” کورونا وائرس کے حوالے سے حکومت ہند کو چند مخلصانہ نصیحتیں "*

0
0

تحریر : ابو رَزِین محمد ہارون مصباحی فتح پوری
استاذ الجامعۃ الاشرفیہ،مبارک پور ،اعظم گڑھ
عالمی وبا کورونا وائرس اب ہمارے ملک میں بھی پیر پسار رہا ہے، خبروں کے مطابق اب ایسے لوگ بھی اس کے شکار ہونے لگے ہیں جنھوں نے حالیہ ایام میں بیرون ملک کا کوئی سفر نہیں کیا ہے۔

ایسے حالات میں حکومت ہند کا فکر مند ہونا اور اس وبا کی روک تھام کے لیے ضروری تدابیر اختیار کرنا ایک فطری امر ہے۔ حکومت فکر مند بھی ہے، اپنے طور پر مختلف تدابیر اختیار بھی کر رہی ہے اور اس حوالے سے ہندوستانی شہریوں میں بیداری بھی لا رہی ہے جو واقعی ایک خوش آئند قدم ہے۔

ہم سے پہلے کئی ممالک اس کے شکار ہو چکے ہیں اور اس کی روک تھام کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ دنیا اس طرح کی وباؤں سے پہلے بھی دوچار ہو چکی ہے اس لیے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس وبا کے شکار دیگر ممالک کیا تدابیر اختیار کر رہے ہیں اور ان کی کون کون سی کوششیں کار گر ثابت ہو رہی ہیں۔ ساتھ ہی اس طرح کی جن وباؤں سے دنیا پہلے دوچار ہو چکی ہے ان پر قابو پانے کے لیے کیا کیا کوششیں کی گئیں اور کون سی تدبیریں کار گر ثابت ہوئیں ان پر نظر کرنا بھی ضروری ہے تاکہ اس کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ان کوششوں اور تدابیر کو بروئے کار لایا جائے۔

*اس وقت ہماری نظر میں کچھ ایسی تدابیر ہیں جنھیں اگر حکومت ہند اپناتی ہے تو ان شاء اللہ خاطر خواہ فائدہ نظر آئے گا، اور اس وبا کو روکنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل ہوگی۔*

*01:* کہتے ہیں کہ آسمانی بلائیں ہماری کرتوتوں کا نتیجہ ہوتی ہیں اور مظلوموں کی آہ کا اثر۔ اس لیے اگر ہم واقعی کسی آسمانی بلا کا علاج ڈھونڈ رہے ہیں اور اپنی کوششوں میں سچے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور ان مظلومین تک پہنچنا چاہیے جن پر ہمارے ہاتھوں یا ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے زیادتی ہوئی ہے اور ان سے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگنی چاہیے، ان پر کی گئی زیادتیوں کا مداوا کرنا چاہیے، ان کے آنسو پونچھنا چاہیے، ان کو خوش کرنا چاہیے اور ان کی ضرورتیں پوری کرنی چاہئیں تاکہ ان کی آہ کے زیر اثر جو بلا آئی ہے وہ ان کی خوشی کے کلمات سے دور ہو سکے۔

*موجودہ حکومت کو چاہیے کہ اس کے دور میں ہونے والے مختلف قسم کے فسادات میں ظلم و زیادتی کے شکار لوگوں، گھرانوں اور خاندانوں کو تلاش کرے اور فوری طور پر ان سے معافی مانگے، ان کی ضرورت کی چیزیں انھیں مہیا کرے اور ان کے لیے ایک بہتر اور خوش حال زندگی کا انتظام کرے۔ خاص طور سے دہلی فساد متاثرین کی مدد کرے اور ان کے رہنے اور کھانے کا انتظام کرے، جیلوں میں بند بے قصور لوگوں کو فورا رہا کرے۔*

*02:* ملک کے غریب طبقے پر اپنی توجہ مرکوز کرے، مزدوری کرنے والوں پر خاص توجہ دے اور جب تک کام کاج بند رہے ان کے کھانے پینے کا انتظام کرے۔

*03:* ملک میں پھیل رہی نفرت کی سیاست پر لگام لگاۓ، مذہب کے نام پر دنگا فساد پھیلانے والوں پر اب تو نکیل کسے۔ *کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایسے نازک حالات میں بھی کچھ لوگ نفرت کی سیاست کر رہے ہیں، آج ہی شاہین باغ میں کچھ لوگوں نے پروٹیسٹ کرنے والوں سے مار پیٹ کی یہاں تک کہ پیٹرول بم تک پھینکا۔*

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو پیار دیا جائے، ایک دوسرے کو مدد فراہم کی جائے، ایک دوسرے کو سہارا دیا جائے اور مذہب کے نام پر دلوں میں پل رہی عداوتوں کا خاتمہ کیا جائے تاکہ اس عذاب الہی سے بچا جا سکے۔

*حکومت کو چاہیے کہ لوگوں تک یہ پیغام ضرور پہنچاۓ کہ وہ اپنے دلوں سے نفرت کے جذبات نکال کر دلوں کو ایک دوسرے کے تئیں محبت اور دوستی کے جذبات سے لبریز کریں اور بلا تفریق مذہب و ملت ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔*

*04:* خبریں آ رہی ہیں کہ مہاراشٹر میں کئی اماموں اور مساجد کے ارکان کمیٹی کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے، ساتھ ہی نمازیوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا جا رہا ہے۔ *خدا کے لیے ایسا نہ کریں۔ ان اماموں اور ان نمازیوں کی دعاؤں کے زیر اثر یہ بلا ٹالی جا سکتی ہے۔ ایسے نازک حالات میں عبادت گاہوں کو آباد کیا جاتا ہے نہ کہ ویران۔ اس لیے جو لوگ مساجد میں جا کر عبادت کرنا چاہتے ہیں انھیں روکا نہ جائے، بس انھیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کی جاۓ اور اس اہم کام کے لیے مساجد کے ائمہ سے کام لیا جاۓ۔*

مساجد کے اماموں کی لوگ قدر کرتے ہیں، ان کی باتوں پر توجہ دیتے ہیں اور عمل کی کوشش کرتے ہیں، اس لیے اس وبا کی روک تھام کے سلسلے میں یہ امام بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں اور ان سے اچھی خاصی مدد لی جا سکتی ہے۔ اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب لوگ مسجد جائیں، اس لیے لوگوں کو مساجد کی حاضری سے نہ روکنا ہی بہتر ہوگا۔

*ہم نے جو باتیں بیان کی ہیں ماضی کی تاریخ بھی ان کی تصدیق کرتی ہے۔ اس سے پہلے بھی مہلک وبائیں نازل ہوئی ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ مسجدوں میں تالے لگا دیے گئے ہوں۔ اس لیے ایسے حالات میں سعودی حکومت یا کسی عرب کنٹری کے طریقہ کار کو ہمارے لیے رول ماڈل نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ان کا اپنا پرسنل طریقہ کار ہے اور ہم جو بتا رہے ہیں وہ تاریخ کی روشنی میں بتا رہے ہیں۔*

تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ اس طرح کی بلائیں اس وقت دور ہوئیں جب لوگوں نے اپنے گھروں کو چھوڑ کر مسجدوں کی پناہ لے لی اور اللہ کی طرف رجوع لے آۓ۔ اس لحاظ سے بھی لوگوں کو عبادت گاہوں سے دور کرنا مناسب اقدام نہیں ہو سکتا ہے۔

تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ایسے فتنوں کے دور میں لوگوں کو راحت اسی وقت ملی جب مظلوموں کی داد رسی کی گئی، بھوکوں کو کھانا کھلایا گیا، بے سہاروں کو سہارا دیا گیا اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کی گئی، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے ہر دکھی انسان کا دکھ دور کیا جائے اور پریشان حال کی پریشانی کا مداوا کیا جائے۔

اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ثابت ہو جائے گا کہ ہم اپنی کوششوں میں سچے ہیں اور پھر ان شاء اللہ آسمان سے اللہ کی نصرت نازل ہوگی، دنیا امن و امان محسوس کرے گی اور اس ہلاکت خیز وبا سے سب کو نجات حاصل ہو گی، إن شاء الله۔

*آدمی ہے تو آدمی ہی رہ*
*آدمیت کو داغ دار نہ کر*

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا