسروں کو بھی گھروں میں ہی بیٹھنے کی تاکید کررہے ہیں۔وادی میں اب تک کورونا وائرس سے متاثرہ دو افراد کی موت واقع ہوئی ہے۔ تاہم سری نگر کے خانیار علاقے سے تعلق رکھنے والی خاتون، جو وادی میں کورونا وائرس کا پہلا کیس تھا، مکمل طور پر صحت یاب ہوچکی ہے اور ان کے تازہ کورونا ٹیسٹ کے نتائج مثبت آئے ہیں۔ ادھر صوبہ جموں، جہاں وادی سے پہلے اس وائرس کے مثبت کیسز سامنے آنے شروع ہوئے تھے، میں بھی پیر کے روز لاک ڈاو¿ن کا نواں دن تھا۔ جموں شہر اور صوبے کے دیگر ضلع و تحصیل صدر مقامات میں تمام بازاروں میں الو بول رہے ہیں اور سڑکیں سنسان ہیں، لوگ گھروں میں ہی بیٹھے رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔گذشتہ برس 31 اکتوبر کو جموں وکشمیر سے الگ ہوکر ایک علیحدہ یونین ٹریٹری بننے والے لداخ میں بھی صورتحال تیزی سے بہتر ہورہی ہے اور اب تک سامنے آنے والے 13 مثبت کیسز میں سے تین مکمل طور پر صحت یاب ہوچکے ہیں جنہیں آئسولیشن وارڈوں سے قرنطینہ میں بھیجا گیا ہے۔ لداخ میں گذشتہ دس دنوں کے دوران کورونا وائرس کا کوئی مثبت کیس سامنے نہیں آیا ہے۔ اس یونین ٹریٹری میں بھی لاک ڈاﺅن 22 مارچ سے لگاتار جاری ہے۔یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے پیر کی صبح صورتحال کا جائزہ لینے کی غرض سے شہر سری نگر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا، نے بتایا: ‘شہر میں ہر سو خوف وخاموشی کا ماحول چھایا ہوا ہے، کرفیو جیسی پابندیاں برابر نافذ ہیں، سیکورٹی فورسز اہلکاروں نے جگہ جگہ ناکے بٹھائے ہیں جہاں پر آنے جانے والوں خواہ ہوں یا موٹر سائیکل پر سوار ہوں یا گاڑی میں ہوں، کو روکا جارہا اور ان سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے’۔نامہ نگار کے مطابق شہریوں کی شکایت ہے کہ ضلع انتظامیہ سری نگر نے ان سے راشن اور گیس گھروں تک پہنچانے کا وعدہ کیا تھا لیکن جہاں گیس ایجنسی والے گیس لانے سے انکار کررہے ہیں وہیں چاول کی ہوم ڈیلیوری کے لئے بڑی رقم طلب کی جارہی ہے۔ شہریوں کی شکایت ہے کہ انتظامیہ کے وعدے اب تک سراب ہی ثابت ہوئے ہیں۔وادی کے تمام ضلع و تحصیل ہیڈکوارٹروں سے بھی مکمل لاک ڈاﺅن کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ان علاقوں میں لوگوں کی شکایت ہے کہ جموں وکشمیر پولیس کے اہلکار لازمی اشیائ فروخت کرنے والی دکانوں کو بھی بند کرارہے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسے علاقوں میں پابندیوں کو سختی سے نافذ کرنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات رکھی گئی ہے۔سرکاری ذرائع نے بتایا کہ وادی کے ضلع و تحصیل صدر مقامات میں بھی پابندیاں جاری ہیں اور لوگوں کو گھروں میں میں بند رکھنے کے لئے دفعہ 144 نافذ ہے۔ لوگوں کو گھروں میں ہی بیٹھنے اور دیگر احتیاطی تدابیر اپنانے کے لئے پولیس کی گاڑیاں دن بھر مختلف علاقوں کا دورہ کرکے لاﺅڈ اسپیکروں کے ذریعے اعلانات کررہی ہیں۔ کئی دیہات میں نوجوان رضاکارانہ طور پر اس وائرس سے محفوظ رہنے کے لئے مساجد میں نصب لاﺅڈ اسپیکروں کے ذریعے لوگوں سے احتیاطی تدابیر کرنے کی اپیلیں کررہے ہیں۔پیشہ ور لوگوں اور طلبا کا کہنا ہے کہ ایک طرف حکومت گھروں میں ہی بیٹھ کر کام کرنے کو کہتی ہے جبکہ دوسری طرف جموں و کشمیر میں فور جی موبائل انٹرنیٹ خدمات کو بحال نہیں کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں پیشہ ور لوگ اپنا کام کاج نہیں کرپارہے ہیں اور طلبا گھر بیٹھے ہی پڑھائی کرنے سے محروم ہورہے ہیں۔لوگوں کا الزام ہے کہ پابندیوں کے نام پر سڑکوں پر تعینات سیکورٹی فورسز اہلکار ان کے ساتھ زیادتی کررہے ہیں یہاں تک کہ لازمی خدمات فراہم کرنے والے محکموں کے ملازمین کو بھی بخشا نہیں جارہا ہے۔یو این آئی ارود نے جب لوگوں کی یہ شکایت حکومت کے ترجمان روہت کنسل کے گوش گذار کی تو انہوں نے کہا: ‘وادی میں جاری لاک ڈاﺅن پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے سڑکوں پر تعینات قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے ناقابل قبول رویے کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جائے گا اور مرتکبین کے خلاف فوری کارروائی کی جائے گی’۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی بڑی آرگنائزیشن میں معمولی خطائیں سرزد ہونے کا امکان موجود رہتا ہے لیکن یہ خطائیں نوٹس میں آنے یا لائے جانے پر ہم کارروائی کرتے ہیں جس کی مثال ایس پی او کی ملازمت سے برطرفی ہے۔روہت کنسل نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی سفری تاریخ نہ چھپائیں۔ انہوں نے کہا کہ سفری تاریخ چھپانا جرم کے زمرے میں آتا ہے اور ایسا کرنے والے پورے سماج کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔دریں اثنا حکومت جہاں لاک ڈاو¿ن کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف چارہ جوئی کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب تک اس سلسلے میں سینکڑوں افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کیا گیا ہے کئی دکانوں کو سر بمہر اور گاڑیوں کو ضبط کیا گیا ہے وہیں لوگوں کو دو مہینوں کا راشن فراہم کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے