کورونا وائرس کے خطرات

0
0

جموں سے سری نگر کا زمینی سفر کرایہ آسمان پر
یواین آئی

سرینگر؍؍ کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال کے پیش نظر ملک کے مختلف حصوں سے وادی واپس لوٹنے والے طلبا اور تجار کے لئے جموں سے سری نگر کا زمینی سفر کرایہ نا قابل برداشت بن گیا ہے کیونکہ ڈرائیور حضرات ان سے منہ مانگی رقم بطور کرایہ وصول کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے ہیں۔جموں سے بذریعہ قومی شاہراہ سری نگر آنے والے مسافروں جن میں زیادہ تر طلبا اور تجار شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ ڈرائیور حضرات سری نگر جانے کے لئے معمول سے چار گنا زیادہ کرایہ وصولتے ہیں۔بتادیں کہ کورونا وائرس کے بڑھتے خطرات و خدشات کے پیش نظر ملک بھر میں تعلیمی ادارے بند ہورہے ہیں اور تجارت بھی متاثر ہورہا ہے جس کے باعث طلبا اور تجار نے واپس وادی کا رخ کرنا شروع کیا ہے۔جاوید احمد نامی ایک شال تاجر نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ جموں سے سری نگر آنے کا سفر خرچہ نا قابل برداشت ہے۔انہوں نے بتایا: ‘کورونا وائرس کے خطرات کے پیش نظر تجارت متاثر ہورہا ہے، میں اب گھر واپس آرہا تھا لیکن مجھے کلکتہ سے جموں تک آنے میں جتنا سفر خرچہ بطور کرایہ آیا اب جموں سے سری نگر آنے میں اس سے کافی زیادہ آرہا ہے جو معمول سے کئی گنا زیادہ ہے’۔جاوید نے بتایا کہ ڈرائیور حضرات اس پریشانی کے عالم میں بھی مسافروں جو مجبور بھی ہوتے ہیں اور لاچار بھی، کو لوٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ سومو ڈرائیور آج پانچ یا چھ سو کے بجائے دو ہزار روپے تک جموں سے سری نگر کا کرایہ وصولتے ہیں۔ایک طالب علم نے اپنا نام مخفی رکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جموں سے سری نگر کا کرایہ ہی نہیں بلکہ جموں میں ٹھہرنا بھی انتہائی مہنگا ہوگیا ہے جس کو ایک طالب علم برداشت کرنے سے قاصر ہے۔انہوں نے کہا: ‘میں دلی میں زیر تعلیم ہوں، کورونا وائرس کے باعث گھر واپس آنے کے لئے جب میں جموں پہنچا تو وہاں سے گھر آنے کے لئے جب کرایہ معلوم کیا تو میرے ہوش اڑ گئے کیونکہ وہ معمول سے بھی زیادہ اور میرے خیال سے بھی باہر تھا، اب مجھے آگے بڑھنے کا موقع تھا نہ ٹھہر جانے کی سکت کیونکہ جموں میں ٹھہرنا بھی انتہائی مہنگا ہوگیا ہے کیونکہ ہر چیز کی قیمت یکایک بڑھ گئی ہے’۔موصوف طالب علم نے کہا کہ جموں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے بھی آٹو رکشا ڈرائیور ڈیڑھ سو کے بجائے پانچ سو روپے کا مطالبہ کرتے ہیں۔فیاض احمد نامی ایک معزز شہری کا کہنا ہے کہ اس پریشانی کی گھڑی میں بھی کچھ ایسے عناصر ہیں جو لوگوں کو سہولیت بہم پہنچانے کے بجائے حصول دولت کی کاوشوں میں مصروف عمل ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک طرف لوگوں کو لوٹا جارہا ہے تو دوسری طرف انتظامیہ اس بارے میں خاموش تماشائی بن بیٹھی ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا