عام لوگ اِتنے غافل کیوں؟

0
0

کوروناوائرس کے قہر سے جہاں دُنیامیں ہاہاکارمچی ہوئی ہے، ہرکسی کوجان کے لالے پڑرہے ہیں، دُنیاکی بڑی طاقتیں فی الحال کروناکے سامنے بے بس ہیں، ایک طرف جہاں دُنیاکی سب سے بڑی سُپرپاور امریکہ نے قومی ایمرجنسی کااعلان کرتے ہوئے ایتوار کوقومی دعائیہ مجالس سجائیں اور کوروناوائرس سے نجات کیلئے اپنے خُداکے سامنے سرسجودہوئے وہیں ہمارے ملک ہندوستان میں جہاں حکمران جماعت بھاجپاکے کئی ارکان پارلیمان انتہائی جاہلوں والاروجہ اختیارکئے ہوئے متنازعہ بیانات دے رہے ہیں اور لوگوں کو اندھے عقائیدکی بنیادپرکروناسے محفوظ قرار دے رہے ہیں، کوئی ’گائومُتر‘کوکوروناکاعلاج قرار دے رہاہے توکوئی کچھ حربے اپنارہاہے، وہیں حکومت بلاشبہ انتہائی قابل ستائش اقدامات اُٹھارہی ہے، لندن تک لوگ ہندوستانی ہوائی اڈوں پرکئے گئے انتظامات کی تعریف کررہے ہیں لیکن جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ انتہائی غفلت کامظاہرہ کررہی ہے، اس کانظارہ زیادہ دورجانے کی ضرورت نہیں اگرجموں شہرمیں ہی دیکھاجائے توسنڈے مارکیٹ میں لوگوں کاسیلاب دیکھنے کوملا، جس سے واضح ہوتاہے کہ کوروناکے خطرات سے جہاں حکومت سنجیدہ ہے وہیں عوام کس قدر غیرسنجیدگی کامظاہرہ کررہی ہے، لوگوں کو بار بار بھیڑبھاڑوالے علاقوں سے دوررہنے کی تلقین کی جارہی ہے،وزیراعظم سے لیکرتمام وزرأ، جموں وکشمیریونین ٹیریٹری کے ایل جی، ایل جی کے مشیر،حکومتی ترجمان روہت کنسل، محکمہ صحت کے ساتھ ساتھ ہرکوئی اِدارہ بیداری مہم میں پیش پیش ہے، ضلع مجسٹریٹ بھی اپنے علاقوں میں گائوں گائوں تک بیداری مہم میں سرگرم ہے، لیکن جموں شہرمیں جموں میونسپل کارپوریشن کی کارکردگی حسبِ توقع مایوس کن ہے،میونسپل کارپوریشن کی تمام ترتوجہ بھاجپانمائندگی والی وارڈوں تک ہی محدود ہے، وہیں کوروناسے متعلق بیداری بھی مایوس کن ہے،یہاں افسوسناک رویہ عام لوگوں کاہے، جوبازاروں میں بھیڑمجمع لگانے سے بازنہیں آرہے ہیں،جموں شہرمیں گندگی غلاظت ک بیچ لوگوں کارویہ بھی حیران کن ہے جو اس عالمی وباء کے لئے اپنے دروازے کھول کراپنی ودوسروں کی زندگیوں کوخطرے میں ڈال رہے ہیں،ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن سے لیکر اپنے نیچلی سطح تک جہاں تمام اِدارے متحرک ہیں وہیں عوام کوبھی تعاون دیناہوگا اور اس خطرناک وائرس جسے ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن نے عالمی وباء قرار دیاہے‘پھیلنے سے روکاجاسکتاہے۔یہ وباء جہاں جہاں پائوں پساررہی ہے وہ حکومتی وعوامی غفلت کاہی نتیجہ ہے، ایسے میں لوگوں کو عبرت حاصل کرنے کی ضرورت ہے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا