سدرہ ۔۔۔۔سدرہ۔۔۔ارے او ! سدرہ
چلو باہر آئوں ،ٹیوشن نہیں چلنا کیا آج بھی؟
انشا نے سدرہ کے دروازہ پر آواز لگائی۔۔۔۔لیکن آج پھر سدرہ نے کوئی جواب نہ دیا اور تھوڑی دہر بعد اس کی چھوٹی بہن نازش نے آکر جواب دیا۔۔ـــ’’انشا آپی ،بجیا کے بُخار ہے آپ اکیلی چلی جائے‘‘
انشا پچھلے دو دنوں سے یہی جواب سن رہی تھی اسے سدرہ کا یہ رویّہ اچھا نہ لگا کیونکہ جب سے دونوں نے ایک ساتھ ٹیوشن جانا شروع کیا تھا ،محض تین مہینوں میں دونوں میں کافی گہری دوستی ہو گئی تھی،اور اس درمیان سدرہ اگر کسی وجہ سے ٹیوشن نہ جاتی تو گھر کے باہر آکر انشا سے مل اسکی خیر خیریت ضرور معلوم کرتی اور اپنے نہ جانے کا سبب بھی۔۔۔۔۔۔
’’۔مگر اب وہ ایسا کیوں کر رہی ہے؟کیامجھ سے ناراض ہے یا کوئی بھول ہوئی ہے مجھ سے؟‘‘انشا نے سوچا
سدرہ ایک ہنسنے بولنے والی خوش اخلاق لڑکی تھی جو بہت جلد دوسروں سے گُھل مل جاتی کوئی اسکے سامنے پریشان یا مایوس ہو یہ اُسے قطعی منظور نہیں تھا، اپنے ابّا کی جان تھی ۔۔۔۔اگر کسی بات پر امّی اسے ڈانٹتی تو ابّا ہمیشہ اسے پیار سے سمجھاتے اور امّی سے کہتے ’’میری بچّی اتنی سمجھدار ہے بیگم آپ یو بات بات پر ڈانٹا نہ کریں‘‘ پھر امّی کہتی ’’ آپ کے لاڈ پیار نے بگاڑ رکھا ہے اس طرح تو گھر بار کے کام کبھی سیکھ نہ سکے گی‘‘ ابّا کہتے ’’ پیار سے سکھائے سب سیکھ جائے گی‘‘
سدرہ اور انشا درجہ سات کی طالب علم تھی مگر دونوں کے اسکول الگ الگ تھے،انشا گھر سے کچھ فاصلے پر مقیم ایک اسکول میں زیر تعلیم تھی ،تو وہی سدرہ کا اسکول گھر سے کئی کلومیٹر کی مسافت پر واقع تھا،اسکول تعلیمی اعتبار سے کافی اچھا تھا ،اسکے ابّا کے دوست رحیم خان نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کیونکہ انکے اپنے بچے بھی وہی جاتے تھے ،اس لئے دوری کاخیال ابّا کی نظروں میںبچّی کے بہتر مستقبل کی روشنی کو ماندنہ کر سکا اور انہوں نے اس کا داخلہ پانچوی درجہ سے وہاںکروا دیا ۔۔ابّا کے آفس کا راستہ اُدھر سے ہو کر گزرتا تھا تو وہ اسے اسکول چھوڑ کر روز ایک گھنٹا قبل ہی آفس چلے جاتے اور سدرہ کے چچا آکر اُسے گھر لے جایا کرتے ۔۔۔۔۔۔لیکن اب جبکہ وہ درجہ سات میں پہنچ گئی اورکافی سمجھدار بھی ہو گئی تھی تو ابّا نے اسے گھر کا راستہ سمجھا دیا تھا ۔۔۔اب وہ کبھی بس سے اور کسی سبب بس نہ ملتی تو ٹیمپو سے گھر آجاتی۔۔ابّا اسے ہمیشہ ذیادہ پیسے دیتے اور یہی کہتے ۔۔
