شاداب راہی محمدی
7376254435
جیت کی امید۔آگے نکلنے کا جوش۔پیچھے رہ جانے کا ڈر۔انعام کے حصول کا جذبہ۔وقت سے آگے چلنے کا ہنر۔طیش وغضب میں کمزور کو دھکیل خود کو آگے نکالنا۔پاوں والے کا سپنا۔لنگڑے کی آہ۔بدن میں طاقت رکھنے والے کا غرور۔اپاہج اور لاغر وکمزور کا اپنی تقدیر کو کوسنا_____
آج سب ہیچ ہے۔جیت اسکی نہیں جو خرگوش کی طرح دوڑ لگائے بلکہ جیت اس کی ہے جو اسدوڑ میں حصہ ہی نہ لے۔اپاہج خوش ہیں اپنی نصیبا پر۔پاوں والے گھر بیٹھ پچھتا رہے ہیں۔اور اپاہج کی اہمیت وقیمت کا اندازہ لگا رہے ہیں۔۔۔۔
کیا وقت ہے رب ہر چیز کی اپنی قدر ووقعت ہے یہ ہمیں آج کھلے الفاظ میں سمجھ آیا۔جو قدم زمین سے نہیں لگ رہے تھے۔جو آنکھیں آسمان کو پانے کی آرزو لئے بیٹھی تھیں۔دل ہے کہ مان گیا کہ رب کی جب چلے تو پھر کسی کی نہیں چلتی۔
قدر دانوں شکر کرو اس دوڑ کا جہاں دوڑنے والا بازی نہ مارے گا بلکہ رکنے والا ہی جیت کا سہرا پہنے گا۔اس دوڑ دنیا کا کیا کہنا جس نے ساری اہمیتیں چھین لی تھی ۔رات کو گھر لوٹے والد کو بچے کا چہرہ نظر نہ آیا اور اسکول گئے بچے والد کے لوٹتے تک سو گئے تھے۔
جو مزدور بارِ زمین سے دبے جارہے تھے اسے ایک راحت وسکون ملا۔جس زندگی کو روٹی کی آس میں لگ بھگ جسم وجان کی پوری طاقت لگانی تھی اس رب نے بادشاہ جیسا کچھ ایام بیٹھ کر کھانے کا نتظام کروارہا ہے۔۔۔۔۔۔۔
کیجروال جی کا تہ دل سے شکریہ۔۔۔۔۔بقول کیجریوال کوئ غریب۔مزدور۔فقیر۔لاغر۔کمزور اور بےروزگار بھوکا نہیں مرنا چاہئے۔۔۔۔۔یقینا نہیں مرنا چاہئے اس کا انتظام برسو پہلے اسلام نے کیا زکوت۔صدقات۔کفارہ کے طریقے سے۔آپ کی سرکار اس بار نہیں بار بار آئے کہ آپ نے ہر مزدور کو پانچ ہزار روپئے ماہانہ دینگے۔جسے کھانے نہیں وہ رِین بسیرا آجائیں۔۔۔۔۔سلام ہو اے لیڈر یقینا تالی اور تھالی کو خالی بجانے سے بہتر ہے اس تالی میں غریب کی عزت۔کپڑے اور روٹی کا انتظام ہو۔اور تھالی کا کیا کیجریوال نے تو تھالی کا انتظام کر دلی کا دل جیتا۔۔۔۔جلایا اور جلنے دیا لیکن آپ کے مرہم رکھنے کا اندازہ صاحب مجھے پسند آیا_____
یہاں ان وزراء اعلی کا بھی تہ دل سے شکریہ جو اپنے صوبوں اور اضلاع میں ایسے خدمات کو انجام دینے کی بھرپور سعی اور کوشش میں سر کھپا رہے ہیں۔اس بہتری کا بدلہ آپکو اس دنیا میں آج یا کل ووٹ کی شکل میں چاہئے ہوگا آپ انہیں اس برے اوقات میں ساتھ یہ عوام آپکو ووٹ دیگی ہی۔۔۔۔۔نہیں دیگی تو اور آپشن ہی کیا ہے۔
صحیح کہا ہے کسی نے زندگی کی دوڑ اس لڈو کی طرح ہے جو ہر کوئ کھاکر پچھتانا چاہے گا۔بالکل زندگی میں ہر کوئ دوڑنے کے بعد ہی ہارنا چاہتا ہے پر اس سکون و اطمینان والی دنیا کے چند ایام کا مزا لیں۔اپنی فیملی اور والدین سے قربت اختیار کریں۔بچوں کے ساتھ والدین کی قربت کیا ہوتی اس کا حق ادا کریں۔بیویوں کے ناز ونکھرے سہ کر آفس کوئ نکل سکتا ہے گھر پر وہ سن کر سہنا اور پی جانے کی باری ہے۔جیسی بھی تقدیر ہو اس پر راضی رہنا ایک انسان کے لئے لازمی اور ضروری ہے۔بھلائ کا راز اس میں مضمر اور پنہاں ہے کہ آپ کچھ ایام دوڑیں نہیں ٹہریں اور اپنی جگہ ہی ٹہریں تاکہ آپ وبا کو ہراکر اپنی زندگی کا بچانے کے ساتھ جتا بھی سکیں_____
میرے پہلو سے کیا پالا ستم گر سے پڑا
مل گئ ظالم تجھے کفران نعمت کی سزا۔
جب تک یہ دنیا آباد تھی دوڑ ایسی تھی کہ یہ قدم مسجد سے بھی آگے نکل جاتی تھیں۔اب بے آباد دنیا میں قدم مسجد کی آباد کو فکر مند ہیں لیکن مسجدیں اور عبادت گاہیں قفل بند ہیں۔_
نعمت کی ناقدری اس سے بہتر اور کون ذات سمجھا سکتا ہے۔جو چند ایام میں یہ بتا دیا زمین میری اور مرضی بھی میری۔ہزاروں وبائیں مع علاج اس چمن میں موجود ہیں لیکن آج سامنا اس وبال کا ہے جس کی نہ دوا ہے اور نا ہی علاج ہے۔اور بات جب تدابیر کی آجائے تو مسجد اور عبادت گاہوں کے علاوہ پکار کر رب کی تدبیر حاصل کرنے کا موقع اور کہا ملے گا لیکن____
بقول شاعر
وہ تعفن ہے کہ اس بار زمین کے باســــی
اپنے سجدوں سے گئے رزق کمانے سے گئے
دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو!
کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے
ایمان قیصرانی
سوچئے۔سمجھئے۔غور کریں فکر مند ہوں تاکہ اس عیش پرستی سے نجات ملے۔حقوق اللہ ادا کریں۔حقوق العباد کا اصلی معنی ومطلب سمجھے۔اس زندگی کو جو ٹہرا سکتا ہے کیا کل وہ حساب لینے پر قادر نہیں۔۔۔۔اب بھی وقت ہے اپنے ایفاء وعہد کو نبھانے کا۔اب بھی وقت ہے اپنے رب سے رجوع کا۔جو مل گیا اسے سب کچھ سمجھ کر مکان مالک نہ بنیں بلکہ اپنی زندگی کو کرایہ دار بناکر اپنے رب کے حضور حاضر ہونے کا شعور پیدا کریں۔جاگتی قوم کو بیدار کریں۔آس پڑوس نظریں پھیلاکر اپنی حقوق کی ہمہ تن ادائیگی کریں۔جتنا تیز دوڑیں اللہ کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش نہ کریں۔عقلمندی کا ثبوت دیں۔بیوقوفی اور حماقت میں تو ہوری دنیا پڑی ہیں۔حلال کو کھائیں حرام سے کلی اجتناب کریں۔رب کی تجلی۔حساب وکتاب۔عقاب وعتاب۔جزا وسزا میں نا ہی دیر ہے اور نا ہی اندھیر ___ یہ سب انسانی دماغ کی اپج اور ہیر پھیر ہے۔
آج حالات و واقعات اور گرتی قوم وملت کے افکار ونظریات سے کون اپنی نظریں چرا سکتا ہے۔کون کہ سکتا ہے کہ ہم میں کوئ کمی نہیں۔کس قلب وجگر میں رب کی وحدانیت اور خوف قیامت بیٹھا ہے اس کا جواب صفر کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔لیکن پھر بھی یہ اقوام عالم بادشاہ بنی بیٹھی ہے۔وہ رب ہے جو وقت بوقت ایک الارم دیتا ہے کہ جاگو اب بھی وقت ہے۔کبھی طاعون۔عمواس۔ایڈز۔کینسرہے تو اب وبائ مرض کرنا وائرس ہے۔یہ اللہ کی تخلیق ہے گالیاں اور لطیفے بنانے سے کوئ فرق نہیں پڑے گا۔رجوع کریں تاکہ بچ گئے تو اچھے بن جائینگے اور مر گئے تو رجوع کا فاِدہ ملے گا۔ورنہ ٹولی بنا بنا کر لطیفے اور جوکس کی دوڑ اور واٹساپ اور فیسبکیا ہوڑ آپ کو بارگاہ یزدانی میں کوئ فائدہ نہ دے گا___
عاقل کو تو کافی ہے ایک حرفِ حکایت
نادان کو کافی ہے نہ دفتر نہ رسالہ
لہذا_ اس دوڑ کرونا وائرس کی بچاو میں اپنی تیزی کم نہ کریں بلکہ ایمرجینسی بریک ڈال کر جہاں ہیں وہیں تھم جائیں۔۔۔۔۔افسوس ہے ان افراد پر جو اب بھی اس طرز میں دوکان ومکان چلارہے ہیں اس مہاماری میں کس سے کتنا لوٹ لیں کس سے کتنا پیسہ لیلے لیں۔آئے دن مال ودولت کے حریص بے خوف اس وبائ مرض میں بھی لوگوں کے جیب اور پیسے پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔انہیں مختلف طریقہ نجات بتلاکر ہزاروں روپئے ہڑپ رہے ہیں ____ انہیں معلوم نہین۔
کہ دولت امرت دھارا یا آب حیات نہیں کہ جتنا من کیا اٹھالیا اور اس سے بہیترے مسائل کو حل کر لیا بلکہ دولت سے جتنے مسائل حل ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
یقینا بھائیوں گھر کو لازم پکڑیں۔اپنی زندگی میں تھمنا اور رکنا کسے کہتے ہیں اس کا مشاہدہ کریں آپ تھم جائیں آپ جیتینگے ان شاء اللہ۔
لالو پرساد یادو بابری مسجد تناظر میں کہا کرتے تھے۔
تم لوگوں کو مارنے کی بات کرتے ہو۔مسجد مندر کر تم آپس میں لڑانا چاہتے ہو۔۔۔۔۔سنو جب ہندو نہیں رہے گا تو مندر میں گھنٹی کون بجائے گا اور مسلمان نا رہے گا تو مسجد میں نماز کون پڑھے گا ____ اسلئے بھک بُربٙک لوگوں کو نہ مارو۔
تو آپ سلامت رہینگے تب ہی اس قوم کی فلاح وبہبود ہے۔رکیں ۔تھمیں اور زندگی کا انعام جیتے۔خوش رہیں آباد رہیں