تحریر : نیاز احسن تیمی
1993 کی بات ہے جب میرا داخلہ مادر علمی میں ہوا میں شعبہ تحفیظ کا طالب تھا اسی زمانے میں سابق شیخ الحدیث جامعہ امام ابن تیمیہ شیخ امان الله فیضی رحمہ الله کے ہمراہ جامعہ کے مہمان خانہ میں متوسط قد و قامت، گول چہرہ، کشادہ پیشانی، سرخی مائل گندمی رنگ، چہرہ پہ مسکان ایک با رعب شخصیت کے مالک اور نشان سلف "حضرت علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ الله” کے دیدار کا شرف حاصل ہوا۔ علیک سلیک کے بعد علامہ محترم نے میرے بارے میں پوچھا یہ بچہ کون ہے؟ شیخ الحدیث رحمہ الله نے میرا تعارف کرایا اور بتایا کہ بچہ یتیم ہے اتنا سننا تھا کہ علامہ رحمہ الله نے فوراً میرے سر پہ دست شفقت رکھا اور ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازتے ہوئے گویا ہوئے کہ بابو آپ بڑی عظیم شخصیت کے زیرِ سایہ تربیت پا رہے ہیں ان کی لاج کو باقی رکھئے گا، محنت کے ساتھ پڑھ لکھ کر خوب بڑا بنئے۔ اتنی ساری دعائیں ملنے کے بعد بچپن کے اس عمر میں جو خوشی ہوئی اسے بیان نہیں کرسکتا۔ رفتار زمانہ کے ساتھ جیسے جیسے ہوش میں پختگی آتی گئی علامہ موصوف کی مثالی شخصیت سے بے پناہ محبت وقربت بڑھتی رہی ساتھ ہی آپ کی زندگی کے بہت سارے گوشوں سے بھی واقفیت ہوئی۔
متحدہ ہندوستان کی ریاست بہار کے ضلع چمپارن واقع "چندنبارہ” نامی بستی میں 1943 میں پیدا ہونے والے "محمد لقمان” نے زندگی کے مختلف نشیب وفراز کو عبور کرتے ہوئے قرآن وسنت کا علم حاصل کیا معلوم ہو کہ اسی علم کی برکت اور اس کی نشرواشاعت کی بنیاد پہ آپ دنیا کے اعاظم و اکابر کی صفوں میں شمار کئے جانے لگے جہاں سے آپ نے اپنی بے پناہ جہاندیدہ صلاحیتوں اور خوبیوں کی بدولت انسانیت کی فلاح وبہبود اور اس کی تعمیر وترقی کا عظیم کارنامہ انجام دیا، انہی عظیم خدمات نے آپ کو "محمد لقمان” سے مفسر قرآن، شارح حدیث، فقیہ اسلام، مؤرخ وسیرت نگار، ادیب باکمال، خطیب بے مثال، ناشر کتاب وسنت، ائمہ ہدٰی وسلف صالحین کے تراث علمی کے امین، بانی و رئیس جامعہ امام ابن تیمیہ اور علامہ ابن باز اسلامک اسٹڈیز سینٹر کے روح رواں کی حیثیت سے اطراف عالم میں "علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی” کی شکل میں متعارف کرایا (و ذالک فضل الله یؤتیہ من یشاء)
علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی/رحمہ اللہ فکری طور پر اپنے شیخ و مرشد سماحۃ الشیخ ابن باز اور امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمہم الله سے مماثلت رکھتے تھے جس کی تائید آپ کی تحریروں اور تقریروں سے ہوتی ہے۔آپ رحمہ الله سلفیت کے بے مثال نقیب اور منہج کتاب وسنت کے بڑے مضبوط وکیل تھے، ہمیں یاد ہے چندنبارہ میں ایک مرتبہ آپ نے اپنے کسی قریبی رشتہ دار کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور فقہ حنبلی کے مطابق ایک ہی سلام پہ اکتفاء کیا جنازہ میں موجود اکثریت نے ہنگامہ کھڑا کردیا کہ نماز غلط ہوگئی اور باضابطہ علامہ موصوف سے مطالبہ کیا کہ یا تو دوبارہ نماز پڑھائیں یا یہ کہہ دیں کہ ہم سے غلطی ہوگئی آپ رحمہ الله اپنے موقف پہ پوری مضبوطی کے ساتھ قائم رہتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ سنت کا یہ بھی ایک طریقہ ہے جس پہ میں نے عمل کیا ہے اب دوبارہ نمازِ جنازہ پڑھانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا بالآخر مخالفین کو لا جواب ہوکر لوٹنا پڑا۔
خراسانی مجاہد، دادا شیخ یاسین رحمہ الله کے آنگن میں آنکھیں کھولنے والا انقلابی پوتا، بلند ہمت و حوصلہ اور مستحکم ارادوں کے مالک علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ الله نے 1964 میں وسائل و ذرائع سے محروم ایک انتہائی کوردہ علاقہ "چندنبارہ” میں علم و دانش کی بستی "مدینۃ السلام” کو آباد کیا اور اخلاص وللّٰہیت کے ساتھ جھونپڑیوں پہ مشتمل "المعہد الاسلامی” کے نام سے ایک چھوٹے سے ادارہ کی بنیاد ڈالی جو مختلف مراحل سے گزر کر "مرکز العلوم الاسلامیہ” کے نام سے ترقّی کے منازل طے کرتا ہوا دنیائے افق پہ عظیم درسگاہ "جامعہ امام ابن تیمیہ” کی شکل میں نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت کم مدت ميں یہاں کے خوشہ چیں اکناف عالم میں چھا کر مختلف شعبوں میں ملک وملت اور انسانیت کی خدمات انجام دینے لگے۔
قارئین! چمن کا مالی اپنے گلشن کے پیڑ پودوں کو ہمیشہ لہلہاتا ہوا سرسبز و شاداب ہی دیکھنا پسند کرتا ہے وہ کبھی یہ گوارا نہیں کرتا کہ اس کی نگاہوں کے سامنے کوئی کلی مرجھائی ہوئی نظر آئے یا کوئی پودا کھردراپن کا شکار ہو ٹھیک یہی کیفیت ہمارے علامہ مفکّر اسلام رحمہ الله کی بھی تھی، آپ اپنے بسائے ہوئے گلشنِ علم وآگہی اور اس میں زمزمہ خوانی کرنے والے روحانی بیٹے اور بیٹیوں سے بھی ٹوٹ کر محبت کیا کرتے تھے آپ یہ کبھی گوارہ نہیں کرتے تھے کہ ہمارے بچوں کو کسی طرح کی کوئی اذیت پہنچے بلکہ بسا اوقات ہم نے دیکھا کہ جب آپ کو بچوں کے کسی تکلیف کا آپ کو علم ہوتا تو آپ تلملا اٹھتے, اور متعلقہ ذمہ داران سے بڑی سختی کے ساتھ پیش آتے اور فرماتے کہ یہ ہمارے بیٹے ہیں جس طرح میں اپنے بیٹے عبداللہ کی کوئی تکلیف برداشت نہیں کرتا اسی طرح ان بچوں کی تکلیف بھی ہرگز برداشت نہیں کرسکتا، آپ رحمہ الله کا یہ معمول تھا کہ بلاد حرمین سعودی عرب سے سال میں دو مرتبہ مادر علمی جامعہ امام ابن تیمیہ کی زیارت کے لئے ضرور تشریف لاتے، دوران قیام ہر شعبہ کے ذمّہ دار، اساتذہ و معلمات اور طلبہ وطالبات کے ساتھ آپ کی خاص نشست ہوتی جس میں مختلف ناحیہ سے جامعہ کی تعمیر وترقی پہ غور فرماتے طلبہ وطالبات سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کرتے، حوصلہ افزا کلمات کہتے اور خوب نصیحتیں فرماتے۔
آج علامہ محترم کی وفات کے بعد مادر علمی کا ایک ایک ذرّہ اور اس کے متعلقین ماتم کناں ہیں، جامعہ کی عالیشان جامع مسجد اپنی بے بسی پہ آنسو بہا رہی ہے اب کس کی آمد پہ میں خوشیاں لٹاؤں گی جس کا ربانی وجود میرے منبر و محراب کو مزین کیا کرتا تھا، ابوالکلام آزاد سنٹرل لائبریری مرثیہ خواں ہے اور اپنے زائرین سے پوچھ رہی ہے کہ اب میرے در و دیوار کو علم و حکمت کے گل بوٹوں سے کون سجائے گا؟ دار الداعی اور ابن باز اسلامک اسٹڈیز سینٹر نوحہ کناں ہے کہ اب تحقیق وتالیف اور نشر واشاعت کا کام میں کس علمی شخصیت کے زیرِ نگرانی کروں گا؟ ادھر جامعہ امام ابن تیمیہ کا فکری وعلمی ترجمان مجلہ "طوبٰی” اور "الفرقان” مفکر اسلام کی سرپرستی سے محرومی پہ آبدیدہ ہے کہ اب "صدائے حکمت” اور "علم وآگہی” کے زیور سے مجھے کون آراستہ کرے گا؟ محدث عصر علامہ البانی ہال کا وجود تھم سا گیا ہے کہ اب میری آغوش ميں مسند صدارت پہ کون جلوہ افروز ہوگا؟ دار الضیافۃ سے بھی سسکیوں کی آواز آرہی ہے کہ اب ہم اپنے آہنی دروازہ پہ کس کا استقبال کریں گے؟ حکمت و دانائی کا وہ امام کہاں چلا گیا جو اپنے رفیقوں کے ساتھ میری چوکھٹ پہ جلوہ نشیں ہوکر جامعہ اور اس کے ذیلی شعبوں کے تعمیر وترقی کی پلاننگ کیا کرتا تھا، نیم کا وہ شجرِ سایہ دار بھی پھوٹ پھوٹ کر رو رہا ہے کہ اب مجھ بے زبان کا ذکرِ خیر بطورِ شہادت کون پیش کرے گا؟ طلبہ وطالبات شدّتِ غم سے نڈھال ہیں کہ اب "ومن احسن قولا ممن دعا الی الله و عمل صالحا” اور "ادع الٰی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ” کی تفسیر ہمیں کون پڑھائے گا؟ تیمی برادری احساسِ یتیمی لئے زار و قطار ہے کہ اب بحیثیتِ مدرّس ومربّی، داعی و منتظم، اور صحافی و خطیب ہم سے خوش ہو کر پدرانہ شفقتوں کو نچھاور کر کے اپنی قیمتی دعاؤں سے ہمیں کون نوازے گا؟ تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر میرے اجداد کا سرمایہ عزت ہوا
قارئین! مفکر اسلام رحمہ الله عالمگیر شخصیت کے مالک تھے، ملک وملت اور انسانیت کی خاطر آپ کی عظیم خدمات ہیں، اللہ نے آپ کو امانت و صداقت اور عجز و انکساری کا پیکر بنایا تھا، جامعہ امام ابن تیمیہ اور کلیہ خدیجۃ الکبریٰ لتعلیم البنات کی شکل میں امت کو آپ نے بڑا قیمتی سرمایہ عطاء کیا ہے جس سے قوم وملت ان شاء الله قیامت تک مستفید ہوتی رہے گی، ان اداروں کے قیام سے کتاب وسنت کے منہج اور اسلامی تہذیب وثقافت کو فروغ ملا، جہالت و ناخواندگی کا خاتمہ ہوا بالخصوص تعلیمِ نسواں کی تحریک عام ہوئی اور الحاد و لادینیت کے بادل چھٹے۔
علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ الله کو تعلیمی تحریک کو عام کرنے ،احیائے دین اور دعوت دین کی راہ اختیار کرنے کی پاداش میں غیر تو غیر اپنوں کی طرف سے بھی فتنے اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، جامعہ امام ابن تیمیہ جس کے قیام کا مقصد ہی یہ تھا کہ کتاب وسنت کی تعلیم اور دعوتِ دین عام ہو لیکن کچھ نا عاقبت اندیشوں کو یہ چیز بھلی نہیں لگی چنانچہ انہوں نے نت نئے فتنے کھڑے کئے، جامعہ اور اربابِ جامعہ پر مصائب کے بادل چھانے لگے ایسے وقت میں بانئ جامعہ رحمہ الله کے صبر و عزیمت اور ثبات قدمی کو عملی طور پر دیکھنے کا موقع ملا، بڑی جرأت و بے باکی اور بہادری کے ساتھ آپ نے مخالفین کا سامنا کیا اور ببانگ ِدہل یہ اعلان کیا کہ اگر میرا جرم دعوت الی اللہ اور احیائے کتاب وسنت ہے تو میں یہ جرم بار بار کروں گا اور اس کی پاداش میں مجھے جو بھی سزا ملے منظور ہے الله اکبر یہ تھا آپ کا ایمانی جذبہ ۔آج آپ تو نہیں ہیں مگر آپ کی امیدوں کا چمن، عظیم شاہکار "جامعہ امام ابن تیمیہ” اور دوسری خدمات موجود ہیں دعاء ہے کہ خلقِ خدا قیامت تک آپ کی ان عظیم خدمات سے مستفید ہوتی رہے نیز آپ کے خلفِ صالح، رئیسِ جامعہ ڈاکٹر عبداللہ محمد السلفی حفظہ الله اور ان کی پوری ٹیم کو ربِّ قدیر اس بات کی توفیق عنایت فرمائے کہ مادرِ علمی کو پوری ایمانداری اور فہم وفراست کے ساتھ اپنے مشن میں رواں دواں رکھے ساتھ ہی تیمی برادری بھی خیر خواہانہ جذبہ کے ساتھ ایک سچے سفیر کی حیثیت سے جامعہ کی تعمیر وترقی میں محترم رئیسِ جامعہ اور دیگر ذمہ داران کا بھر پور تعاون فرمائے کیونکہ ہم سب کی طرف سے بانئ جامعہ کو یہی سچاخراجِ عقیدت ہوگا ۔
05/مارچ 2020 بروز جمعرات آسمانِ علم وفن کا یہ چمکتا ہوا ستارہ اپنی علمی، فکری، دینی، دعوتی اور تعلیمی کارناموں کے انمٹ نقوش چھوڑ کر ہم سب کو سسکتا، بلکتا اور ہچکیاں مارتا چھوڑ کر ہمیشہ ہمیش کے لئے غروب ہوگیا (رحمہ الله رحمة الابرار) اللہ آپ کو جنت الفردوس کا مکیں بنائے اور آپ کی قبر پہ نور و رحمت کی برکھا برسائے ۔(آمین)
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
ڈائریکٹر :آئیڈیل چائلڈ اسکول، بھکورہر، بیرگنیا، سیتامڑھی