’’ سدرہ بیٹا اگر بس نہ ملے تو رکشے سے آجایا کرو۔۔۔اس سے جلدی گھر پہنج جایا کروگی۔‘‘ آخر انکی دو بیٹیاں اورایک چھوٹابیٹا ہی تو تھا انہیں پر خرچ کرنے کے لئے تو وہ دفتر میں دن بھر اتنی محنت کرتے تھے۔ مگر بڑی بیٹی ہونے کے سبب سدرہ جب اپنی امّی کی کفایت شعاریوں کو دیکھتی تو یہی سوچتی کہ ابّا کتنی محنت کرتے ہے اگر وہ بھی امّی کی طرح کچھ پیسے بچا سکتی ہے تو کیوں نہ بچا لے اور اسی خیال سے وہ رکشہ نہ کرتی ۔۔۔۔۔۔تین مہینے پہلے تک تو وہ اپنے تایا ابّا کے بیٹے ارشاد بھائی سے شام کو گھر پر باقی بچّوں کے ساتھ ٹیوشن لیتی تھی مگر جب انہیں دلّی میں ملازمت مل گئی تو یہ سلسہ منقطع ہو گیا۔۔ابّا اس تلاش میں تھے کہ کوئی اچھا ہوم ٹیوٹر مل جائے مگر تب تک وقت ضائع تو نہیں کر سکتے تھے اس لئے سدرہ اپنی گھر سے کچھ دور فائزا میم کے یہاں پڑھنے جانے لگی ۔۔۔وہی اسکی دوستی انشا سے ہوئی تھی ، دونوں کے گھر آس پاس ہونے کے سبب دونوں سہیلیاںاب ساتھ ہی میں آنے جانے لگی تھی۔
لیکن پچھلے د و تین دنوں سے سدرہ کا بدلا ہوا رویہ انشا کے لئے بڑا ہی عجیب اور نا قابلِ برداشت تھا۔۔۔اسے اس وقت خود پر بڑا غصہ آیا تو من ہی من کہنے لگی۔۔۔’’ دیکھ لیا اب ! سدرہ کتنا مانتی ہے تمہیں ۔۔۔شاید اسکی کوئی اور دوست بن گئی ہوگی اس لئے اتنا رعب دکھانے لگی۔۔۔ میں ہی بیوقوف تھی جو اُسے اپنا جان کر روز لینے آجاتی۔۔۔اب سے میں بھی نہ آئونگی‘‘ جب یہ سب کہہ کر بھی اسے تسلّی نہ ملی تو اس نے سوچا کہ وہ خودجا کر اس سے یہ بات کہہ دے گی کہ اگر سدرہ اسے اپنی دوست نہیں مانتی تو وہ بھی اب سے اسکی دوست نہیں۔‘‘۔۔۔وہ گھر کی طرف پلٹی تو نازش ابھی بھی دروازے پر کھڑی کسی خوانچے والے کو بلا رہی تھی ۔۔اس نے غصّے میں پوچھا ۔۔’’ نازش کہاں ہے تمہاری بجیا؟‘‘
۔۔۔نازش ٹھٹک گئی ،چونک کر کہا۔۔۔۔۔ ’’ جی آپی ! بجیا تو اپنے کمرے میں ہے ،انہیں بُخار ہے نہ اس لئے۔۔۔۔۔۔۔۔پھر دھیرے سے بولی۔۔۔۔۔مگر پتہ نہیں کیوں منھ چادر میں چُھپا کر روتی رہتی ہے اکیلے ۔۔۔اور جب ہم کہتے ہے کہ بجیا کیا ہوا ،امّی کو بلا لائے تو جلدی سے آنسو پونچھ کر کہتی ہے۔۔نہیں امّی کو نہ بلانا ،میں رو نہیں رہی آنکھ میں کچھ چلا گیا شاید۔۔۔اب شام کو ابّا کے پاس بھی آکر نہیں بیٹھتی ابّا بلاتے ہے تو کہتی ہے کہ پڑھ رہی، نہ امّی کے پاس جاتی ہے ،امّی آواز دے کر اپنے بلاتی ہے تو کہتی ہے کہ امّی میرے سر میںبہت درد ہے ،بحار ہے یا امتحان قریب ہے تو امّی کہتی ہے اچھا بیٹا تم آرام کر و تاکہ امتحان سے قبل اچھی ہو جائو‘ ‘ نازش نے کہا
نازش کی یہ ساری باتیں سُن کر انشا حیران اور پریشان ہوئی مگر کچھ سمجھ نہ آیا، کیونکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ سدرہ اپنی دن بھر کی باتیں امّی سے ضرور بتاتی تھی۔۔۔تو اس نے نازش کے ساتھ اندر جاکر صحیح صورتِحال جاننے کا فیصلہ کیا۔۔۔ٹیوشن کا ٹائم ہو گیا تھا مگر اس نے سوچا کہ دوست کی خبر گیری اس سے ذیادہ ضروری ہے۔۔۔۔وہ سدرہ کے کمرے کے پاس پہنچی تو نازش اسے وہاں چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔۔۔اس وقت گھر میں سدرہ کی امّی بھی نہ تھی جو اپنے کسی عزیز کے یہاں مٹّی میں گئی تھی۔۔۔۔۔انشا کمرے کے قریب پہنچی تو گھر میں خاموشی ہونے کے سبب اسے سسکیوں کی آواز سنائی دی۔۔۔اس نے گھبرا کر جوں ہی کمرے میں قدم رکھا تو سدرہ چادر سے منھ ڈھانپے رو رہی تھی ۔۔۔۔اس نے آواز دی۔۔۔’’ سدرہ ! ‘‘
اسکی آواز پرچونک کر سدرہ نے جلدی سے آنسو صاف کئے اور چادر ہٹائی ۔۔۔پھر اُسے اپنے پاس بیٹھنے کو جگہ دی ۔۔آشی نے بیٹھتے ساتھ ہی اس سے بُخار کا پوچھا اور کلائی پکڑی تو اس وقت بخار نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔’’بُخار تو نہیں ہے پھر کیوں کئی دنوں سے ٹیوشن نہیں جا رہی ہو؟ اور آج بھی منع کر دیا۔۔کیا بات ہے سدرہ،سب ٹھیک تو ہے؟‘‘ ،اس نے بڑی نرمیسے پوچھا، انشا کا اتنا پوچھنا تھا کہ سدرہ کے من میں پچھلے تین دنوں سے جمع درد و کرب کا سیلاب آنسوئوں کی شکل میں بہنے لگا۔۔۔وہ اپنی وفادار دوست سے گلے لگ کر زار و قطار روتی رہی اور تمام وقت اسکی زبان سے یہی جملے ادا ہوتے رہے کہ۔۔’’اب میں کبھی اسکول نہ جائونگی انشا۔۔۔۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔۔‘‘ جب اسکے غم اور تکلیف جو آنسوئوں کی شکل میں نمودار ہوئے تھے اُسکی مخلص دوست کے نرم کاندھوں نے جذب کر لئے۔۔۔تو اسے آج تین دنوں کے بعد کچھ ہلکا پن محسوس ہوا ،اسے لگا کہ وہ نہ جانے کتنا وزن اپنے سر پر اُٹھائے چل رہی تھی جسے اُس نے بلکل ابھی اُتارا ہو۔۔۔۔ ایک سچّہ دوست مشکل وقت میں خدا کی بھیجی ہوئی کسی خاص نعمت سے کم نہیں ہوتا،جو خدا کے فضل و کرم کے سبب اپنے لمس بھر سے بڑی سے بڑ ی تکلیف کو کم کرنے کی قوت رکھتا ہے۔۔۔۔۔سدرہ کو بھی اس وقت ایسا ہی محسوس ہوا۔
۔ انشا نے اپنے آنچل سے اسکا چہرہ صاف کیا اور پاس رکھی بوتل سے گلاس میں پانی نکال کر سدرہ کو دیا۔۔۔اس نے پانی پی لیا تو ایک بار پھر ایشا نے بڑے خلوص سے پوچھا ’’ سدرہ !کیا ہوا ہے تم اتنا پریشان کیوں ہو؟‘‘ وہ اپنی دوست کی ہر طرح مدد کرنا چاہتی تھی ۔اسکے اس سوال پر سدرہ کو نہ جانے کیا یاد آیا کہ وہ لرز اٹھی ۔۔اس نے کانپتے ہونٹوں سے اپنی دوست سے کہا ’’ تم یہ ساری بات کسی سے بتائوگی تو نہیں۔۔میری امّی سے بھی نہیں‘‘ ۔۔’’ارے پہلے بتائو تو‘‘انشا نے کہا ۔۔’’نہیں پہلے تم وعدہ کرو‘‘۔۔۔کچھ سوچ کر انشا نے کہا ۔۔۔’’ ٹھیک ہے ‘‘۔
پھرسدرہ نے اپنی دوست سے ملے حوصلے کے ذریعہ اپنی بات شروع کی ’’ آشی میں پچھلے کئی دنوں سے بس ہڑتالو ں کے سبب اسکول ٹیمپو سے آتی جاتی تھی۔۔۔۔۔ تین روز پہلے دو لڑکے اور ایک انکل اسکول سے آتے وقت جس ٹیمپو میں مَیں بیٹھی اسی میں سوار ہوگئے اور مجھے گھورنے لگے گندی نظروں سے، تھوڑی دیر بعد یہ لوگ میری ہی سیٹ پر بیٹھ گئے اور مستقل دھکّا لگنے کے بہانے مجھ پر گرنے لگے۔۔۔میں نے کئی دفعہ ٹیمپو روک کر اُترنے کی کوشش کی تو انکل نے کہا ’’ اوئے یہ ٹیمپو رُکنے کا نہیں ۔۔۔تبھی پیسے ملینگے‘‘ اور جب میںنے سوچا کہ سامنے والی سیٹ پر بیٹھ جائوں تو وہ دونوں لڑکے جاکر اس سیٹ پر پھیل گئے۔۔۔لیکن تب تک گھر کی روڈ آگئی تو میں نے چلّا کر ٹیمپو والے سے روکنے کو کہا اور اُترآئی۔۔۔۔انہی میں سے ایک لڑکے نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’ ہائے استاد اب کا کربو۔۔بہت مجا لئے لیو اب اکیلے جائے پڑی تمکا آدھے رستہ۔۔۔۔ہی ہی ہی ہی ہی۔۔۔۔۔۔‘‘
میرا دل اسکی باتیں سُن زور سے دھڑکنے لگا تو میں تیز قدموں سے گھر کی طرف چلنے لگی۔۔۔۔اگلے دن میں اس ٹیمپو میں بیٹھی جس پر پہلے سے کچھ لوگ سوار تھے ۔۔۔مگر اس پر بھی یہ لوگ اسی ٹیمپو میں بیٹھ گئے ۔۔۔۔آج دوسرے لوگوں کے ہونے پر مجھے کچھ راحت ملی ۔۔۔لیکن آدھے ہی راستے پر لوگ اپنی منزل کو اُتر گئے۔۔۔بس ایک دادا جی باقی تھے ۔۔۔گھر کی روڈ آتے ہی مَیں بھاگ کر گھر کی طرف جانے لگی۔۔۔۔تواسی لڑکے نے کہا ۔۔۔’’ارے او گلابو! مُڑ کے تو دیکھ لیوجرا ایک بار۔۔۔۔کہا بھاگ کے چلی جائے رہی ہئو جانی۔۔۔کہو تو ہم چھوڑ دیئی۔۔۔‘ ‘ تبھی دوسرے لڑکے نے کہا۔’’چل بے اندر ،سالے چُپ ہوئے لے آج استاد کے بھیجا گرَم ہے تور نمبر لگ جائی ‘‘
یہ سب سن کر میں نے اسی وقت سوچ لیا تھا کہ کل اسکول نہ جائونگی ،مگر گھر جا کر یاد آیا کہ کل تو مضمون کا مقابلہ ہے جس کہ تیاری میں نے پچھلے کئی دنوں کی تھی۔۔۔۔اور گھر پہ بھی ہ بات بتا چکی تھی۔۔اس لئے کیا بہانا کرکے گھر پر رُکتی کیونکہ سبھی کو اس مقابلے کا پتہ تھا ۔۔۔چار و ناچار اسکول گئی۔۔مگر آج بھی بس نہیں ملی ۔۔۔کچھ دور چل کر آگے آئی تو رکشہ بھی نظر نہ آیا ۔۔۔ دو تین ۔ٹیمپو کہاں جانا ہے پوچھ کر گزر گئے مگر میںنے ڈر کر انہیںنہ روکا۔۔۔۔تبھی گھڑی پر نظر گئی توخیال آیا کہ امّی میرا انتطار کر رہی ہونگی اور مجھے ابھی تک کوئی سواری بھی نہیں ملی۔۔۔۔مجبور ہو کر اس نے ایک ٹیمُپو کو ہاتھ دکھایا ۔۔۔اِدھر اُدھر دیکھا جب کوئی نظر نہ آیا تو بیٹھ گئی۔۔۔۔ کچھ دیر میںپھر وہی لوگ میری ٹیمپو میںبیچ راستے سے آکر بیٹھ گئے۔۔۔۔اور آتے ہی انکل اس سے لگ کر بیٹھ گئے پھر موبائل میں خراب تصویر اور گانے لگا کر مجھے دیکھ خوب ہنسنے لگے۔۔۔ راستے میں کچھ لوگوں نے ٹیمپو کوروکا مگر دونوں لڑکوں نے کسی کو نہ بیٹھنے دیا۔۔۔۔۔۔۔میں نے تنگ آکر چاہا کہ دوسری اُتر جائو تو انکل نے میراہاتھ تھام کر کہا۔۔۔’’ارے کدھر چلی پھول کلی۔۔۔۔تَنِک ہمری سیبا بھی کردیو کبھی۔۔۔بڑا پُن ملے گا بُجُرگوں کی سیوا کرو کھوب میبا کمائو۔۔۔ہا ہاہاہاہا۔۔‘‘ ۔میں نے بارہا ِمنتّیںکی ’’انکل مجھے درد ہو رہا‘‘ تو زور سے ہنسنے لگے ، مجھے کھینچ کر اپنے طرف بٹھا لیا۔۔۔۔۔اور بار بار اپنا ہاتھ دھکّوں کے بہانے مجھ پر رکھنے لگے کبھی کہی تو کبھی کہی۔۔۔اور میں رونے لگی تو میرا دوپٹہ آنسو پوچھنے کے بہانے اتار کر ہاتھ میں لے لیا۔۔۔۔۔میں اپنا ہاتھ چُھڑانے کی کوشش کرتی رہی مگر انہوں نے نہ چھوڑا۔۔۔اور اپنے گندے ہاتھ سے مجھے چھوتے رہیں۔۔۔۔ بچائو بچائو چلاّتی رہی ۔۔۔پر کسے نے مدد نہ کی ۔۔۔۔۔جب گھر کی روڈ قریب آنے لگی اور میں نے چاہا کہ باہر کود جائوں تو ٹیمپو اچانک رُک گئی ،انکل نے ٹیمپو والے کو کچھ پیسے دئے اور بولے۔۔۔’’ لے بے راجووا تور انام۔۔۔جا آج تاڑی پی لیے جی بھر کے ۔۔۔آج ہمار کام کرکے دل کھوس کر دئے۔۔۔اوو سُن بہت جلدی آپن ٹیمپو ہمار کمروا طرفھ موڑ لائے۔۔توکا اور انام دیب۔۔۔۔۔اب اور انتجار نہ ہوئی ہم سے ۔۔۔مال تاجا ہے۔۔۔۔کا سمجھیو‘‘۔۔۔۔۔۔میں نے روتے ہوئے اپنا دوپٹہ چھینا اور روتے ہوئے گھر جانے لگی۔۔۔ پر راستے میں خیال آیا امّی نے ایسی حالت میں دیکھا تو وہ کیا بتائیگی ،اس لئے ایک جگہ رُک کر دوپٹہ درست کیا ،پوتل نکال کر منھ دھویا۔۔۔اور گھر پہنچ کر سیدھے اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔۔۔
بس اتنا کہہ کر اسکا گلا روندھ گیا اور ایک بار پھر آنسوئوں کا طوفان اسکی معصوم آنکھوں سے اُمڑ آیا۔۔۔۔۔’’اب میں کبھی بھی اسکول نہ جائونگی انشا۔۔۔۔۔کبھی بھی نہیں۔۔۔۔۔۔وہ لوگ مجھے کہی نہیں چھوڑینگے۔۔۔۔۔میں گھر سے باہر جانا بند کر دونگی۔۔۔۔۔۔ہمیشہ کے لئے اس کمرے میں قید کر لونگی خود کو۔۔۔۔وہ جو مضمون کے مقابلے میں مجھے اول انعام کے تحت ٹرافی اور میڈل ملنے والا ہے وہ سب بھی نہیں چاہئے مجھے۔۔۔بس اس کمرے میں رہنا ہے اب۔۔۔۔۔مگر تم کسی سے کچھ نہ بتانا۔۔۔۔اور پھر سے اسکی سسکیاں بندھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب کمرے میں صرف سدرہ کی نہیں بلکہ انشا کی سسکیاں بھی شامل ہو گئی تھی۔۔۔اور دونوں کے چہرے آنسوئوں سے پُر تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج آسمان کے سدرہ کو بھی اپنی پاکیزگی اور بلندی پر رونا آیا ہوگا۔۔ وہ بھی اپنی بدقسمتی پہ نالاں ہوگا کہ اسکی آنکھوں کے سامنے ایسا دلدوز منظر۔۔۔ ۔۔ وہ پاک مقام کہ جس کے آگے اللہ کے سب سے عزیز فرشتے جبرئیل ؑ کو بھی جانے کی اجازت نہ تھی۔۔۔۔۔ وہی مقسدّس سدرۃالمنتہیٗ کہ جسکے آگے جانے پر فرشتوں کے بھی پِر جلتے ہے مگر اب اس کے پار جانے میں ان وحشی گنہگاروں کے دل میں ذرّہ برابر بھی خوف نہیں، آج یہ حوّا کی بیٹی سدرہ کو،اس معصوم پھول کو جو ابھی کھلا بھی نہیں اُسے روندنے کے لئے ابنِ آدم بے قرار ہے،اس بنتِ حوّا کی پاکیزگی ،جو اپنی عضمت و بلندی میں سدرۃالمتہی سے بھی آگے ہے اسکو پامال اور رسوا کرنے کے لئے ہر طرف وحشی بھیڑئیے گھات لگائے بیٹھے ہیں جس طرح سمندر میں مگرمچھ اپنے شکار کی تاک میں منھ کھولے بیٹھے رہتے ہیں ۔ بنتِ حوّا کے ان معصوم آنسوئوں اور سسکیوں پر تو سرِ آسماں حوروں ملک بھی لرز گئے ہونگے اور انہوں نے بھی اس منظر کے سامنے آنکھیں موند لی ہوگی ۔ ۔۔۔۔ مگر نہیں بند ہوئی تو انکی آنکھیں جو یہ کام کر رہیں تھے ،جو یہ بھی بھول چکے ہیں کہ کبھی اسی عورت کے بطن سے پیدا ہوئے ہے، جن نسونی ہاتھوں نے پال کر آج اسے اس لائق بنایاآج وہی ہاتھ اسکی عصمت لوٹتے ہوئے نہیں کانپیں ۔۔۔۔۔لیکن انہیں اس سب سے کیا مطلب ۔۔۔۔۔۔یہ تو وہ وحشی ہاتھ ہیں جن کے لئے پیٹ کے بعد جسم کی بھوک پوری ہونا ضروری ہے ۔۔۔جنکا کوئی مذہب نہیں کوئی ایمان نہیں ۔۔۔۔سوائے انکی جنسی بھوک مٹنے کے ۔۔۔۔۔اور انکی حیوانیت نے انسانیت کو کہی دور منوں مٹّی کے نیچے دفن کر دیا ہے۔
اور اب نہ جانے کب تک سدرہ کی چیخ دنیا میں گونچتی رہے گی۔۔۔کہ فرشتے بھی کانپ اٹھینگے۔۔”سدرۃالمنتہی تڑپ جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔مگر ان حیوانوں کے وحشی ہاتھ اس وقت بھی کسی دوسری سدرہ کو جنسی تشدّد کا شکار بنا ئے اسے دبوچ رہیں ہونگے۔۔۔اور تتلی کے رنگین پنکھوں کو مسل کر سارے رنگ اپنے ہاتھ میں لے لینگے اور اسے کہی کسی کونے میں نیم جان چھوڑ کر چلے جائینگے کہ جسکے بعد نہ وہ جینے کے قابل رہیگی اور نہ مرنے کے۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔۔ سدرہ کی دلدوز چیخ و پکار سن کر لمحاتی آہ بھرنے والے لوگ ،دنیا کے یہ تماش بیں جنکی آنکھیں بظاہر تو کُھلی ہوتی ہے مگر انکے احساس کب کے شِل ہو چکے ہے ، اور اب اُنکے ضمیر ان سے میلوں دور کہی گہری نیند میں سو رہیں ہَیں،کیونکہ وہ اُنکی اپنی سدرہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔نہ جانے کب تک۔۔۔یہ سلسہ یوں ہی جاری رہے گا؟
اِرم نعیم(ریسرچ اسکالر)
شعبئہ اُردو،الہ آباد یونیورسٹی،الہ آباد،یو۔پی
Name- ERAM NAIM ( Bank passbook name)
Research Scholar ,Dept Of Urdu,Allahabad University
Email- [email protected]
Mob Num- 7985705617