مدھیہ پردیش کا ڈرامہ اور کورونا کا قہر

0
0

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

کمل ناٹھ کے استعفیٰ سے مدھیہ پردیش میں چل رہا سیاسی گھماسان تھم گیا ۔ اسی کے ساتھ پندرہ مہینے پرانی کانگریس حکومت کی ریاست سے ودائی ہو گئی ۔ 230 سیٹوں والی اسمبلی میں کانگریس 114، بی جے پی 109، بی ایس پی 2، سماجوادی پارٹی ایک اور چار سیٹوں پر آزاد امیدواروں نے جیت حاصل کی تھی ۔ لیکن شیوراج اور بی جے پی شروع ہی سے کانگریس حکومت کے پیچھے پڑے ہوئے تھے ۔ وہ کانگریس حکومت کو پندرہ دن کی مہمان بتا رہے تھے ۔ سندھیا اور ان کے حامی ممبران اسمبلی کی وجہ سے بی جے پی اپنی سازش میں کامیاب ہو گئی ۔ اسپیکر اسمبلی نے بجٹ اجلاس میں گورنر کے خطبہ کے بعد کورونا وائرس کی وجہ سے سیشن کو 26 مارچ تک کے لئے ملتوی کر دیا تھا ۔ جس کے خلاف بی جے پی سپریم کورٹ چلی گئی ۔ سپریم کورٹ نے کانگریس کو 20 مارچ تک اکثریت ثابت کرنے کا حکم دیا ۔ جس کے بعد بی جے پی کے لئے حکومت سازی کا راستہ صاف ہو گیا ۔ دوسری طرف کانگریس کے اعلیٰ لیڈران کو بنگلور میں رکھے گئے باغی ممبران اسمبلی سے ملنے نہیں دیا گیا ۔ اس طرح بی جے پی نے دس ماہ میں دوسری ریاست کی ہاری ہوئی بازی اپنے نام کر لی ۔ مدھیہ پردیش میں آپریشن کمل جیت گیا مگر جمہوریت ہار گئی ۔

مدھیہ پردیش میں بی جے پی پندرہ سال سے اقتدار میں تھی ۔ عوام نے کانگریس کو دو گنا سے زیادہ سیٹیں دے کر اسے باہر کا راستہ دکھایا تھا ۔ بی جے پی کے دور اقتدار میں کھنن مافیاؤں کا راج تھا ۔ دلت اور کسان بری طرح پریشان تھے ۔ ہجومی تشدد اور نفرت کے واقعات کو نظر انداز بھی کردیں تو آپ کو ایک دلت کے اپنی بیوی کی لاش کو کئی کلومیٹر کندھے پر لاد کر لے جانا یاد ہوگا ۔ اسے اسپتال سے ایمبولنس فراہم نہیں کی گئی تھی ۔ ایک اور دلت کو اپنے مردے کی آخری رسومات کوڑے کرکٹ کو جمع کرکے کرنی پڑی تھی ۔ احتجاج کر رہے کسانوں پر چلائی گئی گولی سے مرنے والے کسان خاندانوں کے زخم اب بھی ہرے ہیں ۔ ویاپم گھوٹالے کو بھی ابھی لوگ نہیں بھولے ہیں ۔ کوپوشت بچوں کے واقعات بھی ابھی تازه ہیں ۔ نظام صحت اور لا اینڈ آرڈر پوری طرح چرمرایا ہوا تھا ۔ انہیں سب چیزوں نے عوام کو بی جے پی سے مایوس کیا تھا ۔ بی جے پی اور بغاوت کرنے والے ممبران اسمبلی نے عوام کے فیصلہ کی عزت نہیں کی، اور کانگریس کی حکومت کو گرا دیا ۔ اس کا خمیازہ انہیں ضمنی انتخاب میں بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔

بی جے پی نے مدھیہ پردیش کی ہی طرح کا سیاسی کھیل کرناٹک میں بھی کھیلا تھا ۔ 2018 کے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کرناٹک میں اکثریت حاصل نہیں کر سکی تھی ۔ پھر بھی اس نے گورنر کی مدد سے حکومت بنا لی تھی مگر اکثریت ثابت کرنے سے پہلے ہی استعفیٰ دینا پڑا تھا ۔ جس کے بعد جے ڈی ایس اور کانگریس کی مشترکہ حکومت بنی ۔ 17 ممبران اسمبلی سے بغاوت کراکر انہیں بی جے پی کے اقتدار والے ممبئی کے ہوٹل میں رکھا گیا ۔ اسپیکر پر دباؤ بنا کر ان کے استعفے منظور کرائے گئے ۔ اس طرح جے ڈی ایس، کانگریس کی حکومت کو جولائی 2019 کے آخر میں گرا کر بی جے پی نے اقتدار پر قبضہ جما لیا ۔ اسپیکر نے باغی ممبران پر دل بدل کے قانون کے تحت الیکشن لڑنے پر پابندی لگائی تھی ۔ اس حکم کو سپریم کورٹ کے ذریعہ خارج کرا دیا گیا ۔ باغی ممبران کی عدم موجودگی میں اسمبلی کا آنکڑا کم کرکے اقتدار حاصل کیا گیا ۔ مدھیہ پردیش کرناٹک کا ہی دوسرا ایڈیشن ہے ۔ مودی کے دور اول میں گوا، منی پور، میزورم، میگھالیہ اور اتراکھنڈ میں یہ کھیل دیکھنے کو ملا تھا ۔ مودی – 2 میں شاید بی جے پی کی نظر کرناٹک جیسی بڑی ریاستوں پر ہے ۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ دل بدل قانون سے بچنے کا راستہ نکال لیا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے کرناٹک کے باغیوں کو مرکزی و ریاستی حکومت کی پیروی پر سزا سے بچا کر اس میں مدد کی ہے ۔ دل بدل قانون سے کھلواڑ کرنے والے اکثر باغی ممبران و وزیر ضمنی انتخاب میں دولت اور سرکار کی مدد سے دوبارہ منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچ گئے ۔ مدھیہ پردیش کے سیاسی ڈرامہ میں سندھیا کا ہاتھ صاف طور پر نظر آرہا ہے ۔ سندھیا کی ناراضگی اور کانگریس کے ذریعہ نظر انداز کر حاشیہ پر دھکیلنے کی خبریں بھی اس دوران سامنے آئیں ۔ اس کی وجہ سے کئی حضرات کانگریس کو بھی مدھیہ پردیش کے لئے ذمہ دار مان رہے ہیں ۔ ہو سکتا ہے اس میں کچھ صداقت ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ سندھیا جب سے سیاست میں آئے ہیں وہ ہمیشہ اقتدار کے قریب رہے ہیں ۔ 2019 کے پارلیمانی الیکشن میں اپنی ہار کو وہ برداشت نہیں کر پا رہے تھے ۔ اقتدار کا لالچ انہیں ستا رہا تھا جس کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی سندھیا کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئی ۔ کانگریس انہیں راجیہ سبھا بھیجتی اس سے پہلے ہی وہ بی جے پی میں جانے کا من بنا چکے تھے ۔ برسراقتدار جماعت اپنی دولت اور طاقت کے دم پر انتظامیہ، قانون ساز اداروں کو ہی نہیں بلکہ تمام خود مختار جمہوری اداروں کو اپنے اشارہ پر نچا رہی ہے ۔ عدلیہ پر جمہوری اداروں کے تحفظ کی ذمہ داری ہے مگر عدالت عالیہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں لگاتار ناکام ہو رہی ہے ۔ تبھی تو بی جے پی عوام کے ذریعہ منتخب کی ہوئی اپوزیشن سرکاروں کو ہٹا کر اقتدار ہتھیانے پر آمادہ ہے ۔

پوری دنیا اس وقت کورونا کی وبا سے پریشان ہے ۔ ہزاروں لوگ مر چکے ہیں، لاکھوں لوگ اس سے متاثر ہیں ۔ بھارت میں بھی کورونا کے مریضوں میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ۔ کئی لوگوں کی جان جا چکی ہے ۔ مہلک مرض کے پھیلاؤ اور شدت کو دیکھتے ہوئے خود وزیراعظم پہلے 31 مارچ اور اب 15 اپریل تک ملک کو لوک ڈاؤن کرنے کا اعلان کر چکے ہیں ۔ عوام سے گھروں میں رہنے کو کہا گیا مگر پارلیمنٹ کو جاری رکھا گیا ۔ پارلیمنٹ کو ایک پہلے ہی ملتوی کیا گیا ہے ۔ اسی دوران مدھیہ پردیش کی چنی ہوئی حکومت کو (ہزاروں لوگوں کے بے روزگار ہونے کی فکر کئے بغیر) گرا کر ریاست میں سیاسی عدم استحکام پیدا کیا گیا ۔ پارٹی کے تمام ممبران اسمبلی کی میٹنگ کی گئی جس میں شیوراج چوہان کو لیڈر چنا گیا ۔ ممبران کو ڈنر پارٹی دی گئی، وزیر اعلیٰ کی حلف برداری کرائی گئی ۔ شیوراج چوہان نے آج ودھان سبھا میں اپنی اکثریت بھی ثابت کر دی ہے ۔ اسمبلی کا اجلاس اگلے چار دن تک چلنے کی خبر ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر کورونا وائرس سے بچنے کے لئے سوشل ڈسٹین سنگ ضروری ہے ۔ جس کے لئے 15 اپریل تک گھروں میں رہنے کو کہا گیا ہے اور بس، ٹرین یہاں تک کہ اندرونی پروازوں تک پر پابندی لگا دی گئی ہے تو پھر مدھیہ پردیش میں یہ سب کیسے ہو رہا ہے ۔ کیا مدھیہ پردیش میں کورونا کا کوئی خطرہ نہیں ہے؟ کیا بی جے پی کے ممبران اسمبلی اس سے پوری طرح محفوظ ہیں؟

خیر جو بھی ہو کمل ناتھ کے اپنی آخری پریس کانفرنس میں دیئے گئے بیان اور مدھیہ پردیش کے سیاسی حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بی جے پی کے لئے ریاست کو مستحکم حکومت دینا آسان نہیں ہوگا ۔ ایک طرف کانگریس 24 سیٹوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں جیت حاصل کر دوبارہ حکومت بنا سکتی ہے ۔ دوسری طرف بی جے پی کے غیر مطمئن ممبران اس کے لئے سردرد بن سکتے ہیں ۔ شیوراج سنگھ چوہان نے حکومت تو بنا لی ہے مگر کتنے دن چلے گی یہ وقت بتائے گا ۔ وقت سب کا آتا ہے آج بی جے پی کا ہے تو کل کانگریس کا بھی ہو سکتا ہے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا